میٹھا زہر

باب العلم حضرت علی رضی اﷲ عنہ کاخوب صورت قول ہر دور کے انسانوں کیلئے غورطلب ہے ،"زہرکے سوا ہرکڑوی شے میں شفاء جبکہ شہد کے سواہرمیٹھی شے میں بیماری ہے "۔آج پاکستان میں چینی بحران کے سبب بے چینی کادوردورہ ہے۔صارف کی چینی کیلئے شدت سے طلب نے اس کانرخ آسمان تک پہنچادیا۔صارف چاہے تو صرف اپناہاتھ روکتے ہوئے ہوشربا مہنگائی کازورتوڑسکتا ہے،چینی میٹھا زہر ہے لہٰذاء اسے اپنی زندگی سے نکال دیں توصحت میں نمایاں بہتری آئے گی۔اگر شہری چاہیں تووہ بہت آرام سے مہنگائی کنٹرول کرسکتے ہیں ،انہیں صرف چینی سمیت مختلف ضروریات زندگی کے استعمال میں خاطرخواہ کمی کرناہوگی ۔ہمیں انفرادی اوراجتماعی حالت زار تبدیل کرنے کیلئے اپنی اپنی عادات بدلناہوں گی۔اپنی روزہ مرہ زندگی میں سادگی کوفروغ دیں ،ناشتہ اورڈنر اپنے اپنے گھر پرتناول کریں ۔چینی کواپنی زندگی سے نکال دیں ایسا کرنے سے آپ کومختلف ادویات سے بھی نجات ملے گی۔

زمانہ قدم میں یہ ہوتا تھاشہنشاہوں کو جب علم ہوتا کہ ہماری رعایا کسی پریشانی سے دوچار ہے تو وہ راتوں کومختلف بہروب دھار کر خود عوام کے معمولات اور حالات زندگی معلوم کرنے یا پھر ان کی آراء سے آگہی کیلئے آبادیوں میں چلے جایاکرتے تھے اور انہیں زمینی حقائق معلوم کرنے میں بہت آسانی ہوجاتی تھی، اوریوں رعایا کو بھی ہر سطح پر ریلیف مل جایاکرتا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مہنگائی بڑھی تو طوفان برپا ہوا، لیکن قیمتوں میں کمی ہوئی تو اس کا تذکرہ نہیں ہوا۔ان کاکہنا ہے ہر سطح پر ہماری ٹانگیں کھینچی جارہی ہیں، جبکہ ہماری حکومت کی کارکردگی تو بہت بہتر ہے ۔میں وزیراعظم سے سوال پوچھتی ہوں یہ ہے کہ آپ نے اپنے جن وزیروں یا مشیروں کی زبان سے یہ بات سنی ہے یا جن لوگوں نے آپ کویہ رپورٹ پیش کی ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں جاں بہ لب پاکستان کے عوام اب آپ کو اپنا مسیحا سمجھ رہے ہیں۔ تو لگتا ہے وہ مشیر اپنے آبائی ملکوں یعنی یورپ اور امریکا سے ابھی ابھی واپس پاکستان آئے ہوں گے اور وہاں کے عوام کی آسودگی کی رپورٹ دے کر آپ کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں کیونکہ آپ تک غیرملکی شہریت کے حامل مشیروں کے سواکسی عام آدمی کورسائی نہیں ملتی۔جبکہ ان مشیروں کو پاکستانیوں کے دکھ، درد ،احساس محرومی اور کرب کا نہ کوئی احساس ہے اور نہ ہی ان کے پاس ایسی کوئی دوررس منصوبہ بندی ہے جس سے اس پریشان حال قوم کے دکھوں کا درماں ہوسکے۔

وزیراعظم عمران خان سے دوسرا سوال یہ ہے کہ مہنگائی میں کمی کی نوید آپ کس ملک کے عوام کوسنارہے ہیں۔ اگر آپ اپنے ہم وطنوں کو مخاطب کرر ہے ہیں تو پھرمیں قوم کی ایک بیٹی کی حیثیت سے اس کا جواب دینا اپنا فرض سمجھتی ہوں اورببانگ دہل اعلان کرتی ہوں کہ پنجاب سمیت چاروں صوبوں کے کسی شہر،قصہ یادورافتادہ گاؤں میں مہنگائی میں رتی بھر کمی نہیں ہوئی اورنہ ماہ صیام کے دوران اس امرکاامکان ہے ۔ ضروریات زندگی میں کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں ملی ہے۔ اگر آپ چینی کی بات کرتے ہیں تو آپ آج ہی ایک عام شہری یاصارف کے گیٹ اپ میں کسی گاؤں یا کسی شہر کی دکان پر تشریف لے جائیں تو کوئی دکاندار آپ کو چینی فی کلو سوروپے سے کم نہیں دے گا۔ اگر آپ یو ٹیلیٹی سٹور پر جائیں گے تو وہاں پر آپ کو چینی غائب ملی گی۔ اگر دستیاب ہے تو آپ کو کم از کم دو ہزار روپے کی مزید شاپنگ کرناہوگی ورنہ چینی پرآپ کاحق تصور نہیں کیاجائے گا۔ یعنی جس کے پاس مزید سامان خرید نے کیلئے رقم نہ ہووہ ان یوٹیلیٹی سٹورز سے بھی چینی نہیں خرید سکتا۔ اس کے علاوہ یو ٹیلیٹی سٹورز پر د وسری ضروریات زندگی کا جو معیار ہے وہ بھی خاص وعام اچھی طرح سب جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں پر بل بنانے والی ایسی مشینیں نصب ہیں جن کے بنائے ہوئے بل جب گھر جاکر دیکھیں تو وہ عام جنرل اسٹور سے 20 سے 25 فیصد زائد ہی بنتے ہیں ۔

حکومت نے چینی کی قیمت اپنے طور پر کمی تو کرلی ہے لیکن عوام کو یہ کس قیمت پر ملے گی، اس کیلئے آپ کی بیڈگورننس اوربد انتظامی کے مضمرات عام لوگ پچھلے ڈھائی سال سے برداشت کر رہے ہیں۔ عوام تو اب مزید خوفزدہ ہونااور گھبرانا شروع ہوگئے ہیں کہ حکومت نے چینی کی قیمت فی کلو 80 روپے مقررکردی ہے تو اب چینی 100 روپے میں بھی نہیں ملے گی کیونکہ تبدیلی سرکار کے دوراقتدارمیں اب تک وزیراعظم عمران خان نے جن مصنوعات کے نرخوں میں کمی کی ہے الٹا وہ ناپید ہوگئی ہیں اور اس کے نرخ دوگنا کرنے کا خود ہی اعلان کردیتے ہیں، حکومت کے اس اقدام کو عوام دواؤں اور پٹرول کی قیمتوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ اسی طرح چینی کے بارے میں بھی وزیراعظم عمران خان خود ہی یہ اعلان کریں گے کہ چینی کی قیمت 150 روپے کردی گئی ہے تاکہ سٹہ مافیا اسے ذخیرہ نہ کر ے اور عوام کی دسترس سے دور نہ ہو ۔ عوام صرف چینی ہی تو نہیں استعمال کرتے ،انہیں دوسری ضروریات زندگی کی بھی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے، جس میں مختلف اقسام کی دال،موسمی پھل، گوشت، سبزیاں، گھی اور آٹا وغیرہ۔ اگر صرف چینی کے نرخ میں کمی سے حکمرانوں نے ڈینگیں مارناشروع کردی ہیں تو پھر دوسری اجناس کے نرخ کون کنٹرول کرے گا ۔ اس کے باوجود وزیراعظم کولگتا ہے ان کے وزیر، مشیر حکومت کی کارکردگی کوموثر انداز سے عوام کے روبروپیش نہیں کررہے،لیکن جھوٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ماہ صیام کا بابرکت مہینہ شروع ہوگیا ہے، لیکن اب تک وفاقی حکومت سمیت کسی صوبائی حکومت کی کوئی واضح پالیسی منظرعام پرنہیں آئی کہ نادار ومفلس اور مزدور ومحنت کش طبقات سحری وافطاری کاکس طرح اہتمام کریں گے۔


 

Sana Agha Khan
About the Author: Sana Agha Khan Read More Articles by Sana Agha Khan: 18 Articles with 13460 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.