سَفرِ مُوسٰی و مُلاقاتِ مَردِ بزُرگ { 3 }

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالکہف ، اٰیت 65 تا 70 ازقلممولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فواجدا
عبدا من عبادنا
اٰتینٰہ رحمة من عندنا
وعلمنٰہ من لدنا علما 65 قال
لہ موسٰی ھل اتبعک علٰی ان تعلمن
مما علمت رشدا 66 قال انک لن تستطیع
معی صبرا 67 وکیف تصبر علٰی مالم تحط بہ
خبرا 68 قال ستجدنی ان شاء اللہ صابرا ولا اعصی
لک امرا 69 قال فان اتبعتنی فلا تسئلنی عن شئی حتٰی
احدث لک منہ ذکرا 70
پھر جب وہ دونوں رُفقاۓ سفر لوٹ کر دو دریاؤں کے سنگم پر پُہنچے تو اُنہوں نے وہاں پر میرے خاص اہلکاروں میں سے اُس خاص اہل کار کو موجُود پایا جس پر ھم مہربان تھے اور جس کو ھم نے اپنے علمِ خاص سے تجزیہِ حالات کا وہ مَلکہِ خاص عطا فرمایا تھا جس سے وہ پیش آمدہ حالات کا درست تجزیہ کر کے درست فیصلے کر لیتا تھا ، مُوسٰی نے ھمارے اُس بندے سے کہا کیا ایسا مُمکن ھے کہ میں بھی کُچھ مُدت تک آپ کے ساتھ رہوں اور پیش آمدہ حالات کا درست درست تجزیہ کرنے کا وہ علم سیکھ لوں جو سیاست و مُدن اور اُس کے انتظامی اُمور میں کار آمد ہوتا ھے ، میرے اُس علم پرور اہل کار نے کہا کہ مُجھے تو اِس پر کوئی اعتراض نہیں ھے لیکن آپ مُجھ سے میرا جو علم سیکھنا چاہتے ہیں میرا وہ علم مُجھے بتاتا ھے کہ آپ میرے ساتھ رہیں گے تو پیش آمدہ حالات کا صبر کے ساتھ مُشاھدہ نہیں کر سکیں گے اور آپ بَھلا اُس کام کو دیکھ کر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جس کا آپ نے پہلے کبھی بھی مُشاھدہ نہ کیا ہو جس پر مُوسٰی نے کہا کہ اگر اللہ تعالٰی کی مشیت میرے شاملِ حال رہی تو آپ مُجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حُکم سے سرتابی نہیں کروں گا ، مُوسٰی کے اِس جواب کے بعد میرے اُس اہل کارِ خاص نے کہا اگر آپ میرے ساتھ رہنے پر مُصر ہیں تو پھر آپ کو اَس اَمر کا خیال رکھنا ہو گا کہ کسی واقعے کے بارے میں جب تک میں خود کُچھ نہیں کہوں گا آپ مُجھ سے خود کوئی سوال نہیں کریں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کے ترتیب کے ساتھ بیان کیۓ ہوۓ اِس مضمون کے مطابق مُوسٰی علیہ السلام کے سفر کا پہلا قیام "مجمع البحرین" کے اُس مقام پر ہوا تھا جہاں ایک طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد اُنہوں نے پہلی بار کُچھ دیر تک قیام اور کُچھ دیر کے لیۓ کُچھ آرام کیا تھا اور مُوسٰی علیہ السلام کا دُوسرا قیام "مجمع البحرین" سے گزرنے کے بعد اُس مقام پر ہوا تھا جہاں اُنہوں نے صبح کا کھانا کھایا تھا اور جہاں اُن کو اُن کے رفیقِ سفر نے پہلے مقام پر "حوت" کے دریا بُرد ہونے کا واقعہ یاد دلایا تھا اور اَب اُس مقام سے واپس آنے کے بعد مُوسٰی علیہ السلام کا تیسرا قیام اُسی پہلے مقام پر ہوا ھے جہاں پہلی بار وہ پُہنچے تھے تو اُس مردِ بزرگ کو تلاش کیۓ بغیر ہی سو گۓ تھے اور اَب جب دُوسری بار وہ وہاں پُہنچے ہیں تو اُس مردِ بزرگ کو اُنہوں نے تلاش کیا ھے اور پالیا ھے لیکن مُوسٰی علیہ السلام کی اِس مردِ بزرگ کے ساتھ باقاعدہ مُلاقات سے پہلے اللہ تعالٰی نے مُوسٰی علیہ السلام کو اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں سب سے پہلے یہ بات بتائی ھے کہ آپ جس مردِ بزرگ کو ملنے کے لیۓ یہاں آۓ ہیں یہ ھمارے بہت سے مردانِ کار میں سے ھمارا ایک خاص مردِ کار و مردِ مُعتبر ھے ، اِس مُعتبر مردِ کار کے اِس ذاتی تعارف کے بعد اٰیاتِ بالا کی دُوسری اٰیت میں اِس مردِ مُعتبر کا یہ علمی تعارف کرایا گیا ھے کہ اِس مردِ مُعتبر کے پاس ایک تو ھمارا دیا ہوا وہ "علمِ علَّم" ھے جو اِس کی تخلیق کے وقت ھم نے اِس کی فطرت میں فطرت بنا کر شامل کیا ہوا ھے اور جس علمِ فطرت کی بدولت ھمارا یہ مُعتبر بندہ جس وقت جس پیش آمدہ مسئلے کا جو تجزیہ کرتا ھے وہ ایک درست تجزیہ ہوتا ھے اور اپنے درست تجزیۓ کے بعد جو درست فیصلہ کرتا ھے وہ فیصلہ بھی ایک درست اور مُعتبر فیصلہ ہوتا ھے اور اِس کا دُوسرا علم ھمارا عطا کیا ہوا وہ "علمِ رُشد" ھے جو اِس کی فطرت میں ہمہ وقت بیدار رہتا ھے جس کی وجہ سے یہ ہر حاضر مسئلے کا اپنی حاضر دماغی کے ساتھ ہمیشہ ہی پہلے ایک درست تجزیہ کرتا ھے اور پھر اُس درست تجزیۓ کے بعد ایک ایسا درست فیصلہ کرتا ھے جس کو ہر عقلِ سلیم تسلیم کرتی ھے ، قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی کے جس علمِ علَّم کا ذکر کیا ھے اُس علمِ علَّم کو سُورةُالنساء کی اٰیت 67 ، سُورةُالکہف کی اٰیت 65 ، سُورہِ مریم کہ اٰیت 13 ، سُورہِ طٰہٰ کی اٰیت 99 ، سُورةُالاَنبیاء کی اٰیت 17 اور سُورةُالقصص کی اٰیت 57 چونکہ اپنی ایک خاص لفظی ترکیب "من لدنا " کے ساتھ استعمال کیا ھے اِس لیۓ کُچھ صوفی الفاظ کی ترکیب کے مطابق اِس علم کو "علمِ لدُنی" کہتے ہیں اور یہ بھی سمجھتے اور کہتے ہیں کہ یہ علمِ لدُنی اُن کے صوفی طبقے کے علمِ تصوف کے لیۓ ھے لیکن یہ بات درست نہیں ھے کیونکہ یہ علم عوام کا علم نہیں ھے بلکہ صرف اَنباۓ کرام کا علم ھے ، یہ وہی علمِ علَّم ھے جو اِس سے پہلے سُورةُالبقرة کی اٰیت 31 کے مطابق آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت آدم علیہ السلام کی فطرت میں فطرت بنا کر شامل کیا گیا تھا تاکہ جب آدم کی ذات سے آدم کا یہ علمِ فطرت ظاہر ہو تو فرشتے اُس کے اقتدار کو تسلیم کرلیں ، سُورہِ یُوسف کی اٰیت 68 کے مطابق یہی علمِ علَّم یُوسف علیہ السلام کی تخلیق کے وقت یُوسف علیہ السلام کی فطرت میں" تعبیر الرویا " بنا کر شامل کیا گیا تھا تاکہ جب یُوسف علیہ السلام کی فطرت سے اِس کا ظہور ہو تو فرعونِ مصر اپنے اقتدار سے دست بردار ہو کر یُوسف علیہ السلام کے اقتدار کو قبول کرلے ، سُورةُ الاَنبیاء کی اٰیت 80 کے مطابق یہی علمِ علَّم تھا جو سلیمان علیہ السلام کی تخلیق کے وقت سلیمان علیہ السلام کی فطرت میں فطرت بنا کر شامل کیا گیا تھا تاکہ جب سلیمان علیہ السلام کی فطرت سے اِس کا ظہور ہو تو فطرت کی نادیدہ طاقتیں اُن کے سامنے سرنگوں ہو جائیں ، سُورہِ یٰس کی اٰیت 69 کے مطابق یہی علمِ علَّم تھا جو سیدنا محمد علیہ السلام کی تخلیق کے وقت سیدنا محمد علیہ السلام کی فطرت میں فطرت بنا کر شامل کیا گیا تھا اور سُورةُالنجم کی اٰیت 5 کے مطابق یہی وہ علمِ علَّم تھا جس کو ایک طاقت ور ترین وحی کی صورت میں سیدنا محمد علیہ السلام کے سینے پر ثبت کیا گیا تھا اور آپ کے سینے نے اُس عظیم وحی کو اپنے سینے میں جذب کر لیا تھا اور اسی سُورت کی اٰیت 3 کے مطابق سیدنا محمد علیہ السلام کو اِس وحی کے اظہار کے لیۓ ایک نطقِ خاص عطا فرمایا گیا تھا اور پھر سُورہِ رحمٰن کی اٰیت 4 اور 5 کے مطابق سیدنا محمد علیہ السلام کے اسی نطقِ خاص کو زمین و آسمان کے ہر ایک عام و خاص گوشے تک پُہنچانے کے لیۓ یہی علمِ علَّم انسان کی تخلیق سے پہلے انسان کی فطرت میں فطرت بنا کر شامل کیا گیا تھا تاکہ انسان جب جسم و رُوح کے ساتھ زمین پر آۓ تو وہ اُس وحی کا داعی و مُبلغ بن کر زمین پر آۓ جو وحی سیدنا محمد علیہ السلام پر نازل کی گئی ھے اور جہاں تک اِس مردِ بزرگ کو دیۓ گۓ علمِ رُشد کا تعلق ھے تو یہ بھی وہی علمِ رُشد ھے جس کو قُرآنِ کریم نے سُورةُالبقرة کی اٰیت 256 ، سُورةُالنساء کی اٰیت 6 ، سُورةُالاَعراف کی اٰیت 146 ، سُورةُالکہف کی اٰیت 10 ، 46 ، 66 ، سُورةُالاَنبیاء کہ اٰیت 51 ، سُورةُالجن کی اٰیت 10 ، 14 اور 21 میں مُختلف علمی زاویوں کے ساتھ بیان کیا ھے اٰیاتِ بالا کے پہلے حصے میں تو اُس مردِ مُعتبر کا تعاف ھے جس مردِ مُعتبر کو مُوسٰی علیہ السلام نے اپنا اتالیق بنانے خواہش ظاہر کی ھے اور اٰیات کے دُوسرے حصے میں اُس اتالیق کی مُوسٰی علیہ السلام کے سامنے پیش کی گئی یہ شرط ھے کہ اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اِس اَمر کا خیال رکھنا ہوگا کہ کسی واقعے کے بارے میں جب تک میں خود کُچھ نہ کہوں گا تو آپ خود مُجھ سے کوئی سوال نہیں کریں گے اور مُوسٰی علیہ السلام نے یہ شرط قبول کر لی ھے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558322 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More