سَفرِ مُوسٰی و مُلاقاتِ مردِ بزرگ { 4 }
(Babar Alyas , Chichawatni)
#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالکہف ،
اٰیت 71 تا 78 ازقلممولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فانطلقا
حتٰی اذا رکبا فی
السفینة خرقھا قال
اخرقتہا لتغرق اھلھا لقد
جئت شیئا امرا 71 قال الم
اقل انک لن تستطیع معی صبرا
72 قال لا تؤاخذنی بما نسیت ولا
ترھقنی من امری عسرا 73 فانطلقا حتٰی
اذا لقیا غلٰما فقتلہ قال اقتلت نفسا زکیة بغیر
نفس لقد جئت شیئا نکرا 74 قال الم اقل لک انک
لن تستطیع معی صبرا 75 قال ان سالتک عن شئی بعد
ھا فلا تصٰحبنی قد بلغت من لدنی عذرا 76 فانطلقا حتٰی
اذا اتیا اھل قریة استطعما اھلھا فابوا ان یضیفو ھما فوجدا
فیھا جدارا یرید ان ینقض فاقامہ قال لوشئت لتخذ علیہ اجرا 77
قال ھٰذا فراق بینی و بینک سانبئک بتاویل مالم تستطع علیہ صبرا78
سطُورِ رَفتہ میں بیان کیۓ گۓ اُس قول و قرار کے بعد مُوسٰی اور اتالیقِ
مُوسٰی دونوں نے ایک ساتھ ایک سمت میں چلنا شروع کر دیا یہاں تک کہ وہ پانی
سے گزرنے کے لیۓ ایک کشتی پر سوار ہوۓ لیکن کشتی پر سوار ہوتے ہی اچانک ہی
مُوسٰی کے اتالیق نے اُس کشتی میں سُوراخ کردیا جس پر مُوسٰی نے حیران ہو
کر کہا کہ اگر آپ نے اِس کشتی میں سُوراخ کر کے اِس کے مُسافروں کو ڈبونے
کا عزم کر لیا ھے تو آپ نے یہ بہت ہی خطرناک کام کیا ھے ، اتالیقِ مُوسٰی
بولے کہ کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر اپنے مُشاھدات پر
صبر نہیں کر سکیں گے ، مُوسٰی نے کہا خدارا ! آپ میری اِس بُھول پر میری
گرفت کر کے مُجھے مُشکل میں نہ ڈالیں ، اِس کے بعد وہ دونوں دوبارہ آگے چل
پڑے یہاں تک کہ راستے میں اُن کو ایک غلام ملا جس کو مُوسٰی کے اِس اتالیق
نے کُچھ کہے سُنے بغیر ہی قتل کردیا اور اَب کی بار مُوسٰی نے مزید سختی
اور مزید درشی کے ساتھ پُوچھا کہ آخر اِس بے گناہ غلام نے ایسا کیا قصور
کیا تھا کہ آپ نے اِس کو دیکھتے ہی قتل کر دیا ھے ، اگر اِس کو کسی انسان
کے قتل کے بدلے میں قتل کیا جاتا تو وہ اور بات تھی لیکن آپ نے تو بلا وجہ
ہی ایک بے گناہ انسان کی جان لے لی ھے جو یقیناً آپ کا ایک بُرا عمل کیا ھے
، مُوسٰی کی یہ بات سُن کر اُس مردِ کار نے کہا کہ کیا میں نے پہلے ہی نہیں
کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ پیش آنے والے حالات کو صبر سے نہیں دیکھ سکیں
گے ، مُوسٰی نے کہا اَب تک تو خیر جو ہوا سو ہوا لیکن اگر اِس کے بعد میں
نے اپنے کسی مُشاھدے پر بے صبری کا مظاہرہ کیا تو آپ بیشک مُجھے خود سے الگ
کر دیجیۓ ، اَب تو میں نے آپ کو آپ سے اپنی علیحدگی کا خود ہی وہ اختیار دے
دیا ھے جس پر عمل کر کے آپ مُجھ کو خود سے الگ کر سکتے ہیں ، اِس واقعے کے
بعد یہ دونوں چلتے ہوۓ ایک بستی میں پُہنچے اور بستی والوں سے مہمان داری
کی خواہش کی جس کو بستی والوں نے پزیرائی نہ بخشی لیکن ابھی وہ اسی بستی
میں تھے کہ اُن کو ایک دیوار نظر آئی جو گرنے کے قریب تھی اور اُس دیوار کو
مُوسٰی کے اتالیق نے درست کر دیا جس کی درستی کے بعد مُوسٰی نے کہا کہ کیا
ہی اچھا ہوتا کہ اگر آپ ان لوگوں سے اِس کام کی کُچھ اُجرت بھی لے لیتے اور
مُوسٰی کی یہ بات سُنتے ہی مُوسٰی کے اتالیق نے کہا کہ اَب میرے اور آپ کے
درمیان جُدائی کی وہ دیوار کھڑی ہو گئی ھے کہ جس کے بعد ھم دونوں ایک ساتھ
نہیں رہ سکتے ہیں اِس لیۓ میں جُدا ہونے سے پہلے آپ کے اُن تین سوالوں کا
جواب بھی دیۓ دیتا ہوں جو اِس سفر کے دوران آپ نے مُجھ سے کیۓ ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے اِس مُفصل مفہوم کے مطابق مُوسٰی علیہ السلام تو اِس مردِ
دانا سے کُچھ سیکھنے کے لیۓ اِس مردِ دانا کے پاس آۓ تھے لیکن مُوسٰی علیہ
السلام اور اِس مردِ دانا کی مُلاقات کے آغاز ہی میں یہاں پر کُچھ ایسی
صورت حال بن گئی تھی کہ مُوسٰی علیہ السلام کے باقاعدہ طور پر کُچھ پُوچھنے
اور کُچھ سیکھنے کا موقع آنے سے پہلے ہی وہ بہت ہی غیر متوقع طور پر وہ تین
عجیب و غریب واقعات پیش آگۓ تھے کہ جن پر مُوسٰی علیہ السلام کو مُعترض
ہونا پڑا تھا اور مُعترض ہونے کے نتیجے میں اُن کو اُس مردِ دانا سے کُچھ
سیکھے بغیر ہی وہاں سے واپس ہونا پڑا تھا ، اِن تین واقعات میں سے پہلا
واقعہ وہ ھے کہ مُوسٰی کے یہ اتالیق مُوسٰی کے ہَمراہ جس کشتی پر سوار ہوۓ
تھے اُس کشتی پر سوار ہوتے ہی اُنہوں نے اُس کشتی میں ایک سُوراخ کر کے
کشتی میں سوار ہونے والوں کی زندگی کو ایک خطرے میں ڈال دیا تھا جس پر
مُوسٰی علیہ السلام کی حیرت بھی بجا تھی اور اُن کا سوال کرنا بھی بجا تھا
کیونکہ اِس کشتی کے کسی مُسافر کے پاس اِس بات کا کوئی حق نہیں تھا کہ وہ
اِس کشتی میں سُوراخ کر کے اپنی زندگی اور اپنے ساتھ اِس کشتی کے دیگر
مُسافروں کی زندگی کو اُس خطرے سے دوچار کر دے جس خطرے سے اُن کو اتالیقِ
مُوسٰی نے دوچار کر دیا تھا ، اتالیقِ مُوسٰی کا یہ اَقدام جو بظاہر قتلِ
عمد کا ایک اَقدام تھا اور مُوسٰی علیہ السلام نے اِس پر جو اعتراض یا
احتجاج کیا تھا وہ اعتراض اور احتجاج اُن کا ایک فطری حق تھا لیکن وہ اپنے
اِس فطری اعتراض یا احتجاج کا یہ حق اُسی وقت کھو چکے تھے جب اُنہوں نے اُس
مردِ دانا کے ساتھ دورانِ مصاحبت کوئی سوال نہ کرنے کا عھد کیا تھا اور اَب
اُسی عھد کے مطابق اُس مردِ دانا نے مُوسٰی علیہ السلام کو مزید سوال کرنے
سے روک دیا تھا لیکن اِس پر مزید ستم یہ ہوا کہ مُوسٰی علیہ السلام کشتی
میں سُوراخ کے اُس واقعے کو ابھی ذہن سے نکال بھی نہیں پاۓ تھے کہ اُن کے
اتالیق نے راستے میں ملنے والے ایک غریب غلام کو راستے میں ہی قتل کر دیا
اور مُوسٰی علیہ السلام لاکھ ضبط کے باوجُود بھی اِس پر خاموش نہ رہ سکے
اور اُنہوں نے ایک سختی و درشتی کے ساتھ اپنے اتالیق سے سوال کیا کہ اِس
اَجنبی نوجوان نے ایسا کیا قصور کر دیا تھا کہ آپ نے اُس کو دیکھتے ہی بلا
تامل قتل کر دینا ضروری سمجھا ھے ، اِس بات میں کوئی شُبہ نہیں ھے کہ آپ نے
جو عمل کیا ھے وہ ایک بَدترین عمل ھے لیکن اتالیقِ مُوسٰی نے مُوسٰی کے
پہلے احتجاج کی طرح نہ صرف اِس دُوسرے احتجاج کو بھی نظر انداز کردیا بلکہ
اُن کو یہ بھی دوبارہ یاد دلایا کہ وہ اُن کے ساتھ کیۓ گۓ اپنے اُس معاھدہِ
رفاقت کی خلاف ورزی کر رھے ہیں جو اِس رفاقت سے پہلے اُن کے درمیان طے پایا
تھا اور تیسری بات جو بستی کی ایک گرنے والی دیوار کو درست کرنے کی بات تھی
وہ ایک درست بات تھی اور مُوسٰی علیہ السلام نے اُس دیوار کی درستی کا
معاوضہ لینے کی جو بات کی تھی وہ کوئی ایسی قابلِ گرفت بات نہیں تھی کہ اُس
کو نظر انداز نہ کیا جا سکتا لیکن مُوسٰی علیہ السلام نے جیسے ہی یہ بات کی
تو اتالیقِ مُوسٰی نے اعلان کردیا کہ اَب میرے اور آپ کے درمیان دائمی
جُدائی کی وہ دیوار کھڑی ہوگئی ھے کہ اِس کے بعد ھم نے ایک دُوسرے سے الگ
ہونا ہی ہونا ھے لیکن اتالیقِ مُوسٰی نے مُوسٰی علیہ السلام پر یہ اَمر
واضح کرنا بہر حال مناسب سمجھا ھے کہ مُوسٰی علیہ السلام نے اِس سفر کے
دوران اُن کے جن تین اَقدامات پر تین سوالات کیۓ تھے وہ جُدا ہونے سے پہلے
اُن تین سوالات کا جواب دیں گے اور اُس کے بعد اُن سے جُدا ہوں گے !!
|
|