سَفرِ مُوسٰی و مُلاقاتِ مَردِ بزُرگ { 2 }
(Babar Alyas , Chichawatni)
#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالکہف ،
اٰیت 61 تا 64 ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فلما
بلغا مجمع
بینھما نسیا
حوتھما فاتخذ
سبیلہ فی البحر
سربا 61 فلما جاوزا
قال لفتٰہ اٰتنا غداءنا لقد
لقینا من سفرنا ھٰذا نصبا 62
قال ارءیت اذ اٰوینا الی الصخرة فانی
نسیت الحوت وما انسٰنیہ الا الشیطٰن ان
اذکرہ واتخذ سبیلہ فی سبیلہ فی البحر عجبا
63 قال ذٰلک ما کنا نبغ فارتد علٰی اٰثارھما قصصا 64
پھر جب چلتے چلتے وہ دو دریاؤں کے سنگم تک پُہنچ گۓ تو اُس منزل کو راہِ
منزل جان کر اِس خیال سے کُچھ دیر تک سَستانے کے لیۓ ایک پَتھر کے ساتھ ٹیک
لگا کر بیٹھ گۓ کہ اِک ذرا سا دَم لے کر دوبارہ چل پڑیں گے اور اُن کو یہ
بات یاد نہیں تھی کہ اُن کے اَسباب میں ایک مَچھلی ھے جو اَب اُن کو بے خبر
دیکھ کر حرکت میں آئی اور حیرت انگیز طور پر بھاگنے کے لیۓ ریت میں ایک
سُرنگ نُما راستہ بنا کر پانی کی گھرائی میں جا پُہنچی ھے ، اِس مقام پر
کُچھ دیر آرام کر لینے کے بعد جب وہ آگے بڑھے تو مُوسٰی نے اپنے ساتھی سے
کہا اِس سفر نے بلا شُبہ ہمیں اُکھاڑ پچھاڑ کر رکھ دیا ھے اِس لیۓ مُناسب
ہو گا کہ ہم صبح کا کھانا کھا کر مزید کُچھ دیر کُچھ آرام کریں اور پھر
تازہ دَم ہو کر یہاں سے آگے بڑھیں ، مُوسٰی کے ساتھی نے جب کھانے کا سامان
کھولا تو انتہائی حیرت کے ساتھ بولا کہ کُچھ دیکھا بھی ھے آپ نے کہ اِس سے
قبل ھم پَتھر کی جس چٹان کے پاس رُکے تھے وہاں پر ھمارے پاس جو مَچھلی تھی
وہ اُسی مقام پر ایک حیرت اَنگیز طریقے سے زمین میں سُرنگ بنا کر پانی میں
سرک گئی تھی ، پہلے تو میں خود آپ کے ساتھ اِس کا ذکر کرنا بُھول گیا اور
بعد ازاں اَثناۓ راہ میں شیطان نے بھی میرے ذہن سے یہ بات نکال دی ، نوجوان
کی یہ بات سُن کر مُوسٰی بولے کہ بَھلے آدمی ! یہی تو وہ مقام ھے جس کی
تلاش میں ھم سفر کی یہ صعوبتیں سہتے ہوۓ یہاں تک آۓ ہیں اور پھر جب اُن کو
اِن آثار و قرائن سے اپنی منزلِ مقصود کا یقین ہو گیا تو وہ اُسی لَمحے
اپنے قدموں کے نشانات دیکھتے ہوۓ اُسی جگہ کی طرف چل پڑے جس کو کُچھ دیر
پہلے وہ پیچھے چھوڑ آۓ تھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورةُالکہف کے اِس چوتھے واقعے کی پہلی اٰیت کے پہلے مضمون میں ھم نے عرض
کیا تھا کہ قُرآنِ کریم نے مُوسٰی علیہ السلام کے اِس سفر کو ایک نقلِ
واقعہ کے طور پر نقل کیا ھے ایک اَمرِ واقعہ کے طور پر بیان نہیں کیا ھے
اِس لیۓ پہلی اٰیت میں اِس سفر کے دوران مُوسٰی علیہ السلام کا جس "مجع
البحرین" تک پُہنچنے کا ذکر ہوا ھے وہ "مجمع البحرین" کے اُس مشہورِ زمانہ
قصے کا ذکر ھے جو ماضی میں لوگوں کے درمیان مشہور رہا ھے لیکن یہ قصہ ،
قصہِ یُوسف کی طرح کا وہ قصہ نہیں ھے جس کو قُرآن نے اپنے ایک مُصدقہ بیان
کی طرح بیان کیا ھے ، عقلی و مَنطقی اعتبار سے قُرآن کے بیان کیۓ ہوۓ ایک
مصدقہ قصے میں اور تاریخ کے کسی زبان زَدِ عام ہوجانے والے ایک تاریخی قصے
میں بہر حال ایک قُدرتی فرق ہوتا ھے اور گزشتہ اٰیت میں جس "مجمع البحرین"
کا ذکر ہوا ھے اُس کے بارے میں یہ بات تو طے ھے کہ وہ تاریخ کا ایک زبان
زَدِ عام قصہ ھے لیکن یہ بات ہنُوز تحقیق طلب ھے کہ وہ قصہ ایک اَمرِ واقعہ
کے طور پر کبھی وقوع پزیر ہوا بھی ھے یا نہیں ہوا ھے اور اگر ہوا ھے تو کس
طرح سے ہوا ھے ، قُرآنِ کریم نے اِس واقعے کی پہلی اٰیت میں ایک "مجمع
البحرین" کا ذکر کیا تھا اور اَب موجُودہ اٰیات میں جس دُوسری حیرت اَنگیز
شئی کا ذکر کیا ھے وہ اُس"حُوت" کا ذکر ھے جو عُلماۓ روایات کی روایات کے
مطابق مُوسٰی علیہ السلام کے"مجمع البحرین" کے مقام پر پُہنچنے کے بعد
مُوسٰی علیہ السلام کے کھانے کے سامان سے نکل کر "مجمع البحرین" میں داخل
ہو گئی تھی ، مُوسٰی علیہ السلام کی اِس حُوت کے بارے میں عُلماۓ روایت کی
پہلی معروف روایت اور پہلی معروف راۓ یہ ھے کہ مُوسٰی علیہ السلام نے ایک
مَردِ دانا سے ملنے اور اُس مردِ دانا سے کُچھ سیکھنے کے لیۓ اللہ تعالٰی
کے حُکم پر اِس سفر کا آغاز کیا تھا اور سفر کے آغاز پر اللہ تعالٰی کے
حُکم ہی سے ایک زندہ مَچھلی اپنے ساتھ رکھی تھی اور اللہ تعالٰی نے آپ کو
اُس وقت تک اِس دریا کے کنارے پر چلتے رہنے کی ھدایت کی تھی جب تک یہ
مَچھلی اُن کے سامان سے نکل کر دریا میں نہ چلی جاۓ اور جس مقام پر یہ
مَچھلی اُن کی دسترس سے نکل کر دریا میں چلی جاۓ تو اُس کا دریا میں جانا
ہی اِس بات کی علامت ہو گا کہ وہ مردِ دانا اسی مقام پر کہیں موجُود ھے اور
اسی مقام پر اُس مردِ دانا کے ساتھ مُوسٰی علیہ السلام کی ملاقات ہو سکتی
ھے ، عُلماۓ روایت کی دُوسری معروف روایت اور دُوسری معروف راۓ یہ ھے کہ
مُوسٰی علیہ السلام کے پاس جو مَچھلی موجُود تھی وہ تیل میں تلی ہوئی وہ
مَچھلی تھی جو مُوسٰی علیہ السلام نے اپنے کھانے کے سامان میں اپنے کھانے
کے لیۓ رکھی ہوئی تھی لیکن جب کھانے کا وہ سامان اُن کے سامان سے نکال کر
اُن کے دستر خوان پر رکھا گیا تو مُوسٰی علیہ السلام کے ساتھی کو یاد آیا
کہ اِس وقت تیل میں تلی ہوئی جس مَچھلی کو اُنہوں نے اپنے صبح کے کھانے میں
کھانا تھا وہ تو اُس جگہ اُن کے سامان سے نکل کر دریا میں چلی گئی تھی جس
جگہ پر وہ تازہ دَم ہونے کے لیۓ کُچھ دیر کے لیۓ رُکے تھے اور جب مُوسٰی
علیہ السلام کے اُس نوجوان ساتھی نے مُوسٰی علیہ السلام کو یہ بات بتائی تو
مُوسٰی علیہ السلام نے کہا کہ ھماری منزلِ مقصود وہی تھی جہاں پر وہ مَچھلی
ھمارے سامان سے نکل کر دریا کے سینے میں چلی گئی تھی اور پھر مُوسٰی علیہ
السلام اپنے اُس ساتھی کو یہ بات بتانے کے بعد اپنے اُسی ساتھی کے ساتھ
اپنے یہاں آنے کے قدموں کے نشانات کو دیکھتے ہوۓ اپنی اُس منزلِ مقصود کی
طرف چل پڑے جس منزلِ مقصود کو وہ ایک منزل پیچھے چھوڑ کر ایک منزل آگے آگۓ
تھے لیکن قُرآنِ کریم نے اہلِ روایت کی اِس روایتی مَچھلی کے لیۓ "سمک " کا
وہ لفظ استعمال نہیں کیا جو کلامِ عرب میں جنسِ مَچھلی اور فردِ مَچھلی کے
لیۓ استعمال ہوتا ھے بلکہ قُرآنِ کریم نے اِس کے لیۓ "حوت" بمعنی وہیل
wHAlE کا وہ لفظ استعمال کیا ھے جو مَچھلی کا ہَمشکل ایک بڑا سمندری جانور
ھے اور جس کو ھم اپنے عرف میں مَچھلی کا ہَمشکل ہونے کی وجہ سے مَچھلی کہتے
ہیں لیکن یہ ھمارا وہ عرف ھے جس میں ھم نے"حوت و سمک" اور وہیل و مَچھلی کو
ایک کردیا ھے جب کہ اہلِ عرب کا عرف ھم سے الگ ھے اور ان کے عرف میں اِن
دونوں کو الگ الگ ناموں سے پکارا جاتا ھے اور سب سے بڑی بات یہ ھے قُرآنِ
کریم نے یُونس علیہ السلام کے حوالے سے "حوت" کا جو مفہوم متعین کیا ھے اُس
مفہوم کے مطابق "حوت" کوئی ایسی چھوٹی موٹی مَچھلی ہر گز نہیں ھے کہ جس کو
مُوسٰی علیہ السلام کسی پانی کی چھاگَل میں زندہ رکھ کر یا پھر تیل میں تَل
کر "مجمع البحرین" تک اپنے ساتھ لے آتے اِس لیۓ اہلِ روایت کی یہ روایتی
مَچھلی بھی مُوسٰی علیہ السلام کے اِس سفر کی صحیح عکاسی نہیں کر سکی اور
مُوسٰی علیہ السلام کے اُس نوجوان ہَمسفر نے اُس سفر میں ریت میں سُرنگ
بناکر جس جان دار کو "مجمع البحرین " میں اُترتے دیکھا تھا وہ پکانے اور
کھانے کی کوئی چھوٹی موٹی مَچھلی نہیں تھی ، بنا بریں اہلِ روایت کی مُحولہ
بالا دونوں روایات بھی اِس قصے میں بیان کی گئی دو بیکار روایات ہیں اور
اِس قصے کے حوالے سے انسانی ذہن میں اَب تک جو سوالات پیدا ہوۓ ہیں اور اَب
کے بعد جو سوالات پیدا ہوں گے اِس قصے کے آخر میں اُن سب سوالات کا جواب
آجاۓ گا !!
|
|