صد لاکھ مبارک باد کی مستحق ہیں وہ زندگیاں جنہیں ایک
مرتبہ پھر یہ سعادت ارزاں نصیب ہوئی کہ وہ رمضان ،اﷲ کے مہمان مہینہ کا
استقبال کر سکیں،آبِ زم زم سے دھوئے جانے کے قابل ہیں وہ زبانیں جو
نمازِتراویح میں تلاوت ِکلام ِالہی سے ٖفضائے آسمانی کو معطر کررہی ہیں،خوش
نصیب ہیں وہ انسان جو اپنے جسم کو عبادت میں تھکا کرآخرت میں ہمیشہ کا سکون
حاصل کررہے ہیں ا ور اپنی آنکھوں کو یہ بات سمجھارہے ہیں کہ اے آنکھ اگر آج
تواﷲ کے لئے جاگے گی ،تو کل قبر میں دلہن کی طرح میٹھی نیند سو سکے
گی۔شیطان لعین مردود گیارہ مہینے وسوسہ کاری میں مبتلا کرنے کے بعد زنجیروں
میں جکڑا جا چکا ہے،جنت کے آٹھوں دروازے کھل چکے ہیں جو آخر رمضان تک کھلے
رہیں گے اور دوزخ کے دروازوں پر تالے لگ چکے ہیں اور یہ آخر رمضان تک بند
رہے گی،رمضان المبارک کے لئے جنت کو شروع سال سے آخر سال تک سجایا جاتا ہے
،ادھر رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے ادھر عرش کے نیچے ایک ہوا چلتی ہے جس کی
وجہ سے جنت کے درختوں کے پتے بجنے لگ جاتے ہیں اور آسمان کے دروازے بھی آخر
رمضان تک کھول دیے جاتے ہیں،جنت کی حوریں بھی پکا ر اٹھتی ہیں اے اﷲ اس
مہینہ میں اپنے بندوں میں سے کچھ شوہر مقرر کردے جن سے ہم اپنی آنکھیں
ٹھنڈی کریں اور وہ ہم سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں،جس کے نتیجے میں اﷲ تعالی
ہر روزے کے بدلے میں روزہ دارکی ایک ایسی حور سے شادی کر دیتے ہیں جو ستر
قسم کے لباس میں،سترقسم کی خوشبوؤں میں،ستر ہزار نوکرانیاں اور ستر ہزار
خادموں کے ساتھ موتی سے بنے ہوئے خیمے میں بیٹھی ہوتی ہے (ابن خزیمہ) اور
تراویح کے ہر سجدے کے بدلے ڈیڑھ ہزار نیکیا ں اور جنت میں ایک عالشان محل
جس کے ستر ہزار سونے چاندی کے دروازے اور ایک عالیشان اورلمبے سایے والا
درخت لگا دیا جاتا ہے۔جو ہر روز کے تراویح کے چالیس سجدوں پر مل رہا ہے۔اور
تراویح میں جوقرآن پاک کی تلاوت ہو رہی ہے اگر اس کے اجر کا اندازہ لگایا
جائے تو ہمارے کیلوکلیٹرفیل ہوجائیں اتنا کچھ اﷲ تعالی تراویح کی نماز پر
عطا فرمارہے ہیں اورپھر رمضان میں ہر نیکی کا اجر ستر گنا بڑھادیا جاتا ہے
،اﷲ تعالی باقی پورے سال کا ضابطہ ہی بدل دیتے ہیں اب رمضان میں نفل پڑھو
تو فرض کے برابر اور فرض پڑھو تو ستر فرضوں کے برابر ثواب ملتا ہے۔ اﷲ کی
رحمت کے دریاؤں میں طغیانی سی برپا ہے،ہر روزافطار کے وقت دس لاکھ انسانوں
جہنم کی آگ سے چھٹکارے کا پروانہ مل رہا ہے اور آخررمضان تک ان کی مجموعی
تعداد تین کروڑ ہو جائے گی اورمزید یہ کہ رمضان کی ہر رات میں چھ لاکھ
انسان جہنم کی بھیانک وادی سے نکل کر جنت کی بہاروں میں منتقل کیے جاتے ہیں
اور رمضان کے آخر تک کی ان کی مجموعی تعداد ایک کروڑ اسی لاکھ تک پہنچ جاتی
ہے اور پھر رمضا ن المبارک کی صرف ایک آخری رات میں اس پوری تعداد کے بقدر
جہنمی جہنم کی آگ سے آزاد کر دیے جاتے ہیں۔ادھر سحر گاہی میں حق تعالی اپنے
بچھڑے ہوؤے اور مفرور بندوں کوپکا ر کر کہتا ہے ،ہے کوئی گناہوں کی معافی
چاہنے والا کہ اس کو معاف کردیا جائے،ہے کوئی مصیبت میں مبتلا کہ اس کی
مصیبت کو دور کردیا جائے،ہے کوئی مانگنے والا کہ اس کو عطا کردیا جائے،روزہ
دار کے لئے سمندر میں مچھلیاں ،بلوں میں چیونٹیاں ،ہواؤں میں پرندے مغفرت
کی دعا کر رہے ہیں تو کتنی بڑی سعادت ہے کہ اﷲ نے ہمیں ایسی برکت والا ،رحمت
والا اور مغفرت والامہینہ عطا فرمایا ہے ہمیں چاہیے کہ اس مہینہ میں خوب
اہتمام کے ساتھ روزے رکھیں ،بے شک سورج آگ برسا رہا ہے اوراس گرمی کی شدت
میں مشقت کا روزہ ہے لیکن ہمیں یا د رکھنا چاہیے کہ یہ مشقت ختم ہو جائے گی
اور روزے پر ملنے والا اجرہمیشہ باقی رہے گا۔اور حضرت سیدنا علی المرتضی
رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں مجھے گرمیوں کے روزے اس ساری دنیا سے سب سے زیادہ
زیادہ محبوب ہیں۔اس گرمی کو دیکھ کر ایک قرآن کا تفسیری واقعہ ذہن میں آرہا
ہے کہ جب غزوۂ تبوک کے موقع پرشدید گرمی میں اﷲ کا حکم نازل ہوا کہ‘‘ اﷲ کی
راہ میں جہاد کے لئے نکلو ہلکے ہو یا بوجھل‘‘،اﷲ کی شان اس وقت مسلمانوں پر
یہودیوں کا قرضہ بھی تھا اور کھجور کی فصل بھی بالکل تیا رتھی مسلمانوں کو
خوشی تھی کہ اس اچھی ٖفصل سے ہم یہود کا قرض ادا کر دیں گے، ادھر اﷲ جل
شانہ کا حکم نازل ہو گیا کہ اﷲ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو تو سب کے سب
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم بے چون وچراں تیا ر ہو گئے ۔جب منافقین کو پتہ چلا
تو وہ شیطان کے وسوسوں میں آکر روڑے اٹکانے لگے اور کہنے لگے‘‘ ارے تم پکی
ہوئی فصل اور رزق چھوڑ کر کہاں جارہے ہو‘‘صحابہؓ نے فرمایا ہم رزق کو چھوڑ
کو رازق کی طرف جارہے ہیں پھر وہ کہنے لگے ۔‘‘لا تنفروا ٖفی الحر‘‘ اتنی
گرمی میں مت نکلو‘‘تو اﷲ تعالی نے خود جواب دیا ‘‘قل نار جھنم اشد حرا‘‘ اے
میرے پیارے حبیب ،انہیں فرمادیجیے جہنم کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے۔تو
جیسے شیطان لوگوں نے صحابہ کرام ؓسے کہا تھا کہ گرمی میں مت نکلو ،تو آج
ہمیں اس موسم کی شدت دکھا کر شیطان کہہ رہا ہے ‘‘لا تصوموا فی الحر‘‘ کہ
گرمیوں کے روزے مت رکھو تو ہم بھی اﷲ کا سکھایا ہوا جواب اسے صاف صاف
سنادیں کہ جہنم کی گرمی اس گرمی سے بہت زیادہ سخت ہے۔اگر ہمیں16 گھنٹے کے
پچاس ہزار سیکنڈ کی پیاس پر برداشت کر کے قیامت کے پچاس ہزار سال کے دن عرش
کاسایہ اور اﷲ جل شانہ کے پیارے حبیب نبی کریم ﷺ کے دست مبارک سے آب ِکوثر
ملتا ہے تو کتنا سستا سودا ہے ایک سیکنڈ کی پیاس ،گرمی اور مشقت برداشت کر
کے قیامت کی ایک ہزار سال کی گرمی ،پیاس اور مشقت سے نجات ملتی ہے تواﷲ کی
قسم بے حد سستا سودا ہے اب تو سورج نو کروڑ دو لاکھ میل کے فاصلے پر ہے اس
کے باوجود گرمی ناقابل برداشت ہے قیامت کے دن تو سورج سر پر ہوگا اس کی
گرمی پھر قبر اور جہنم کی گرمی سے بچنے کیلئے روزوں کا ضرور اہتمام کریں ۔اگر
ہو سکے تو سحری کی قبولیت کی گھڑیوں میں روزے کی آسانی کے لئے یوں دعا
کریں‘‘اللھم لا سھل الا ماجعلتہ سھلا وانت تجعل الحزن اذا شئت’’آسان تو صرف
وہی کام ہے جس کو اﷲ تعالی آسان فرما دیں وہ جب چاہے بڑے سے بڑے مشکل کام
کو بے حد آسان کر سکتا ہے۔
|