شیخیاں اور شوخیاں

کونین میں ریاست مدینہ ایک ہے ،دوردورتک دوسری کوئی نہیں ۔ہجرت کے بعداسلامی نظریات وتعلیمات کی آبیاری نے یثرب کومدینہ منورہ اورعشاق کی وفاؤں کامحورومرکز بنادیا۔کوئی ریاست" مدینہ ثانی" تودرکنار مدینہ شریف کی مقدس خاک کے برابر بھی نہیں ہوسکتی۔ریاست مدینہ سے پاکستان کیلئے ٹھنڈی ہواؤں کاآناکافی ہے،ریاست مدینہ کے تقدس پرہزاروں پاکستان قربان کئے جاسکتے ہیں۔یادرکھیں اﷲ رب العزت اوراس کے محبوب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کا"قرب" بڑے" کرب" کے بعد ملتا ہے، عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنے آپ میں ایک انعام،ایک امتحان اور بہت خاص احساس ہے لیکن عہدحاضر میں ہم نے اس بیش قیمت جذبہ کو بہت عام کردیا ۔ ہم نے معمولی فائدے کیلئے ایک دوسرے کوعاشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کہنا اپنامعمول بنالیا ۔راہ عشق میں آگ کے سمندراور اشک ہوتے ہیں ،فطری عشق انسان کو مہان اور قابل رشک بنادیتا ہے۔ جس طرح ہرکوئی نصاب عشق نہیں پڑھ سکتا ،اس طرح ہرکوئی حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ، حضرت اویس قرنی رضی اﷲ عنہ اورحضرت بلال رضی اﷲ عنہ نہیں ہوسکتا۔راہِ حق میں جس وقت تک ہماری" انا" کاسومنات "فنا "نہیں ہوجاتااس وقت انسان کے اندرعشق کا بھانبڑنہیں بلتا۔پاکستان کوریاست مدینہ بنانے کی گردان کرنیوالے کردار بڑی بڑی ڈینگیں مارتے وقت اپنے گریبان میں جھانک لیا کریں اوراپنے انجام سے ڈریں کیونکہ معبود برحق اپنے بندوں کی نیتوں کے ساتھ ساتھ ان کے "ارادوں" ،"دعوؤں" اور"دیکھاوؤں" سے خوب واقف ہے ۔جس وقت اقوام متحدہ کے اجلاس میں عمران خان کی تقریرکوشہرت ملی ،راقم نے اس وقت بھی لکھا تھاکپتان تقریرکرسکتا ہے ،تدبراورتدبیرکرنااس کے بس کی بات نہیں کیونکہ کسی انسان میں ایک ساتھ تکبر اورتدبرنہیں رہ سکتے۔کپتان کی "تقریر" سے معتوب ومغلوب کشمیریوں کی" تقدیر"نہیں بدلی ۔ عمران خان جواندر سے ہے وہ دکھتا نہیں اوروہ جودکھتا ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں۔اﷲ تعالیٰ کے شیرحضرت علی رضی اﷲ عنہ نے کیا خوب فرمایا تھا ،"طاقت ،دولت اورحکومت ملنے سے کوئی انسان بدلتا نہیں بلکہ بے نقاب ہوجاتا ہے" ۔کپتان نے کنٹینر پرکھڑے ہوکربہت ڈینگیں ماریں لیکن حکومت ملی تووہ بے نقاب ہوگیا ۔موصوف کے انتخابی وعدے وفاہوئے اورنہ اس کاکوئی سیاسی عہد پوراہوا۔ہرچندماہ بعدوزراء کے قلمدان تبدیل کرنے سے تبدیلی نہیں آئے گی ۔ کپتان مردم شناس اورنبض شناس ہوتا توشایداس کی ٹیم میں بھی دوچار لوگ فرض شناس ہوتے ۔ماضی میں جس فوادچوہدری کوناقص کارکردگی کے سبب وزارت اطلاعات سے ہٹایاگیا تھا اب اچانک کسی خوبی کی بنیادپرموصوف کو یہ اہم منصب دوبارہ دے دیا گیا ۔کیا تبدیلی سرکار آئینی مدت پوری ہونے تک ریاست اورمعیشت کے ساتھ تجربات کرتی رہے گی ۔

تبدیلی سرکار اورتحریک لبیک کی قیادت کے درمیان "مکالمے" سے جوبھی" معاملے "طے پائے تھے حکومت نے کسی ایک بات پربھی استقامت کامظاہرہ نہیں کیا ۔کیا عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم صرف علماء کی میراث ہے ،کیا سراپارحمت حضرت محمدرسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کی ناموس کاپہرہ دینا صرف علماء پرفرض ہے ۔کیا اسلامی ریاست پاکستان کے منتخب حکمران جواسے ریاست مدینہ بنانے کے داعی ہیں انہیں ناموس رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کی حفاظت سے کوئی سروکار نہیں۔دنیا کا کوئی سچامسلمان فرانس کی ناپاک جسارت سے چشم پوشی کاتصور بھی نہیں کرسکتا لہٰذاء تحریک لبیک کا چارٹرآف ڈیمانڈ جائز ہے ۔اگرحکومت فرانس کے سفیر کوملک بدرکرنے کاارادہ نہیں رکھتی تھی توپھر ایساکرنے کاوعدہ اورمعاہدہ کیوں کیا۔جس طرح اسرائیل کوتسلیم نہ کرنے سے پاکستان کی صحت پرکوئی فرق نہیں پڑتا اس طرح فرانس کے سفیر کوملک بدر کرنے سے بھی کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔اگرمنتقم مزاج کپتان اپنی " انا" کیلئے اپنے محسن جہانگیر ترین کوملنے سے انکارکرسکتا ہے توپھرتبدیلی سرکار"اِسلام دشمن" فرانس کے سفیرکو" اِسلام آباد" سے کیوں نہیں نکال سکتی ۔مسلم ریاست کے حکمران اسلامی حمیت کامظاہرہ کرتے ہوئے فرانس کے سفیر کو ملک بدرکردیں توعوام ان کے کئی نجی ،سیاسی وانتظامی گناہ معاف کرسکتے ہیں۔فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے معاملے میں بھی تبدیلی سرکار نے عہدشکنی کرتے ہوئے یوٹرن لیااورپاکستان کوبدامنی کی آگ میں جھونک دیا ۔ ایک طرف ملک بھر سے دھواں اٹھ رہا ہے اوردوسری طرف شیخ رشید سمیت وفاقی وصوبائی وزراء آگ اگل رہے ہیں،اگرحکمران بھی جلتی پرتیل چھڑکنا شروع کردیں گے توپھر بدامنی کی آگ کون بجھائے گا۔شیخ رشید اپنی شیخیاں اورشوخیاں اپنے پاس رکھیں اورہماری ریاست پررحم کریں،اگروہ ملک وقوم کے زخموں پرمرہم نہیں رکھ سکتے تونمک پاشی بھی نہ کریں ۔اگروزراء عوام کی اشک شوئی نہیں کرسکتے توان کے جذبات واحساسات کوچھلنی بھی نہ کریں ۔میں حکمرانوں سے پوچھتا ہوں اگر ہزاروں کشمیریوں سمیت بیگناہ مسلمانوں کے قاتل "دریندرمودی " کومذاکرات کی دعوت دی جاسکتی ہے توپھرتحریک لبیک کی قیادت کے ساتھ ڈائیلاگ کیوں نہیں کیا جاسکتا۔راقم کے نزدیک اسلامی جمہوریہ پاکستان کیلئے تحریک لبیک کا دم غنیمت ہے ورنہ اس کے روشن خیال حکمران شتر بے مہار ہوجاتے ۔مولاناخادم حسین رضوی ؒ نے ناموس رسالت ؐ کے پہریدار کی حیثیت سے جونام اور مقام پایا وہ ان کے فرزند سعدحسین رضوی کونصیب نہیں ہوسکتا تاہم سعدحسین رضوی کے ہوتے ہوئے تحریک لبیک کی قیادت اورباگ ڈورکسی دوسرے کونہیں دی جاسکتی تھی ۔ تحریک لبیک کی قیادت اوراس کے اثاثوں پرپیرافضل قادری کاکوئی حق نہیں بنتا ۔جس نے خادم حسین رضوی ؒ کی نمازجنازہ کاروح پرورمنظر دیکھا ہواس کیلئے تحریک لبیک کانظریہ قابل رشک ہے لیکن اپنے بینظیر نظریہ کیلئے پرتشدداحتجاج کا راستہ درست نہیں۔

تحریک لبیک کے سربراہ سعدحسین رضوی کی گرفتاری کیوں ناگزیر تھی ،پولیس نے جس انداز سے انہیں تحویل میں لیا اس کاکوئی جواز نہیں تھا۔اگر ایک خاتون سیاستدان کے معاملے میں ریاست مسلسل مصلحت کامظاہرہ کرسکتی ہے توسعدحسین رضوی کے حامیوں کی مزاحمت کوانڈراسٹیمیٹ کیوں کیا گیا۔سعدحسین رضوی کوگرفتارکرتے وقت اس واقعہ کی ویڈیو بنانے اوروائرل کرنے کی اجازت کیوں دی گئی۔ارباب اقتدارواختیار نے اپنے متنازعہ ترین" ایکشن" کے" ری ایکشن" بارے کیوں نہیں سوچا ۔سعدحسین رضوی کی گرفتاری کے بعد جس طرح لاہور سمیت متعدد شہروں میں شہری شاہراہوں پرمسلسل کئی گھنٹوں تک ناحق قید ی بنے رہے اس کاجواب کون دے گا،قیمتی جانوں کے ضیاع کاحساب کس سے لیاجائے۔فردواحد کی گرفتاری کے بعد پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے نام پرشہریوں اورپولیس اہلکاروں سے جوانتقام لیا گیا وہ توزمانہ جنگ میں بھی جائز نہیں،اگر اس طرح ہرکسی نے اپنااپنا جتھہ بنااورقانون اپنے ہاتھوں میں لے لیاتوپھرریاست کی رِٹ کاتوجنازہ اٹھ جائے گا ۔پرتشدد مظاہروں سے نجی وقومی املاک کی بربادی پر کس سے بازپرس کی جائے ۔ تبدیلی سرکار کے عاقبت نااندیش اقدام سے قومی معیشت اورمعاشرت کوجونقصان پہنچا اس کامداواکون کرے گا۔عوام اور پولیس کے درمیان خونی تصادم کی صورت میں دونوں طرف سے" عام لوگ" موت کے گھاٹ اتر گئے،ان میں کسی کاتعلق حکمران اشرافیہ سے نہیں تھا۔ایک طرف ناموس رسالت پرشب خون مارنے اورمساجد شہیدکرنیوالے فرانس کے سفیرکی ملک بدری یقینی بنانے کیلئے شاہراہوں پرآنیوالے عام شہری لیکن اس بھیڑمیں کچھ بھیڑیے بھی سرگرم تھے جبکہ دوسری طرف امن وامان برقراررکھنے اوراپنے فرض منصبی کی بجاآوری کیلئے باوردی سکیورٹی اہلکارتھے ،ان میں سے کون شہید اورکون قاتل ہے اس کافیصلہ کون کرے گا۔دونوں طرف سے پاکستان کے لوگ ناحق مارے گئے ،سپردخاک ہونیوالے ہمارے اپنے تھے ۔آج ہمارے قائدؒ کا پاکستان" سو گ" میں کیونکہ ہمارا حکمران طبقہ اس کیلئے "روگ" اوربوجھ بناہواہے۔

اس "ماں" کی بدقسمتی کااندازہ کون لگاسکتا ہے جس کواس کے اپنے بچے نوچ رہے ہوں۔ہرانسان کے دوبازوہوتے ہیں ایک دائیاں اورایک بائیاں اوراگردونوں ا سے جھنجوڑنا اوربھنبھوڑنا شروع کردیں توپھراسے دشمن سے کون بچائے گا ۔ تحریک لبیک کے قائدین اورکارکنان کی خدمت میں عرض ہے اگرہماری دشمنی فرانس کے ساتھ ہے توپھروہ بار بارمادروطن پاکستان کوکیوں تختہ مشق بنارہے ہیں ۔اگرحکومت نے حماقت کامظاہرہ کرتے ہوئے سعدحسین رضوی کو گرفتارکرلیا تھا توتحریک لبیک کے حامی صبروتحمل کامظاہرہ کرتے اورانصاف کیلئے عدالت کادروازہ کھٹکھٹاتے،اب بھی سعد حسین رضوی کی رہائی تبدیلی سرکار کیلئے رسوائی بنے گی کیونکہ کوئی حکمران اور زندان زیادہ دیرتک سعد حسین رضوی کاراستہ نہیں روک سکتا لہٰذا ء ان کے حامی پرتشدد مظاہروں سے باز رہیں ۔ انہیں شاہراہوں کی بندش اورعام شہریوں کی گاڑیوں سمیت سرکاری گاڑیاں اورقومی املاک نذرآتش کرنے کاحق کس نے دیا ۔ایک فرد کی گرفتاری کیخلاف پرتشدد مظاہروں کی آڑ میں جوتوڑپھوڑ کی گئی اوراس کے نتیجہ میں پاکستان کی نحیف معیشت کوجواربوں روپے کانقصان پہنچا اس سے فرانس سمیت ہمارا ہردشمن خوش ہو گا۔جنون اورخون کاراستہ اسلام کاراستہ ہرگز نہیں ہوسکتا ۔پرامن احتجاج ہرشہری کاحق ہے لیکن فرانس جیسی اسلام دشمن ریاست کیخلاف احتجاج کی آڑ میں اپنوں سے دشمنی کاکوئی جواز نہیں۔
 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 88698 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.