ہمارے وزیر اعظم ایک کھلاڑی ہیں اس بات کا
واضع ادراک اس وقت ہوا جب انہوں نے کھیل کے میدان کی طرح وفاقی کابینہ میں
بھی تبدیلیوں کی بوچھاڑ کردی جب کوئی کھلاڑی اچھا پرفارم نہ کر۔پایا تو
انہوں نے اس کھلاڑی کو مختلف انداز میں آزمانہ شروع کردیا،لیکن اس کی جگہ
کسی نئے چہرے کو موقع نہیں ملا ،ہمارے ہاں یہ رواج کھیل کے میدان سمیت
مختلف جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ کھلاڑی کتنا ہی آوٹ آف فارم۔کیوں نہ ہو
اسکے متبادل کو جگہ۔دینے کی بجائے اسی کے کوئی مثبت پوائنٹ دکھا کر موقع
دینا مناسب سمجھا جاتا ہے
مدعے کی بات کی جائے تو میرا خیال ہے کہ کھیل خان صاحب کا خاصا رہا ہے لیکن
تبدیلی انکا انتخابی نشان بن چکا ہے بظاہر تبدیلی کا۔کوئی عکس نہیں ہوتا
لیکن چونکہ خان صاحب کی تبدیلی بھی ان دیکھی ہے لہذا انکا انتخابی نشان بھی
ویسا ہونا چائیے ۔تبدیلیوں کی بات کی جائے تو میرا خیال ہے کہ وزارتوں کے
قلمدان تبدیل ہونے کے علاوہ کوئی واضع تبدیلی رونما ہوتے دیکھی نہیں گئی،جس
تبدیلی کی منتظر پوری عوام ہے اس تبدیلی کے منتظر خان صاحب خود بھی
ہیں,یعنی منتظرین میں ہمارے وزیر اعظم سر فہرست ہیں چاہے وہ موقع لینے کی
دوڑ ہو یا فنڈز کی ۔
ہر دفع 15 سے 20 دن بعد کرنٹ اکاونٹ سرپلس کا لالی پاپ دے کر عوام کو
چپ۔کروایا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ ترسیلات زر میں اضافہ۔ہو رہاہے لیکن سوال
تو یہ کہ کیا ان تمام چیزوں کا فائدہ کسی غریب کو ہے؟کیا اس غریب کو اتنا
باواقف یا باعلم کیا گیا ہے کہ اسے معلوم ہو کہ ان سب کا کیا فائدہ ہے اور
کس کو ہے؟ہماری تدریسی شرح اس قدر کم ہے کہ ہم ناخوانگی ،جرائم یا اسی
طرزکی چیزوں میں تو آگے ہیں لیکن جدت یا کامیابی ہم۔سے کوسو دور ہے یا یوں
کہنا بجا ہوگاکہ ہم کامیابی کی اصطلاح سے ابھی ناواقف ہیں۔
ایک غریب کو بجٹ خسارے اور اکاونٹ سرپلس کی بجائے اس میں دلچسپی ہے کہ اسے
روٹی کتنے وقت ملتی ہے؟پھر اسے حلال اور حرام کے رزق کے درمیان کا فرق نہیں
رہتا،وہ ذریعے کی بجائے نوٹوں کو ترجیح دیتا ہے۔
ہماری حکومت نے احساس کفالت ،نوجوان پروگرام ،احساس کچن یا اس طرز کے بہت
سے پروگرام متعارف کروائے لیکن سوال یہ۔ہے کہ نوکرہوں کے لئیے کتنےواقع
فراہم کیے گئے،ہر اہم کام کرونا کی نذر ہو گیا ، جبکہ غیر اہم کاموں میں
کرونا نے مداخلت نہیں کیا۔جہاں تبدیلی کا۔عنصر نمایاں ہونا چائیے تھا وہاں
تبدیلی کا ابہام بھی نہیں ہوا،یعنی غیر ضروری کام آج بھی ہمارے لئیے اولین
ترجیحات میں شامل ہیں
یہ کہنا بجا ہوگا کہ تبدیلی انسانی فطرت میں شامل ہے لیکن ایک مشہور تحریر
ہے کہ حد سے زیادہ ہر چیز نقصان دہ ہوتی ہے۔
تمام ادارے بظاہر تو حکومت کے ماتحت نہیں ہیں لیکن یہ بات سمجھنے سے قاصر
ہوں کہ جہاں اپوزیشن حکومت کے خلاف اپنا موقف دے وہاں تمام تر ادارے توپوں
کا رخ بدل کر حکومت کے ماتحت کیسے ہو جاتے ہیں؟
ادارے بھی تبدیلی سے بخوبی واقف ہیں اسی لئیے تبدیل ہونے یا کیے جانے کی زد
میں آنے سے بچنے کے لیئے عتاب کو اصلاحات بنا کر پیش کرتے ہیں۔الغرض
پوراملک۔تبدیلی کہ زد میں ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ تبدیلی کے منتظمین
،منتظرین کے معیار پر کس طرح اترنے میں کامیاب ہوں گے
|