#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالکہف ، اٰیت 79 تا 82
ازقلممولانا اخترکاشمیری
اٰیات و مفہومِ اٰیت !!
اماالسفینة
فکانت لمسٰکین یعملون
فی البحر فاردت ان اعیبھا و
کان وراء ھم ملک یاخذ کل سفینة
غصبا 79 واما الغلٰم فکان ابوٰہ مؤمنین
فخشینا ان یرھقہما طغیانا وکفرا 80 فاردناان
یبدلھما ربھما خیر منہ زکوٰة واقرب رحما 81 واما
الجدار فکان لغلٰمین یتیمین فی المدینة وکان تحتہ کنزلھما
وکان ابو ھما صالحا فاراد ربک ان یبلغا اشدھما و یستخرجا کنزھما
رحمة من ربک وما فعلتہ عن امری ذٰلک تاویل مالم تسطع علیہ صبرا 82
میں نے جس کشتی میں معمول کے خلاف ایک معمولی سا عیب ڈال دیا تھا اُس کشتی
کی حقیقت یہ ھے کہ وہ اُن چند غریب اَفراد کی کشتی تھی جو ہر روز اِس دریا
میں محنت مزدوری کے لیۓ آتے تھے لیکن اُس روز اُنہوں نے جس سمت میں جانا
تھا اُس سمت میں ہر کار آمد کشتی پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے لیۓ ایک ظالم
بادشاہ موجُود تھا اِس لیۓ میں نے چاہا کہ اُس کشتی میں ظاہری طور پر ایک
ایسا عیب ڈال دیا جاۓ کہ اُس کشتی پر اُس کو قبضہ کرنے کا خیال ہی نہ آۓ
اور میں نے جس نوجوان کو قتل کیا تھا وہ اَمن پسند والدین کا ایک سرکش
فرزند تھا جس سے ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ نو جوان آنے والے زمانے میں اپنی
اِس سرکشی سے اپنے والدین کو نقصان پر نقصان پُہنچاتا رھے گا اِس لیۓ ھم نے
چاہا کہ اُس نوجوان کو قتل کر کے اُس کے والدین کو اُس کے مُتوقع فتنوں سے
بچا لیا جاۓ اور اللہ تعالٰی اُس کے والدین کو اپنی مہربانی سے ایک ایسا
فرماں بردار بیٹا عطا فرما دے جو اَخلاق و عادات اور اَمن پسندی میں اِس سے
بہتر ہو اور اُس دیوار کا معاملہ یوں ھے کہ اُس دیوار کے نیچے اُن دو یتیم
بچوں کا وہ مورُوثی خزانہ دفن ھے جو اُن کے نیک دل باپ نے اُن کے اُس وقت
کےلیۓ دفن کیا ہوا ھے جب وہ جوان ہو کر اُس خزانے کو پائیں اور اُس سے
فائدہ اُٹھائیں ، اگر وہ دیوار گر جاتی تو وہ خزانہ ظاہر ہو جاتا اور اُن
یتیم بچوں کے جوان ہونے سے پہلے ہی لوگ اُس خزانے کو اپنے تصرف میں لے آتے
اِس لیۓ ھم نے اُس دیوار کو درست کر دیا تاکہ وہ اُن یتیم بچوں کے بڑے ہونے
تک سلامت رھے اور وہ بچے بڑے ہو کر اُس خزانے کو پائیں اور اپنے تصرف میں
لائیں ، میں نے اُن کی اُس دیوار کی درستی کا اُجرت کے بغیر جو کام کیا ھے
وہ اُن پر تیرے رَب کی رحمت کی بنا پر کیا ھے اور اِس سفر میں میرے وہ کام
جن کو دیکھ کر تُجھ سے صبر نہیں ہوا ھے وہ کام میں نے اپنی مرضی سے نہیں
کیۓ ہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے حُکم سے کیۓ ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
مُحولہ بالا چار اٰیت سے پہلی آٹھ اٰیات میں قُرآنِ کریم نے اُس مردِ بزرگ
کے اُن تین اَقدامات کا ذکر کیا ھے جس مردِ بزرگ کے ساتھ ملاقات کے لیۓ
مُوسٰی علیہ السلام "مجمع البحرین" پُہنچے تھے اور پھر مُوسٰی علیہ السلام
اُس مردِ بزرگ کے اُن تین اقدامات پر مُعترض ہوۓ تھے جس کے بعد مُوسٰی علیہ
السلام و مردِ بزرگ کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی اور اَب موجُودہ چار اٰیات
میں قُرآنِ کریم نے اُس مردِ بزرگ کی اُس وضاحت کا ذکر کیا ھے جو وضاحت اُس
مردِ بزرگ نے مُوسٰی علیہ السلام کے ساتھ علیحدگی اختیار کرنے سے پہلے پیش
کی تھی اور جس وضاحت کے مطابق غریب مزدوروں کی جس کشتی میں اُنہوں نے جو
معمولی سا نقص پیدا کیا تھا اُس نقص کا مقصد اُس کشتی کے مُسافروں کو نقصان
پُہنچانا نہیں تھا بلکہ اُس کشتی کو اُس ظالم بادشاہ سے بچانا تھا جو اُس
روز اِن غریب مزددوروں کے راستے میں حائل ہو کر ہر کار آمد کشتی پر قبضہ
کرلیتا تھا اور ہر ناکارہ کشتی کو ناکارہ سمجھ کر چھوڑ دیتا تھا اور میں نے
اَمن دوست والدین کے اُس اَمن دُشمن بیٹے کو اِس لیۓ قتل کر دیا تھا کہ اُس
کی وہ سرکشی اُس کے والدین کے لیۓ نقصان کا باعث بن سکتی تھی اور اُس گرنے
والی دیوار کو اُجرت کے بغیر اِس لیۓ درست کردیا تھا کہ اُس کے نیچے دو
یتیم بچوں کا خزانہ دفن تھا ، اگر میں اُس دیوار کو مضبوط نہ کرتا تو وہ گر
جاتی جس کے بعد وہ مدفون خزانہ لوگوں کے سامنے آجاتا اور لوگوں کے ہاتھوں
سے لُٹ جاتا اور یہ کہ مُحولہ بالا تین کام جو میں نے کیۓ ہیں وہ اپنی مرضی
سے نہیں کیۓ ہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے حُکم سے کیۓ ہیں مگر اِس سارے قصے میں
سوال اُس مردِ بزرگ کی نیت کا نہیں ھے بلکہ اللہ تعالٰی کی اُس دائمی شریعت
کا ھے جس دائمی شریعت میں کبھی بھی کسی انسان کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ
اپنے دل میں آنے والے کسی کشفی و الہامی خیال کے تحت کسی انسان کی کسی
مملوکہ چیز کو خراب کر دے یا کسی انسان کو قتل کر دے اور دُوسرا سوال یہ ھے
کہ یہ مردِ بزرگ کون تھے جنہوں نے اپنے ہر عمل کو اللہ تعالٰی کا حُکم کہا
ھے اور یہی وہ قضیہ ھے جس کو عُلماۓ روایت نے اپنا قضیہِ مرضیہ بنانے کے
لیۓ اُس مردِ بزرگ کو خضر کا نام دیا ھے اور خضر کو عُمرِ جاودانی کا مالک
بھی قرار دیا ھے اور خضر کے اُن مُحولہ بالا خضری اعمال کو تابعِ شریعت
بنانے کے لیۓ خضر کی نبوت پر بھی حسبِ توفیق دلائل دیۓ ہیں حالانکہ وہ
عُلماۓ روایت اپنی روایات کے مطابق بھی اِس اَمر کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ
تعالٰی نے قتل کے بدلے میں قتل کرنے کے علاوہ اپنے کسی نبی اور اپنے کسی
رسول کو بھی کسی انسان کے قتل کرنے کا حق نہیں دیا ھے لیکن ظاہر ھے کہ
قُرآنِ کریم کے اِس مضمون کی یہ سطُور اِس طولانی بحث کی مُتحمل نہیں ہیں ،
اِس لیۓ اِن اٰیات اور اِس مضمونِ اٰیات کے حوالے سے ھمارے سامنے سب سے
اَھم اور سب سے بُنیادی سوال صرف یہی ایک سوال ھے کہ اگر یہ مردِ بزرگ خضر
ہیں اور یہ مردِ خضر عُمرِ جاودانی کے مالک ہونے کے علاوہ اللہ تعالٰی کے
نبی بھی ہیں تو اِس مردِ خضر کی نبوت اور عُمرِ جاودانی کی دلیل کیا ھے ،
عُلماۓ روایت نے جس مردِ خضر کو اِن اٰیات کا مصداق ٹھرایا ھے تاریخ میں
اُس کا ایک نام خضی ساترا Khazi sastra اور دُوسرا نام اُتنا پشتیم ھے اور
اِن کی عُمرِ جاودانی کی تاریخی دلیل اِس خیالی دلیل کے سوا کُچھ بھی نہیں
ھے کہ خضر کے یہ خضری کارنامے نُوح علیہ السلام کے زمانے سے لے کر مُوسٰی
علیہ السلام کے زمانے تک اور مُوسٰی علیہ السلام کے زمانے سے لے کر
ذوالقرنین کے زمانے تک پھیلے ہوۓ ہیں اِس لیۓ انتہائی سادگی اور انتہائی
خاموشی کے ساتھ یہ فرض کر لیا گیا ھے کہ جو انسان نُوح علیہ السلام کے
زمانے سے ذوالقرنین کے زمانے زندہ ھے وہ ہر زمانے میں زندہ ھے اور شاید ہر
زمانے کے لیۓ زندہ ھے ، اُتنا پشتیم کی داستان دُنیا کی سب سے قدیم داستان
ھے اور اِس قدیم داستان کے مطابق اُتنا پشتیم کی داستانِ سیلاب کی تاریخ
بھی وہی ھے جو طوفانِ نُوح کی تاریخ ھے ، اُتنا پشتیم کے تاریخی قصے میں
دیوتاؤں نے جب انسان کے شور و شرابوں سے تنگ آکر انسان کو غرق کرنے کا
فیصلہ کیا تو "اِیا" نے اپنے اِس محبوب بندے اُتنا پُشتیم کو زمین پر آنے
والی تباہی سے آگاہ کرتے ہوۓ کہا کہ تُو ایک کشتی بنا اور اِس میں تمام جان
داروں کے تُخم رکھ دے اور قُرآنِ کریم کی قُرآنی تاریخ کے مطابق اللہ
تعالٰی نُوح علیہ السلام کی قوم کو تباہ کرنا چاہا تو نُوح علیہ السلام کو
کشتی بنانے کا حُکم دیا اور اِس میں ہر جان دار کے جوڑے رکھنے کا حُکم دیا
، اُتنا پشتیم کی تاریخی کہانی میں اُتنا پشتیم کی کشتی کوہِ نصیر پر رُکی
تھی جو شمالی عراق میں واقع ھے اور طوفانِ نُوح کے قُرآنی واقعے کے مطابق
نُوح علیہ السلام کی کشتی کوہِ جُودی پر ٹھہری تھی اور کوہِ جُودی بھی اسی
شمالی عراق میں ھے ، اُتنا پُشتیم کی کہانی میں سیلاب رُکا تو خُشکی کا
سراغ لگانے کے لیۓ کوّے کو بہیجا گیا اور عُلماۓ روایت کی روایات کے مطابق
طوفانِ نُوح تَھما تو خُشکی کی سراغ رسانی کے لیۓ کبُوتر یا فاختہ کو بہیجا
گیا ، اِن مختلف فیہ روایات کے باعث عُلماۓ روایات کی روایات کے مطابق
اُتنا پُشتیم کی داستان جن تین شخصیتوں میں بَٹی ہوئی ھے اُن میں پہلی
شخصیت نُوح علیہ السلام کی ھے جو طُوفان کی مرکزی شخصیت ہیں ، دُوسری شخصیت
مُوسٰی علیہ السلام کی ھے جنہوں نے خضر یا اُتنا پُشتیم کے ساتھ مُلاقات کے
لیۓ مجمع البحرین کا سفر کیا ھے اور تیسری شخصیت خود خضر یا اُتنا پُشتیم
کی اپنی شخصیت ھے جو مُوسٰی و ذوالقرنین دونوں کے قصے کا مرکزی کردار ہیں
لیکن اِس داستان میں قُرآنِ کریم صرف نُوح و مُوسٰی کو جانتا ھے خضر و
اُتنا پُشتیم کو نہیں جانتا ، ھمارے خیال کے مطابق مُوسٰی علیہ السلام کا
مردِ بزرگ و مردِ دانا جس اَعلٰی معیار اور جس اَعلٰی کردار کا بزرگ ھے اُس
اَعلٰی معیار پر ہمیں خضر یا اُتنا پُشتیم کا کردار پُورا اُترتا ہوا نظر
نہیں آتا اِس لیۓ ھمارے خیال کے مطابق مُوسٰی علیہ السلام کے مردِ بزرگ کا
معاملہ تاحال ایک حل طلب معاملہ ھے !!
|