یاد پڑتا ہے کہ ضیا صاحب کو میں نے پہلی بار انیس سو
اٹھاسی کی الیکشن ٹرانسمشن میں پہلی بار دیکھا ۔ یہ اور مجیب الرحمٰن شامی
مجھے اس وجہ سے پسند نہ آئے تھے کہ دونوں نواز شریف کے حمایتی تھے ۔ پھر
میں نے ان کو پاکستان اخبار کے حوالے سے جانا۔ اسی دوران انکی کئی کہانیاں
اردو ڈائجسٹ کے پرانے شماروں میں پڑھیں ۔ اب تک میں انھیں سرسری طور پر
جانتا تھا ۔ ان کا بھرپور تعارف روزنامہ خبریں کے توسط سے ہوا اور ایسا ہوا
کہ وہ دل میں گھر کر گئے ۔ اور وجہ انکی کالم نگاری ٹھہری ۔ پہلے سنڈے
میگزین میں جمعہ بخیر پھر سنڈے بخیر اور پھر اخبار میں انکی یادوں کے حوالے
سے لکھے گئے کالم توجہ کا مرکز بنے رہے ۔ انکے سماجی کالم اکثر رلا دیا
کرتے تھے ۔ سچ میں ان کے کالم پڑھ پڑھ کر کالم پڑھنے کی عادت بنی جو بعد
میں کالم نگاری کا سبب بنی ۔ پھر درمیان یہ بھی ہوا کہ انھوں نے لکھنا چھوڑ
دیا ۔ اس دوران سالگرہ ایڈیشن میں ان کا کالم پڑھنے کو ملتا ۔ پھر کئی سال
بعد انھوں نے کالم لکھنے شروع کیے تو انکی کتابیں بھی دھڑا دھڑ شائع ہونے
لگیں ۔
خبریں کے چلڈرن ورلڈ سے ہم نے لکھنے کا آغاز کیا جو بعد میں کالم نگاری میں
ڈھل گیا ۔ میری خوش بختی کہ دو ہزار بارہ اور تیرہ کے درمیاں میرے ساٹھ ستر
کالم خبریں کے ادارتی صفحہ کی زینت بنے ۔ اس میں سارا کمال شفقت صاحب کی
شفقت کا تھا ۔ بعد میں ذوالفقار چوہدری کے عہد میں بھی چند ایک کالم اخبار
کی زینت بنے لیکن جب سے زید صاحب کا دور شروع ہوا ہے ہم اس صفحے سے دور دور
پائے جاتے ہیں ۔ ممکن ہے یہ کالم بھی چھپنے کی بجائے چھپ جائے لیکن ضیا
صاحب کو یاد کرنا میری قلبی مجبوری بھی تھی اور قلمی مجبوری بھی ۔ سو کافی
عرصے بعد کوئی کالم لکھ رہا ہوں ۔ زید صاحب کے حسن سلوک کے سبب یہ کام چھوڑ
چھاڑ کر افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوں اور کالم نگاری کی ایک کتاب کے
مقابلے میں افسانوں کی تین کتابیں چھپ چکی ہیں ۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ
تھا ۔ ہوا کہ عہد ذوالفقار چوہدری میں ہمارے کالم لگنے بند ہو گئے تو دل
میں خیال آیا کہ کیوں نہ ضیا صاحب سے اس کی شکایت کی جائے ۔ میں نے ڈرتے
ڈرتے ان کا نمبر ڈائل کیا لیکن انھوں نے کال پک نہ کی ۔ پھر ایک منٹ بعد ہی
انکی کال ا گئی ۔ ہم نے اپنی شکایت درج کروائی تو انھوں نے ایسی بات کہ میں
حیران و پریشان رہ گیا ۔ وہ بولے میں نے تو آج تک آپ کا کوئی کالم نہیں
پڑھا اور نہ کوئی کالم ادارتی صفحہ پر چھپا ہے ۔ میری تو سچ میں بولتی بند
ہو گئی ۔ مجھے خاموش دیکھ کر مجھ سے پوچھا کہ آپ کا تعلق کس شہر سے ہے ۔
میں نے بتایا اوچ شریف سے ۔ فرمانے لگے پھر ہمارے ملتان سنٹر سے رابطہ کریں
۔ یہ ایک منٹ کی کال میرے اور ان کے درمیان پہلا باقاعدہ مکالمہ تھا جو
آخری بھی ثابت ہوا ۔آج تک میں ان سے نہیں ملا اور نہ کبھی مل پاؤں گا ۔ مگر
یہ ضروری کب ہے تعلق صرف انہی سے جڑے جن کو ہم روز یا کبھی کبھار ملتے ہوں
۔ یہ قلبی تعلق تھا جو فاصلوں کی دوری کو نہیں مانتا ۔ یک طرفہ ہی سہی یہ
تعلق ضرور تھا ۔
جنوبی پنجاب کے لوگ ضیا صاحب کو کبھی نہیں بھول سکتے ۔ سرائیکی وسیب اور
خاص طور پر علیحدہ صوبے کے لیے انکی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ اس ایک شخص
کی وجہ سے یہ مسئلہ اتنا نمایاں ہوا کہ ہر سیاسی جماعت کو اسے اپنے منشور
کا حصہ بنانا پڑا ۔ ان کے اخبار نے اس مسئلے کو اپنے اخبار میں نمایاں جگہ
دی ۔ اس پر اتنا کچھ شائع کیا کہ دیگر قومی اخبارات کو بھی اسے جگہ دینا
پڑی ۔ یوں یہ موضوع جو کبھی شجر ممنوعہ ہوا کرتا تھا سب کا پسندیدہ موضوع
بن گیا ۔ ان کی اس خدمت کا سرائیکی وسیب کے لوگوں نے صلہ بھی خوب دیا کہ
خبریں کو اس خطے کا مقبول عام اخبار بنا ڈالا ۔ خبریں کا یہ مقام اب تک
برقرار ہے اور اس اعزاز کو کوئی نہیں چھین سکتا ۔ ہاں البتہ ایک گلہ ضرور
ہے کہ پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں خبریں کے ادارتی صفحہ پر ایسے ایسے وسیب
دشمنوں کو جگہ دی گئی جس نے خبریں کے روشن کردار کو دھندلا دیا ۔ تاہم ابھی
بھی خبریں اس خطے کا محبوب اخبار ہے اور رہے گا ۔
ضیا صاحب نے ایک بھرپور زندگی گزاری ۔ اردو ڈائجسٹ سے شروع ہونے والا یہ
سفر جنگ نوائے وقت پاکستان سے ہوتا ہوا خبریں اور چینل فائیو پر اختتام
پذیر ہوا ۔ اب جلد ہی جلد ہی خبریں کی پیشانی پر ضیا صاحب کے نام کے ساتھ
مرحوم کا اضافہ ہو جائے گا ۔ سچ میں ان کو مرحوم لکھنا ہوئے کلیجہ منہ کو
آتا ہے ۔ ضیا صاحب بڑے حوصلہ مند انسان تھے ۔ انھیں جواں سال بیٹے کی جدائی
کا صدمہ جواں مردی سے جھیلا ۔ بیٹی کو جوانی میں بیوہ ہوتا دیکھا ۔ اپنے
قریبی ساتھی خوش نود علی خان کو اخبار چھوڑتا دیکھا مگر ہر مرحلے پر ان کا
صبر کمال کا ریا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نابغہ اس رحجان ساز صحافی کو پاکستانی صحافت کا
مورخ کبھی فراموش نہیں کر سکتا ۔ انھوں نے اردو صحافت کا جمود توڑا اور
انھوں نے سچ میں اسے بین الاقوامی زبانوں کے مقابل لا کھڑا کیا ۔ کل دو سے
زیادہ اخبارات کی گنجائش نظر نہ آتی تھی اور آج درجن بھر بڑے قومی اخبارات
مل میں چھپ رہے ہیں یہ سب پاکستان اور خبریں کی وجہ سے ہے ۔ ضیا صاحب کا یہ
اعزاز ان سے کوئی نہیں چھین سکتا ۔ اس موقع پر میں انکی پاکستان اور بانی
پاکستان سے محبت کا اگر ذکر نہ کروں تو ذیادتی ہو گی ۔ جب جب کسی اندرونی
ملک دشمن نے پاکستان کو میلی نظر سے دیکھا تو سب سے پہلے اسے ضیا صاحب نے
للکارا اور پھر میدان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا ۔ ان کی کتنی بڑی خواہش
تھی کہ وہ قائد اعظم پر کوئی عالمی معیار کی دستاویزی فلم بنائی ۔ جب ان پر
بنائی جانے والی فلم میں ایک متنازعہ اور منفی اداکار کو جناح کے رول کے
لیے منتخب کیا گیا تو آپ نے ڈٹ کر اس کی مخالفت کی اور پھریور احتجاج
ریکارڈ کروایا ۔
ان کے کس کس پہلو کو زیر بحث لایا جائے کون کون سی خوبی بیان کی جائے ۔ وہ
ہر رخ سے باکمال تھے ۔ ایک کارکن صحافی کے طور پر انھوں نے بے مثال کامیابی
حاصل کی ۔ وہ کارکن صحافیوں کا حوصلہ تھے ۔ ان کے لیے انسپائیریشن کا سب سے
بڑا سورس تھے اور رہیں گے ۔
آج وہ وہاں چلے گئے ہیں جہاں ایک دن سب نے جانا ہے اور پلٹ کر نہیں آنا ۔
وہ انسان بھی تو تھے ۔ اور معصوم ہرگز نہیں ۔ ان سے اگر کچھ لغزشیں ہوئی
ہوں تو معاف کر دینا چاہیے ۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس دنیا میں اس دنیا کی
نسبت زیادہ بہتر مقام پر ہوں گے ۔
آج ہم ان کو یاد کر رہے ہیں ۔ ہم ان کو یاد کرتے رہیں گے اور کبھی نہیں
بھولیں گے
خدا مغفرت فرمائے عجب آزاد مرد تھا
|