مذہب کی سماجی ضرورت
(Anayat Khan swati, Islamabad)
|
سماج انسانوں کا وہ مجموعہ ہے جہاں وہ
زندگی کی مختلف لوازمات کو تبادلے کی صورت میں پورا کرتے ہیں۔ وہ لوازمات
انسان کی مادی اشیاء کے ساتھ اس کائنات اور گردوپیش میں بسنے والے افراد کے
ساتھ میل جول اور معاملات بھی انسانی ضرورت میں ہی آتے ہیں۔ سماج میں امن
اور استحکام کے لئے ان معاملات کا ایک درست سمت اور صحیح منہج پر ہونا
ناگزیر ہے۔ مثال کے طور پر ایک ریاست کے نظم و ضبط کو ایک بحر میں رواں
رکھنے کے لئے ایک آئین تشکیل دیا جاتا ہے جس سے ریاست کے باسیوں کے چیدہ
چیدہ عوامل جن سے ریاستی املاک یا دوسرے باشندے متاثر ہوں ان عوامل کو زیرِ
حکم لایا جائے۔ مگر دنیا کے ریاستی قوانین، سماج میں استحکام کو سزا کے خوف
سے قوت کے بل بوتے پر قائم کرتے ہیں، جیسے موجودہ دور میں بیشتر معاشروں کے
شعبہ ہائے زندگی میں بدعنوانی عروج پر ہے جس کے سنگین نتائج سماج میں
افراتفری کی شکل میں آئے روز برامد ہو رہے ہیں۔ بدعنوانی کے سدباب کے لئے
معاشرے میں دینی تعلیمات سے عوام الناس کو روشناس کروا کے اس ناسور کو جڑ
سے اکھاڑا جا سکتا ہے، جو کہ تعزیری سزا سے ایک خاص حد سے آگے ممکن نہیں
یہی احوال باقی سماجی برائیوں کا ہے، مثلاً قتل کے بدلے قتل کا قانون ہے،
جس سے دو انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے یا چوری کے بدلے کسی تعزیری سزا کا
حکم سنا کر اس سماجی برائی کا سدباب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ باوجود ان
تعزیری سزاؤں کے ہمارے جیل بھرے پڑے ہیں۔ یہ المیہ ہمیں کسی ایسی تحریک یا
مہم کی طرف لے جانے کا اشارہ ہے کی کسی ایسی منظم تعلیم و تربیت سے عوام
الناس کو روشناس کرایا جائے جس کی روشنی سے و بذات خود معاشرتی برائیوں کا
ارتکاب کرنے سے گریز کریں۔ وہ منظم تربیت دین بخوبی انجام دے سکتا ہے، ایک
تو اسکی آفاقی قوت اور دوسرا اس میں گناہ کا تصور اسے کئی سماجی برائیوں کے
ارتکاب سے بچا سکتا ہے۔
اس سماج کی کیا شان طمطراق ہوگی جہاں انسانی تعزیر کے خوف کے بجائے دل میں
شعوری اور لاشعوری طور پر برائی سے پرہیز کرنے کا جذبہ ہو۔ جب گالی جھوٹ سے
لے کر قتل اور سماج میں فساد پھیلانے تک عوام کے اذہان میں اس کے ابدی
نقائص کا احساس پیدا ہو جائے تو معاشرے میں برائیوں کی شرح ضرور محدود
ہوجائے گی۔ عمرانیات کے اصولوں کے مطابق بھی دین بہت سے سماجی کجیوں سے
چھٹکارے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ عمرانیات کا ایک بہت بڑا محقق ایمائل دُرخائم
مذہب کو باقاعدہ سماجی برائیوں کو سدباب کے ذریعے کے طور پر دیکھتا ہے۔ دین
کی جتنی ضرورت اور مقصدیت انفرادی زندگی میں ہے اس سے کہیں بڑھ کر اجتماعی
زندگی میں دین ایک استحکام کی فضا قائم کرنے میں موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ جب
انسان اپنے دل میں یہ خیال پیدا کر لیں گے کہ وہ مسلسل طور پر خالق کائنات
کی سکروٹنی میں ہیں تو کسی انسان کی طرف سے کسی دوسرے انسان کو زیادتی کا
سامنا نہیں کرنا پڑے گا جب یہ گمان ہر وقت انسانوں کے قلوب میں ہمیشہ کے
لئے گھر کر جائے گا کہ وہ چاہے انفرادی طور پر کسی برائی کا ارتکاب کریں
مثلا جھوٹ دھوکہ دہی یا کسی کو کوئی نقصان پہنچانے کی تدبیر سے سماج میں
اسکے دورس منفی اثرات مرتب ہوں گے تو وہ کبھی اس طرح کا خطرہ مول لینے کی
جسارت نہیں کرے گا۔
بشرطیکہ یہ سوچ سماج کے بیشتر افراد میں پائی جائے اور اس فکر کے لئے
سنجیدہ تنظیمیں ایک منظم لائحہ عمل کے تحت کام کر کے عوام میں یہ شعور صرف
زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ عمل کی حد تک اجاگر کریں کہ تمام مذاہب میں ان
برائیوں کی مذمت کی گئی ہے جو معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں
|
|