انجیل

حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ١٢ رمضان المبارک کو انجیل مقدس نازل ہوئی، جس میں تحریف کردی گئی


12رمضان المبارک کو نازل ہوئی
تحریر: شبیر ابن عادل
تقریباً تمام آسمانی کتب رمضان المبارک میں نازل ہوئیں، انجیل مقدس 12رمضان المبارک کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ ہم بحیثیت مسلمان تمام آسمانی کتب پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن قرآن کریم کے سوا تمام آسمانی کتب میں تحریف کی گئی، قرآن کریم آخری آسمانی کتاب ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے اور قرآن پاک کے نزول کے بعد اس سے پہلے کی تمام آسمانی کتب اور شریعتیں منسوخ ہوگئیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی تھے اور بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے تھے اس لیے حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکار عہدنامہ عتیق پر بھی یہود کی طرح ایمان رکھتے ہیں، مسیحی حضرات جس کتاب کو انجیل کے نام سے موسوم کرتے ہیں اسے عہد جدید اور ”نیا عہد نامہ“کہا جاتا ہے، دونوں عہد کے مجموعہ کو کیتھولک فرقے کے ہاں ”کتاب مقدس“اور پروٹسنٹ کے ہاں ”کلام مقدس“ کہا جاتاہے، اسے عربی میں ”الکتاب المقدس“اور انگریزی میں بائبل کہا جاتا ہے،عہد نامہ انجیل سے مراد وہ چار اناجیل ہیں جو مختلف لوگوں نے تحریر کی ہیں، مسیحی ان اناجیل اربعہ کو آسمانی کتاب نہیں سمجھتے، بلکہ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ان اناجیل میں سے کوئی انجیل حضرت عیسی علیہ السلام کے عہد مبارک میں نہیں پائی جاتی تھی، اس لیے علی بن احمد بن حزم اندلسی نے فرمایا ”مسیحیوں نے ان اناجیل کے متعلق انسانی تصنیف کا اقرار کرکے ہمیں اس کے انسانی تصنیف کے ثبوت پر دلائل قائم کرنے کی مشقت سے آزاد کر دیا ہے۔“(الملل والنحل لابن حزم:ص:241)

پہلی انجیل متیٰ نامی شخص کی تصنیف ہے اور 28 ابواب پر مشتمل ہے۔دوسری انجیل ہرقس نامی شخص کی تصنیف ہے جو12 ابواب پر مشتمل ہے اور تیسری انجیل لوقا نامی شخص کی جانب منسوب ہے، جو24 ابواب پر مشتمل ہے،چوتھی انجیل یوحنا نامی شخص کی تصیف ہے، جو 21 ابواب پر مشتمل ہے۔ان چاروں اناجیل کی تصانیف کا زمانہ مختلف فیہ ہے اور اس کی تعیین پر مسیحی علماء کا اتفاق نہ ہو سکا۔

قرآن کریم میں انجیل کی جو تعریف ملتی ہے وہاں لفظ انجیل سے وہ کتاب اور وہ تعلیم مراد ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ وہ کتابیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد لوگوں نے تالیف کیں اور ان میں حضرت عیسیٰ ؑ کے حالات اور اقوال کو صحیح یا غلط طور پر جمع کردیا ہے اور جسے اب عیسائی متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کی انجیل کہتے ہیں، وہ انجیل نہیں جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے۔ چنانچہ امام قرطبی نے الاعلام میں اس کی تصریح کی ہے اور یہی نقظہ نگاہ امام رازی نے بیان کیا ہے۔ وہ تاریخ انجیل پر بحث کرنے اور یہ بتانے کے بعد کہ کس طرح اسے تاریک ادوار سے گزرنا پڑا، فرماتے ہیں کہ اس ابتری کے زمانے میں اصل انجیل جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی تھی وہ تو ضائع ہوگئی۔ اس میں سے صرف چند ایک حصے باقی ہیں۔ ان ہی کی روشنی میں ان پر حجت تمام کی جاسکتی ہے۔

قرآن مجید میں جس انجیل کا ذکر ہے، اس کی وضاحت حضرت قتادہ بن جعفر اور ابن حمید اور دیگر تابعین کے اقوال سے ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ انجیل سے وہ کتاب یا احکام الٰہی مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ ؑ پر وحی کی صورت میں نازل ہوئے (ابن جریر)۔ قریبی دور میں علامہ رحمت اللہ کیرانوی نے علمائے اسلام کے فتاویٰ کی روشنی میں تصریح کی ہے کہ قرآن مجید میں انجیل سے مرادوہ اصل کتاب ہے جو حضرت عیسیٰ ؑپر وحی کی گئی تھی اور یہ عہد نامہ جدید انجیل عیسیٰ ؑ نہیں۔ مولانا عبدالحق حقانی فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ؐ کے زمانے میں دراصل تورات اور انجیل

موجود نہ تھی۔موجودہ فرضی مجموعے کو وہی تورات اور انجیل بتانا محض کم فہمی اور دھوکہ ہے (فتح المنان)۔ علامہ رشید رضا مصری لکھتے ہیں کہ چوتھی صدی عیسوی میں متعدد اناجیل موجود تھیں، جن میں سے چار انجیلیں منتخب کرکے موجودہ عہدنامے میں شامل کرلی گئیں۔ ان کتابوں کو ہم وہ انجیل نہیں کہہ سکتے، جس کا قرآن میں ہر جگہ صیغہ ئ واحد سے ذکر کیا گیا ہے اور جو حضرت عیسیٰ ؑ پر نازل کی گئی تھی (تفسیر المنار)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 111138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.