#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالکہف ، اٰیت 83 تا 85
ازقلم. مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روازنہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
یسئلونک
عن ذی القرنین
قل ساتلوا علیکم منہ
ذکرا 83 انا مکنالہ فی الارض
واٰتینٰہ من کل شئی سببا 84 فاتبع
سببا 85
اے ھمارے رسول ! آپ سے آپ کے زمانے کے کُچھ لوگ تو آپ کے زمانے میں
ذُوالقرنین کی شخصیت کے بارے میں پُوچھ رھے ہیں اور کُچھ لوگ آپ کے زمانے
کے بعد بھی ذُوالقرنین کی شخصیت کے بارے میں پُوچھیں گے اِس لیۓ آپ پہلے تو
اِن سب کے سب لوگوں کو یہ بات بتادیں کہ میں تُم کو ذُوالقرنین کا وہی
اَحوال سُناؤں گا جو اللہ تعالٰی نے اپنی اِس کتابِ نازلہ میں نازل کیا ھے
اور اِس صراحت کے بعد آپ اُن سب لوگوں کو ھماری کتابِ نازلہ سے وہی اَحوال
پڑھ کر سُنائیں جو اَحوال ھماری اِس لکھی ہوئی کتاب میں لکھا ہوا ھے اور
ھماری اِس کتاب میں ذُوالقرنین کا جو اَحوال لکھا ہوا ھے وہ یہ ھے کہ ھم نے
ذُوالقرنین کو زمین پر زمین کے تختِ حُکمرانی کا مالک بنایا تھا اور ھم نے
زمین پر اُس کو زمین کا نظامِ حُکمرانی چلانے کے لیۓ ہر قسم کا سامانِ جہاں
بانی بھی عطا فرمایا تھا اور پھر وہ ھمارے اِس سامانِ جہاں بانی کے ساتھ
فتح و ظفر کے ایک راستے پر چل نکلا تھا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
ھم اِس اَمر کی تفصیل بیان کر چکے ہیں کہ قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا
میں"ذُوالقرنین" کی عرفیت کے ساتھ معروف ہونے والے جس بادشاہ کا ذکر کیا ھے
عُلماۓ روایت نے اُس بادشاہ کی عرفیت میں آنے والے اِسمِ واحد "قرن" کا
معنٰی سینگ کیا ھے اور اٰیتِ ھٰذا میں جو لفظِ "قرنین" آیا ھے وہ اپنی ساخت
کے اعتبار سے چونکہ اِسمِ تثنیہ ھے اِس لیۓ "ذوالقرنین" کی اِس عرفیت کے
ساتھ معروف ہونے والے اِس بادشاہ کو اُنہوں نے پہلے تو بلاتکلف دو سینگوں
والا ایک بادشاہ قرار دیا ھے اور پھر اِس دو سینگوں والے بادشاہ کو وہ
انسانی تاریخ کے بکھرے ہوۓ اَوراق میں تلاش کرتے ہوۓ پہلے ایک بادشاہ سکندر
تک پُہنچے تھے اور اَب وہ ایران کے ایک بادشاہ خورس تک جا پُہنچے ہیں اور
مولانا آزاد مرحوم نے تو 1838 ء میں ایک کھدائی کے دوران دریافت ہونے والے
اُس کَھنڈری ڈھانچے کو ذُوالقرنین کا ڈھانچا قرار دیا ھے جس کے سر پر دو
سینگ اور جسم کے دونوں اَطراف میں پھیلے ہوۓ دو پَر بھی موجُود تھے ،
حالانکہ یہ عقلِ عام کی ایک بہت ہی عام سی بات ھے کہ اگر قُرآنِ کریم کا
مطلوبہ "ذُوالقرنین" وہی ہوتا جس کا ڈھانچا 1838 ء کی کُھدائی کے دوران
زمین سے برآمد ہوا ھے تو قُرآنِ کریم میں اُس بادشاہ کی صرف ایک عرفیت
"ذُوالقرنین" ہی موجُود نہ ہوتی بلکہ اُس کی دُوسری عرفیت "ذُوالجناحین"
بھی ضرور موجُود ہوتی لیکن قُرآنِ کریم میں چونکہ ایسا نہیں ھے تو اِس کا
مطلب اِس کے سوا اور کُچھ بھی نہیں ھے کہ 1838 ء کی مُبینہ کُھدائی کے
دوران نکلنے والا وہ دو پروں اور دو سینگوں والا مُبینہ ڈھانچا اور تو شاید
سب کُچھ ہو سکتا ھے لیکن قُرآنِ کریم کا بیان کیا ہوا "ذوالقرنین"ہر گز
نہیں ہو سکتا ، کلامِ عرب میں "قرن" کا معروف اور متداول معنٰی وقت یا
زمانہ ھے اور قُرآنِ کریم کی قُرآنی لُغت میں بھی عُلماۓ روایت کے سوا ہر
دیکھنے والے کو بھی وقت یا زمانے کا وہی مُتفق علیہ معنٰی نظر آتا ھے جس
معنی پر کبھی بھی کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا ھے ، یہی وجہ ھے کہ جب ھم
قُرآنِ کریم کی مُختلف اٰیات پر نظر ڈالتے ہیں تو قُرآنِ کریم کی قُرآنی
لُغت کے مطابق بھی"قرن" ایک اسمِ واحد ھے جس کا معنٰی وقت یا زمانہ ھے اور
قُرانِ کریم نے اِس اسمِ وقت و اسمِ زمانہ کو سُورةُالاَنعام کی اٰیت 6 ،
سُورہِ مریم کی اٰیت 74 و 98 ، سُورہِ ص کی اٰیت 3 اور سُورہِ ق کی اٰیت 36
کے اِن پانچ مقامات پر اسی وقت اور اسی زمانے کے معنی میں استعمال کیا ھے ،
قُرآنِ کریم کے اِس اسمِ واحد "قرن" کی جمع "قرون" ھے جس کا معنی "زمانے"
ھے اور قُرآنِ کریم کی سُورہِ یُونس کی اٰیت 13 ، سُورہِ ھُود کی اٰیت 16 ،
سُورةُالاَسرٰی کی اٰیت 17 ، سورہِ طٰہٰ کی اٰیت 51 و 128 ، سُورةُالقصص کی
اٰیت 43 و 78 ، سُورہِ فرقان کی اٰیت 38 ، سُورةُالمؤمنون کی اٰیت 42 ،
سُورہِ یٰس کی اٰیت 31 ، سُورةُالسجدة کی اٰیت 26 اور سُورةُ الاَحقاف کی
اٰیت 17 کے بارہ مقامات پر اِس اسمِ واحد "قرن" کی جمع "قرون" کو بھی اسی
وقت اور اسی زمانے کے معنی میں استعمال کیا ھے جو کلامِ عرب میں ہمیشہ سے
ایک معروف اور متداول معنی رہا ھے ، قُرآنِ کریم کے اِس اسمِ واحد "قرن" کی
اِس جمع "قرون" کے اِس دُوسرے مقام کے بعد اِس کا تیسرا مقام قُرآنِ کریم
کی اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت کا یہ مقام ھے جس میں "قرن" کا اسمِ تثنیہ
"قرنین" آیا ھے اور اِس مقام پر آنے والے اِس "قرنین" کا معنٰی بھی دو سینگ
نہیں ھے بلکہ اِس کا معنٰی بھی وہ دو مُختلف وقت یا وہ دو مُختلف زمانے ہیں
جو اللہ تعالٰی کی رحمت و مہربانی سے اِس بادشاہ کو کارِ شاہی اَنجام دینے
کے لیۓ مُیسر آۓ تھے لیکن عُلماۓ روایت نے حسبِ روایت قُرآنِ کریم کی اِن
سترہ اٰیات پر توجہ دینے کے بجاۓ اُن واہیات روایات پر توجہ دی ھے جن
روایات نے اِس مضمون کا سارا مفہوم ہی بدل کر رکھ دیا ھے کیونکہ اِن کی
ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ یہی بیہودہ خواہش رہی ھے کہ قُرآن کے بیانیۓ کے ساتھ
اپنی روایات کا کوئی ایسا روایتی بیانیہ لایا جاۓ جس روایتی بیانیۓ سے اور
تو سب کُچھ ثابت ہو جاۓ لیکن قُرآن کا مقصد و مَنشا کبھی بھی ثابت نہ ہو
پاۓ ، اِس اعتبار سے اِن کا کردار بائبل کی اُس روایتی عورت سے قطعاً
مُختلف نہیں ھے جو سارے شہر کو راضی رکھ کر ہمیشہ راضی ہوتی ھے لیکن اپنے
شوہر کو راضی رکھ کر کبھی بھی راضی نہیں ہوتی ، یہی وجہ ھے عُلماۓ روایت
ہمیشہ ہی قُرآنی اٰیات کے ساتھ اپنی واہیات روایات لگا کر قُرآن کے مطالب و
مقاصد کو بگاڑتے چلے آرھے ہیں تاکہ وہ اللہ کی زمین میں قُرآنی دین کے بجاۓ
ایرانی دین کو پھیلا کر اہلِ زمین کو گُم راہ کر سکیں ، مثال کے طور اسلامی
تاریخ میں مُسلمانوں کی پہلی مدافعتی جنگ ، جنگ بدر ھے اور اِس جنگ کا
قُرآنی پس منظر یہ ھے کہ مُشرکینِ مکہ نے مدینے سے مُسلمانوں کے قدم
اُکھاڑنے کے لیۓ مدینے پر اپنی پُوری قوت کے ساتھ ایک بھر پُور حملہ کیا
تھا اور اِس اَچانک حملے کا دفاع مُسلمانوں کے اُس سرحدی دستے نے کیا تھا
جو رسول اللہ کی نگرانی میں سرحد پر ہونے والی عمومی نقل و حرکت کا ایک
عمومی جائزہ لینے کے لیۓ ایک حُسنِ اتفاق کے طور پر ہی وہاں پر آیا گیا تھا
لیکن عُلماۓ روایت نے قُرآن کے اِس بیانیۓ کے ساتھ یہ روایتی "پَخ" لگائی
ہوئی ھے کہ مُسلمان ابو سفیان کے تجارتی قافلے کو لُوٹنے کے لیۓ وہاں آۓ
تھے حالانکہ قریشِ مکہ کا اور مُسلمانوں کا آمنا سامنا اور مقابلہ اُس جگہ
پر ہوا تھا جو ابو سفیان کے اُس تجارتی قافلے سے دُور تھا اور ابو سفیان کا
تجارتی قافلہ اُس مقام سے گزر رہا تھا جو جنگ کے اُس میدان سے دُور تھا ،
اسی طرح قُرآنِ کریم کُفار کے ساتھ مُسلمانوں کی ہونے والی جن تین دفاعی
جنگوں کا ذکر کرتا ھے وہ جنگِ بدر و جنگِ اَحزاب اور جنگِ حنین ہیں لیکن
عُلماۓ روایت نے انتہائی بے شرمی کے ساتھ اپنی مجہول روایات کے ذریعے اِن
جنگوں میں وہ چوتھی جنگ ، جنگِ اُحد بھی شامل کی ہوئی ھے جس جنگ کے بارے
میں اُنہوں نے یہ مشہور کیا ہوا ھے کہ اُس جنگ میں رسول اللہ کے دندان
مُبارک شھید ہونے کے علاوہ آپ کے بہادر چچا حمزہ بھی شھید ہو گۓ تھے اور
ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے آپ کے محبوب چچا حمزہ کے دل و جگر اور ناک کان
وغیرہ کاٹ کر اُن کے ٹکڑوں سے اپنے گلے کا وہ ہار بنا لیا تھا جس کو گلے
میں ڈال کر وہ میدانِ جنگ پھر رہی تھی اور اِس جنگ میں رسول اللہ کے بارہ
ساتھیوں کے سوا آپ کے باقی سارے کے سارے اَصحاب آپ کو میدانِ جنگ میں تَنِ
تَنہا چھوڑ کر بھاگ گۓ تھے ، اگر عُلماۓ روایات کی اِن روایات کا یہ گُورکھ
دھندا درست ہوتا تو قُرآنِ کریم میں کسی اور جنگ کا ذکر ہوتا نہ ہوتا ،
جنگِ اُحد کا ذکر ضرور ہوتا لیکن قُرآنِ کریم میں جہاں دیگر تین جنگوں کا
ذکر موجُود ھے وہاں پر اِس چوتھی جنگ کا کوئی نام و نشان بھی موجُود نہیں
ھے کیونکہ مجوسی اہلِ روایت نے اَصحابِ علیہ السلام کو بدنام کرنے کے لیۓ
چوتھی جنگ کی یہ روایتی کہانی مشہور کی ہوئی ھے ، اِن اَمثال سے قطع نظر
سوال یہ ھے کہ اگر قُرآنِ کریم میں قرن و قرون اور قرنین کا معنٰی و مفہوم
موجُود ھے تو قُرآن کو اور قُرآن کے اِن سارے متفق علیہ معنوں کو چھوڑ کر
عُلماۓ روایت کو یہ ایران تُوران کی ہانکنے کی کیا ضروت تھی سواۓ اِس کے کہ
اِن کی ہر ایک دل چسپی ہمیشہ ہی یہودی و نصرانی روایات کے ساتھ رہی ھے اور
اِن کی کوئی بھی دل چسپی کبھی بھی قُرآنی اٰیات کے ساتھ ہر گز نہیں رہی ھے
!!
|