بنی نوع انسان اور فطرت کی ہم آہنگ ترقی
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
اس وقت دنیا کو درپیش بڑے چیلنجز میں
موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ بھی انتہائی سنگین ہے جس سے نمٹنے کے لیے تمام
ممالک کوششوں میں مصروف ہیں۔یہ بات اہم ہے کہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے طے
پانے والے عالمی پیرس موسمیاتی معاہدے کو پانچ سال ہو چکے ہیں ، اس دوران
دنیا نے کئی ایسے ٹھوس اقدامات اپنائے جو قابل تعریف ہیں۔گرین ترقی کے
وعدوں سے لے کر اب کاربن صفر اخراج کےا ہداف تک ، یہ اس بات کا مظہر ہے کہ
دنیا موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ ہے۔
ماحولیات کے تحفظ میں چین ،امریکہ اور بڑے یورپی ممالک کا کردار بھی
انتہائی اہم ہے جو صنعتی سرگرمیوں کا انجن کہلاتے ہیں۔ابھی حال ہی میں
موسمیات سے متعلق سربراہی کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں بڑے ممالک
کے رہنماوں نے فطرت کے تحفظ کے لیے اپنے عزائم کا اعادہ کیا۔اس کانفرنس میں
چینی صدر شی جن پھنگ نے بنی نوع انسان اور فطرت کی ہم آہنگ ترقی کے لیے
چینی فارمولہ بھی پیش کیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سربراہی کانفرنس سے قبل شی جن پھنگ نے اقوام
متحدہ کے حیاتیاتی تنوع کی سمٹ، ریاض میں جی ٹونٹی سمٹ کے "کرہ ارض کے تحفظ"
سے متعلق اجلاس سمیت دیگر اہم اجلاسوں میں شرکت کی اور چین کی تجاویز اور
اقدامات پیش کیے۔ان میں سے سب سے اہم نکتہ یہی رہا کہ انہوں نے اقوام متحدہ
کی جنرل اسمبلی میں اعلان کیا کہ چین دو ہزار تیس تک کاربن اخراج میں
انتہائی کمی تک پہنچنے اور دو ہزار ساٹھ سے پہلے کاربن نیوٹرل کی تکمیل کی
کوشش کرے گا۔عالمی برادری کے خیال میں یہ موسمیات سے متعلق چین کا بہت اہم
وعدہ ہے جبکہ سربراہی کانفرنس میں چینی صدر نے پہلی مرتبہ "بنی نوع انسان
اور فطرت کی ہم آہنگ ترقی " کا تصور پیش کیا اور ٹھوس اقدامات کا تبادلہ
بھی کیا۔ان کے خطاب میں ماحول دوست ترقی اور کثیرالجہتی کی اہمیت پر زور
دیا گیا ۔ انہوں نے عالمی ماحولیاتی گورننس میں مختلف فریقوں کے تعاون پر
بھی زور دیا۔
موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے عالمی تعاون کی اہمیت اس باعث بھی زیادہ
ہے کہ ابھی حال ہی میں موسمیات سے متعلق عالمی تنظیم کی جاری کردہ رپورٹ
میں بتایا گیا ہے کہ 2020 اب تک ریکارڈ کئے گئے تین گرم ترین سالوں میں سے
ایک ہے۔ حالیہ نوول کورونا وائرس کی وبا، سیلابوں، خشک سالی اور طوفانوں
جیسی موسمیاتی تباہ کاریوں نے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو
متاثر کیا ہے۔ اس تناظر میں ماحولیات سے متعلق سربراہی کانفرنس کی اہمیت
اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔اجلاس میں چین کی جانب سے مختلف اقدامات متعارف
کروائے گئے جن میں کاربن اخراج میں کمی کے لئے ماحول دوست صنعتوں کی حمایت
اور آئندہ پانچ برسوں میں کوئلے کی کھپت میں کمی وغیر شامل ہیں۔
حقائق کی روشنی میں چین کے پاس آب و ہوا کی بہتری کے حوالے سے اہداف کو
حاصل کرنے کے لئے واضح "روڈ میپ" موجود ہے۔ چین نے ایک بڑے ذمہ دار ملک کی
حیثیت سے ماحولیات کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے حوالے سے دنیا
کی رہنمائی کی ہے۔ چین کاربن اخراج میں کمی کے لیے کوئلے سے بجلی کے
پیداواری منصوبوں پر سختی سے قابو پا رہا ہے ، چین 14 ویں پانچ سالہ منصوبے
کی مدت کے دوران کوئلے کی کھپت میں اضافے کو سختی سے محدود کرے گا اور اسے
15 ویں پانچ سالہ منصوبے کی مدت میں ختم کرے گا۔چین کی جانب سے گرین
انفراسٹرکچر ، گرین انرجی ، گرین ٹرانسپورٹ اور گرین فنانس میں وسیع پیمانے
پر کوششوں کا احاطہ کرتے ہوئے گرین ایکشن کے متعدد اقدامات کا آغاز کیا گیا
ہے اور ان کوششوں میں دنیا بالخصوص بیلٹ اینڈ روڈ کے شراکت دار ممالک کو
بھی ساتھ رکھا جا رہا ہے تاکہ اشتراکی گرین ترقی سے عوام کو پائیدار فوائد
حاصل ہو سکیں۔
چین نے ایک جانب جہاں ترقی یافتہ ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھرپور عزم
کا مظاہرہ کریں اور عملی اقدامات اختیار کریں وہاں دوسری جانب اس حوالےسے
ترقی پزیر ممالک کی مدد کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیاہے۔بلاشبہ عالمی
ماحولیاتی گورننس میں بے مثال چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے عالمی برادری کو
غیر معمولی عزائم اور عملی اقدامات کے ساتھ سامنے آنے کی ضرورت ہے۔ ترقی
یافتہ ممالک کو چاہیے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کی مالی اعانت ، ٹیکنالوجی اور
استعداد کار کی تعمیر میں معاونت کریں اور گرین معیشت اور تجارت کو فروغ
دیں۔اس ضمن میں چینی صدر شی جن پھنگ کے اس نظریے پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت
ہے کہ "ہمیں فطرت کا تحفظ کرنا چاہئے اور ماحول کو اس انداز سے محفوظ بنانا
چاہئے جیسے ہم اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتے ہیں"۔ فطرت کے احترام کی بنیاد پر
ہی پائیدار اقتصادی سماجی ترقی ممکن ہے۔
|
|