مجاہد قاضی فائز عیسیٰ
(Dr Ch Abrar Majid, Islamabad)
قلات کا شہزادہ ، بین الاقوامی اداروں سے فارغ التحصیل جس کو گھٹی میں قضاء ملی اور جب ان کو قاضی کے عہدے لے لئے چنا گیا تو ایک اطلاع کے مطابق انکی تین کروڑ ماہانہ آمدن تھی ۔ ان کے کھاتے میں کئی منفردات جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کو براہ راست چیف جسٹس آف بلوچستان ہائی کورٹ لگایا گیا جس کو بعد میں چیلنج بھی کیا گیا مگر وہ اس سے سرخ رو ہوئے اوروہ جن کو نہ تو عزت کی کمی تھی اور نہ مال و دولت کی بلکہ ان کو لانے کا مقصد ہی پاکستان کی عدلیہ کو ایک ایسا جج دینا تھا جس کی واقعی ضرورت تھی ۔ |
|
حضوراکرمﷺ کا فرمان ہے کہ تین قسم کے جج
پائے جاتے ہیں ایک وہ جو جج بننے کی ایلیت ہی نہیں رکھتے اور جج بنا دئیے
جاتے ہیں دوسرے وہ جو اہلیت تو رکھتے ہیں مگر ان کے فیصلے انصاف پر مبنی
نہیں ہوتے اور تیسرے وہ جو اہلیت بھی رکھتے ہوتے ہیں اور ان کے فیصلے بھی
انصاف پر مبنی ہوتے ہیں ان میں سے دو قسم کے جج دوزخ میں جائیں گے جن میں
پہلے دو جو یا تو اہلیت ہی نہیں رکھتے یا پھر اہلیت تو رکھتے ہیں مگر ان کے
فیصلے انصاف پر مبنی نہیں ہوتے ایک تیسری قسم کے جج جنت میں جائیں گے جو
اہلیت بھی رکھتے ہیں اور ان کے فیصلے بھی انصاف پر مبنی ہوتے ہیں ۔
جج کی اہلیت کی بات کریں تو باقی تمام تر علمی قابلیت اور خصوصیات کے علاوہ
اس کے اندر پائی جانے والی پہلی خصوصیت جو اس کی اہلیت کی شرط ہے وہ یہ ہے
کہ اس کو اس عہدے کی خواہش نہ ہو ۔ اب موجودہ حالات میں آپ اندازہ لگا سکتے
ہیں کہ کتنے ایسے لوگوں کو اس عہدے کے لئے چنا جاتا ہے جن کو اس عہدے کی
خواہش نہیں ہوتی ۔ مگر قاضی صاحب کے متعلق اگر معلومات حاصل کریں تو پتہ
چلتا ہے کہ ان کو اس کی خواہش نہیں تھی بلکہ اس وقت کے صاحب اختیار لوگوں
کی خواہش کے پیش نطر ان کو اس عہدے کے لئے چنا گیا اور ان کی یہ زرا نوازی
ہے کہ انہوں نے اس عہدے کو قبول کیا ۔ اس بات کا اظہار کل عدالتی فیصلے کے
ان کے حق میں سنائے جانے کے بعد وہاں موجود لوگوں نے بھی کیا ہے کہ جب
فیصلہ ان کے حق میں سنایا گیا تو لوگوں نے ان کو مبارکیں دیں تو کہتے ہیں
ان کے چہرے کے تاثرات پر کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی بلکہ انہوں نے مبارک پیش
کرنے والے وکلاء اور دوسرے لوگوں کو بھی یہ کہا کہ میں تو اس سے جان
چھڑوانا چاہتا تھا اور یہ جیت آپ لوگوں کی ہے اور بار ایسوسی ایشنز کی ہے
جنہوں نے کوششیں کیں ۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے اظہار کیا تھا کہ وہ استعفےٰ
دینے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوگئے تھے مگر پھر انہوں نے عوام ، ملک اور
نظام عدل کی خدمت کی خاطر اپنا فیصلہ تبدیل کیا ۔
انکے خلاف ریفرنس سے تو پہلے سے ہی بدنیتی پر مبنی کرار دے کر ان کو باعزت
بری کر دیا گیا تھا مگر انکی اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں کے متعلق ٹیکس
معاملات کی انکوائری کے لئے ایف بی آر کو انکوئری اور رپورٹ جمع کروانے کا
حکم صادر کیا گیا تھا جس کو قاضی صاحب اور ان کی اہلیہ نے نظرثانی کی
درخواست کی تھی کہ یہ حکم انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے ۔ جس پر انکے وکیل کی
صحت خراب ہوجانے کہ وجہ سے انہوں نے ذاتی طور پر پیش ہوکر دلائل دینے کی
درخواست دی اور وہ قبول ہوگئی
اور پھر جب انہوں نے اپنے اور ملک و قوم کے حقوق کی خاطر میدان میں آنے کا
ارادہ کیا تو پھر مجاہدوں کی طرح میدان میں اترے اور عدالت میں ذاتی حیثیت
سے دلائل دئے ، قانونی ماہرین نے اپنی آراء کا اظہار بھی کیا کہ ان کو اپنے
کیس میں ذاتی حیثیت میں پیش ہوکر دلائل نہیں دینے چاہیں تھے کیونکہ وہ کبھی
کبھی جذباتی بھی دکھائی دئے جس کا ججز نے اظہار بھی کیا تو انہوں نے کہا کہ
میں اپنی ذات کی خاطر نہیں بلکی ملکی حالات کو دیکھ کر جذباتی ہوتا ہوں ۔
انہوں نے مجاہد قاضی کے طور پر جب ذاتی طور پر دلائل شروع کئے تو ان کی
پہلی خواہش یہ تھی کہ ان کے کیس کی کاروائی کو میڈیا پر براہ راست دکھایا
جائے تاکہ عالمی برادری اور خاص کر پاکستانی عوام دیکھیں کہ ان پر کیا
الزامات ہیں اور ان کیا شواہد ہیں اور اس بارے قاضی صاحب نے کیا ثبوت اور
دلائل پیش کئے ہیں جس کو اکثریتی ججز نے تسلیم کیا مگر کچھ تکنیکی مسائل کی
وجہ سے اس پر عمل تو نہ ہو سکا مگر ان کے اس موقف کو تائید ضرور ملی اور
امید ہے کہ مستقبل میں اس کو آگے بڑھانے میں مدد ضرور ملے گی ۔ وہ براہ
راست کاروائی دکھانے کے لئے اس لئے درخواست گزار تھے کہ ان پر عدالتی اور
جوڈیشل کمیشن کی کاروائی شروع ہونے سے بھی قبل ہی کردار کشی کا کام شروع
ہوگیا تھا اور کچھ عناصر نے ماورائے عدالت اپنی عدالتیں لگا لیں تھیں اور
ان کو رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لہذا ہو چاہتے تھے کہ عوام
اور عالمی برادری ان کی کاروائی کو براہ راست دیکھے تاکہ غلط فہمیاں دور
ہوں اور غلط بیانیاں پر سے پردہ اٹھ سکے ۔
خیر مجاہد قاضی نے ذاتی طور پر دلائل دے کر یہ ثابت کردیا کہ وہ صرف انصاف
دے ہی نہیں سکتے بلکہ وہ انصاف لے بھی سکتے ہیں ۔ ان کی انصاف پر مبنی
فیصلے تو پہلے بھی اپنی مثال آپ تھے اور ان کے چند فیصلوں سے نالاں طاقتوں
نے ہی تو ان کے خلاف ریفرنس دائر کرکے ان کو اس عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی
تھی جس کا اظہار انہوں نے برملا طور پر اپنے دلائل میں بھی کیا ہے ۔ عدالت
عالیہ نے اس ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی کرار دیتے ہوئے ختم کردیا تھا ۔ جس
طرح میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ بہت سے منفردات ان کے حصہ میں آتے ہیں ان
میں سے ایک یہ بھی پاکستان کی تاریخ کا منفرد اور تاریخی واقعہ ہے کہ کس
طرح ایک موجودہ جج اپنے خلاف الزامات میں اپنے ہی ساتھی ججز کے سامنے پیش
ہوکر ذاتی طور پر شواہد اور دلائل دے کر ان کے اوپر لگائے گئے جھوٹے
الزامات سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے ۔
اور پھر ان کے عدل اور عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کی مثال دیکھئے کہ جب سے
ان کے خلاف الزامات کی بنیاد پر کاروائی شروع ہوئی تھی انہوں نے اس ادارے
میں کام کرتے ہوئے اور ایک ہی جگہہ پر رہائش پزیر ہوتے ہوئے بھی کبھی اپنے
رفقاء ججز سے ملاقات نہیں کی ، یہ ایک ان جیسا انصاف پسند جج ہی کر سکتا ہے
۔
کل کے فیصلے نے نہ ان کو اور ان کی فیملی کو الزامات سے مکمل بری کرکے انکے
راست کار اور اہل جج ہونے کا ثبوت مہیا کیا ہے بلکہ ان کے کردار سے محبت
رکھنے والے لوگوں کی دعاوں کو قبول کرتے ہوئے خدائی سوو موٹو کا بھی اعلان
کیا ہے کہ حق اور صبر پر قائم رہنے والوں کا خدا ساتھی ہوتا ہے اور جن کا
خدا ساتھی ہو ان کو کسی کا بھی کوئی ڈر نہیں ہوتا ۔
اب امید کی جاتی ہے کہ پاکستان میں۔مزید غیرجانبدار اور انصاف پر مبنی عدل
کا ماحول پیدا ہوگا جو ہر طرح کے الزامات سے پاک ہوگا اور قانون کی بالا
دستی دیکھنے میں آئے گی
|
|