تعلیمی پالیسیوں کی غیرہمواری

ہما ندیم،کراچی
پاکستان بننے سے اب تک جو9نصابی پالیسیاں بنی ہیں ان میں بہت حد تک یکسانیت ہے ، لیکن ہر دفعہ نیا پن دکھانے کے لیے کچھ نہ کچھ ردوبدل کردی جاتی رہی۔یہ پالیسیاں نتیجہ خیز کیوں ثابت نہیں ہوئیں، اس کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں، ایک تو یہ کہ ان پالیسیوں کے مبادی ہمارے سماج اور اس کی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا نصاب گلوبلائزڈ اکانومی کے کارندے پیدا کر رہا ہے۔ یہ طالب علم پاکستان کے لیے کتنے کارآمد ہونے چاہییں یہ نہیں سوچاگیا۔

تعلیمی پالیسیوں کی ناکامی کا دوسرا سبب غیر حقیقی اہداف مقرر کیے جانا بھی ہے۔مثلا ًیہ کہہ دینا کہ2015 تک خواندگی پچاسی فیصد تک بڑ ھانی ہے ، کتنا غیرحقیقی ہدف ہے کہ ساٹھ پینسٹھ سالوں میں تو آپ نے پچاس فیصد تک خواندگی بڑ ھائی ہے ،تین سالوں میں پینتیس فیصد مزید بڑ ھانے کی بات کرتے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ ناکامی پر معذرت کرنے کی بجائے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے اتنا ہدف اس لیے رکھا تھا کہ کچھ تو حاصل ہوجائے گا۔کتنا غیرسنجیدہ رویہ ہے کہ آپ قوم کو بہکا رہے ہیں اور قوم بھی بہکاوے میں اگر آرہی ہے تو نہایت افسوسناک صورتحال ہے۔

تیسرا پہلو یہ ہے کہ یہ کوئی ایک تعلیمی نظام نہیں بلکہ multipleتعلیمی نظام ہیں ،بیک وقت کئی تعلیمی نظام ملک میں چل رہے ہیں۔آپ کے ہاں پبلک اسکول ہیں، پرائیویٹ اسکول ہیں،پرائیویٹ سیکٹر میں بھی دوتین طرح کے نظم کے حامل اسکول ہیں،کیڈٹ کالج ہیں،دینی مدارس کا ایک سلسلہ ہے جس کے پانچ چھ الگ الگ وفاق ہیں۔جب اتنے متنوع ومتعدد تعلیمی نظم بیک وقت چل رہے ہوں اس کے بعد آپ کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ ہم ایک قوم بن جائیں گے۔تنوع مسئلہ نہیں ہوتا،ہر فرد کا حق ہوتا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے حاصل کرے لیکن جب پہلے دن سے ہی کسی کوایک نظم میں ڈال دیاجائے تو اس نے ساری زندگی اسی میں گزار دینی ہے۔ کس سطح کی اور کس معیار کی تعلیم دی جارہی ہے اس سے فرد کا مستقبل طے ہو رہا ہوتا ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو elite classہے وہ عہدوں پر براجمان ہوتی ہے ،انہیں ملازمت ملتی ہے،جبکہ پبلک سیکٹر کے طلبہ مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں،بے روزگار ہوتے ہیں،ان کا مستقبل ختم ہو جاتا ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ تعلیم کی مرکزیت نے نقصانات کو جنم دیا ہے۔ایک عرصے سے ہماری جمہوری سیاست کا اصرار تھا کہ تعلیم کی مرکزیت کو ختم کیا جانا چاہیے۔میرے خیال سے یہ بہت مثبت فیصلہ تھا جب اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے تعلیم کو صوبوں میں منتقل کر دیا گیا۔لیکن اس کے بعد خدشات کا بھی اظہار کیا جاتا رہاہے۔ہمارے آئین میں قومی اتحاد پر زور ہے،ٹھیک ہے ہونا چاہیے لیکن اس کے نام پر اگر صوبوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ نصاب اور طرزِ تدریس ایک جیسا رکھیں تو اٹھارہویں ترمیم کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے جس سے صوبوں کو تخلیقیت کی آزادی دی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے تناظر میں متعلقہ امور دیکھیں اور عمل کریں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ مرکزیت کا دائرہ رکتا نہیں ہے،یہ پھیلتا چلاجاتا ہے۔جو لوگ سماجی علوم سے شغف رکھتے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ یکسانیت اور اتحاد میں فرق ہوتا ہے۔اتحاد اور unityتنوع سے ابھر کر آتی ہے ،اور اگر آپ uniformityکو اتحاد کی علامت سمجھتے ہیں تو یہ فوج میں تو ہوسکتا ہے کہ ایک یونیفارم ہو جب لیفٹ یا رائٹ کہا جائے تو ویسا ہی کیا جائے۔فوج میں تو یہ اچھی بات ہے لیکن سویلین لائف میںuniformityبری چیز ہے،سویلین لائف میں تنوع کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔

 

Sara Farooqi
About the Author: Sara Farooqi Read More Articles by Sara Farooqi: 3 Articles with 2435 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.