وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب سے 3اپریل 2021کو ٹویٹ
کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ اس سال رمضان کا چاند 13اپریل کو نظر آئے گا
اور پہلا روزہ 14اپریل کو ہو گا۔ مزید یہ کہ چاند اسلام آباد، لاہور،
پشاور اور کراچی میں واضح طور پر دیکھا جا سکے گا۔ حکومت کی جانب سے اس
ٹویٹ نے رؤیت ہلال کے مسٔلہ پر ایک بار پھر بحث کا آغاز کر دیا۔ اس
ٹویٹپر رؤیت ہلال کمیٹی کے نئے چئیرمینمولانا عبد الخبیرآزاد نے بھی خفگی
کا اظہار کیا کہ فواد چوہدری صاحب کو کمیٹی کے اجلاس کا انتظار کرنا چاہیئے
تھا جبکہ وزارت سائنس کے ایک سینئرآفیسررؤیت ہلال کمیٹی کے باقاعدہ ممبر
بھی ہیں۔ یاد رہے کہ فواد چوہدری صاحب نے 26مئی 2019 کو رؤیت ہلال پر مبنی
پاکستان کی سرکاری ویب سائٹpakmoonsighting.pk کو بھی لانچ کیا تھا اور
30مئی 2019 کو "دارؤیت "(The Ruet) کے نام سے ایک اینڈروائڈایپلیکیشن
(android application) کو بھی جاری کیا تھا جو گوگل پلے اسٹور(google play
store) پر موجود ہے۔ لیکن اس بار اس بحث میں ایک نیا رخ یہ سامنے آیا ہے
کہآیارؤیت کیے بغیر محضحساب کتاب (calculations) کی بنیاد پر قمری مہینے
کا آغاز کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
یہ بات درست ہے کہ سائنس میں ہونے والی ترقی اور جدت کے باعث علمِ فلکیات
کے ایسے اسرارورموز انسان پر آشکار ہو چکے ہیں، جن سے واقفیت کو ماضی میں
محض ایک خواب سمجھا جاتا تھا۔ ان نئے حاصل ہونے والے علوم کے باعث انسان آج
اس قابل ہے کہ وہ نہ صرف حالیہ بلکہ آنے والے کئی سالوں کیلئے بھی سورج،
چاند اور دیگر سیاروں اور ستاروں کی چالوں اور حالتوں کا انتہائی درست
اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس کی ایک حالیہ مثال امریکی خلائی ادارے NASA کی مریخ
کی طرف بھیجی گئی متعدد خودکار مشینوں کی مریخ کی سطح تک کامیاب رسائی ہے
جنہیں مریخ کی سطح کے ایک چھوٹے سے حصے کا نشانہ باندھ کر زمین سے روانہ
کیا گیا تھا، جبکہ ان کا مریخ تک کا سفر کئی مہینوں پر محیط تھا۔ آج فلکیات
کی سائنس کی بدولت انسان انتہائی بھروسے کے ساتھ یہ جان سکتا ہے کہ آئندہ
آنے والا سورج گرہن یا چاند گرہن کب اور کہاں وقوع پزیر ہو گا یا یہ کہ کسی
بھی قمری مہینے کا چاند کب اور کہاں پیدا ہو گا اور اس کے نظر آنے کے
امکانات کتنے ہوں گے۔
لیکن سائنس کی قابلیت سے حد درجے مرعوبیت نے مسلم دنیا میں اس بحث کو جنم
دیا کہ چونکہ اب سائنس یہ معلوم کر سکتی ہے کہ ہلال پیدا ہوا یا نہیں، یا
اس کے نظر آنے کے امکانات موجود ہیں یا نہیں، لہذا سائنسی حساب کتاب کو
ہلال کی رؤیت کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی
بڑھ کر یہ کہ اب مسلمانوں کو قمری مہینے کے آغاز کیلئے رؤیت کی ضرورت ہی
نہیں کیونکہ سائنس ہلال کی پیدائش کے متعلق قابل بھروسہ معلومات دے سکتی
ہے، لہٰذا اس بنیاد پر ماہ رمضان کے آغاز اوریوم عید کے تعین کے مسٔلہ کو
فیصلہ کن طور پر نمٹایا جا سکتا ہے اور اختلاف کو رفع کیا جا سکتا ہے۔ اس
موقف کے حاملین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ نمازوں کی اپنے اوقات میں
ادائیگی کیلئے اوقاتِ نماز کے کیلنڈر وغیرہ کا استعمال اسلام میں جائز ہےجو
کہ سورج کے حساب کتاب پر مبنی ہے، یعنی عبادات میں اوقات و ایام کے حساب
کتاب کی اجازت ہے۔ اسی طرح قمری مہینوں کے آغاز کیلئے ہلال کی پیدائش اور
نظر آنے کے امکان کا حساب کتاب لگانا اور اس بنیاد پر مہینے کا آغاز کرنا
بھی درست ہونا چاہیئے۔
اس سلسلہ میں جب ہم شرعی نصوص کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں چند ایسی احادیث
ملتی ہیں جو براہ راست اسی مسٔلہ کو موضوع خطاب بناتی نظرآتی ہیں۔
لہٰذابخاری ، مسلم اور نسائی بیان کرتے ہیں کہ ابو ہریرہؓ نے روایت کیا کہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ((صوموأ لرؤيته وأفطرأ لرؤيته فان غبى عليكم فاكملو
عدة شعبان ثلاثين)) یعنی "تم لوگ اس (چاند )کے دیکھے جانے پر روزہ رکھو اور
اس چاند کے دیکھے جانے پر روزے ختم کرو کرو اور اگر بادل چھاجائیں تو تیس
دن پورے کرو"۔اسی طرح امام مالک ، بخاری، مسلم اور نسائی بیان کرتے ہیں کہ
عبداللہ ابن عمرؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ماہِ رمضان کا ذکر کیا تو
فرمایا : ((لا تصوموا حتى ترو إ الهلال ولا تفطروإ حتى تروه فان غم عليكم
فاقدرو له)) یعنی"تم لوگ روزہ نہ رکھو جب تک چا ند نہ دیکھ لو اور افطار
(عید) نہ کرو جب تک اسے(چاند کو) نہ دیکھ لو ۔ اور اگر ابر چھا جائے تو تیس
دن پورے کرو"۔
رسول اللہ ﷺ کی یہ احادیثِ مبارکہ واضح طور پر ماہِ رمضان کے آغاز اور
اختتام کو چاند کی رؤیت یعنی اسے دیکھے جانے کے ساتھ جوڑتی ہیں۔ یعنی رسول
اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو29 تاریخ کے بعد ماہِ رمضان کے آغازاوراختتام کیلئے
ہلال کی رؤیت کو شرط قرار دیا اور رؤیت واقع نہ ہو سکنے کی صورت میں
مہینے کے 30 دن پورے کرنے کا حکم دیاہے۔بلکہ ان میں سے دوسری حدیث میں تو
رسول اللہ ﷺ نے رؤیت کے علاوہ کسی بھی اور عمل کو قمری مہینوں کے آغاز
کیلئے معیار بنانے سے منع بھی فرمایا۔ پھر مزید یہ کہ ان احادیث میں پائے
جانے والے ایک لطیف پہلو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے علمائے کرام نے لکھا ہے
کہ چاند نظر نہ آ نے کی صورت میں حساب کتاب لگانے کا حکم نہیں دیا گیا
بلکہ مہینے کے 30 دن پورے کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو کہ اس بات کی جانب
اشارہ ہے کہ قمری مہینے کے آغاز و اختتام کے لیے صورتیں صرف دو ہی ہیں۔
پہلے تو چاند کو دیکھنا ہے لیکن اگر وہ نظر نہ آ سکے تو 30 دن پورے کرنے
ہیں۔ یعنی کسی تیسری صورت (مثلاً حساب کتاب وغیرہ) کو اختیار کرنے کا حکم
ہی نہیں دیا گیا، نہیں تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ دیکھے نہ جانے پر حساب
کتاب سے پتہ چلا لو اور اگر اس سے بھی معلوم نہ ہو سکے تو پھر30 دن پورے کر
لو ۔ لیکن ایسا نہ کہا گیا۔
رؤیت ہلال کے معاملہ میں حساب کتاب پر انحصار کرنے سے متعلق ایک اور نہایت
دلچسپ حدیث ملاحظہ ہو۔ امام بخاری نے عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ
رسول الله ﷺ نے فرمایا: ((إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ، لاَ نَكْتُبُ وَلاَ
نَحْسُبُ الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا يَعْنِي مَرَّةً تِسْعَةً
وَعِشْرِينَ، وَمَرَّةً ثَلاَثِينَ)) یعنی "ہم ایک ان پڑھ قوم ہیں، نہ
لکھنا جانتے ہیں نہ حساب کرنا ۔ مہینہ یوں ہے(29دن کا)یا یوں ہے(30دن کا) ۔
آپﷺنے اپنے مبارک ہاتھوں کے اشارے سے بتایا"۔ یہاں لفظ اُمی سے یہ مراد
نہیں ہے کہ مسلمان ان پڑھ تھے اس معنی میں کہ وہ حساب کتاب کرنا نہ جانتے
تھے یا اس میں مہارت نہ رکھتے تھے،کیونکہ مسلمانوں کو تو اس وقت بھی زکوٰۃ
، عشر، خراج، خمس اور میراث وغیرہ کا حکم تھا جو بغیر حساب کتاب کیے ممکن
نہ تھا۔بلکہ اس مسئلہ میں اُمی کہنے کا مقصد بھی یہ بتانا ہے کہ اگر29کو
رؤیت نہ ہو تو 30کا مہینہ پورا کر لیا جائے بجائے اس کے کہ اس عمل کو حساب
کتاب کی پیچیدگیوں میں الجھا کر یہ تلاش کرنے کی کوشش کی جائے کہ چاند کو
مطلع پر موجود ہونا بھی چاہیے یا نہیں۔ پس رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ (إِنَّا
أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ، لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ) دراصل بلاغت کا انداز ہے
اس بات کو زور دینے کے لیے کہ مہینے کے آغاز کے تعین کے لیے حساب نہ لگاؤ۔
یوں جہاں ایک طرف قمری مہینہ کا آغاز کرنے کے لیے صرف اور صرف ہلال کی رؤیت
پر انحصار کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو وہاں اس معاملہ میں حساب کتاب پر
انحصار کرنے سے بھی منع کر دیا گیا ہے۔
جہاں تک نمازوں کے اوقات کو حساب کتاب کے ذریعے پیشگی پتہ لگانے کے جواز کا
تعلق ہے تو اللہ سبحانہ وتعالی نے نمازوں کے اوقات کے لیے سورج کی حالتوں
کو سبب قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر مغرب کی نماز کا وقت اس وقت داخل ہو تا
ہے جب سورج غروب ہو جائے ، فجر کی نماز کا وقت اس وقت خارج ہو گا جب سورج
طلوع ہو ، نماز ظہر کا وقت اس وقت داخل ہو گا جب سورج اپنے مقام استواء سے
ڈھلنا شروع کرے گا، وغیرہ۔ لیکن شریعت نے یہ متعین نہیں کیا کہ سورج کی
حالت کا پتہ کیسے لگایا جائے۔ لہٰذا شریعت نے سورج کی حالتوں کے تعین میں
لوگوں کو آزاد چھوڑ دیا۔ اس وجہ سے سورج کی حالتوں یعنی اوقات نما ز کے
علم کے لیے حساب وکتاب کا استعمال جائز ٹھہرا۔ اس کے بالکل برعکس، قمری
مہینوں کے آغاز و اختتام کے بارے میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ چاند کی
پیدائش پر مہینے کا آغاز کرو۔ اگر ایسا ہوتا تو حساب و کتاب کے ذریعے چاند
کی پیدائش کے بارے میں پتہ لگانا اور پھر اس کے مطابق مہینے کا آغاز کرنا
درست ٹھہرتا۔ لیکن حکم چاند کے دیکھے جانے کا دیا گیا، اور نہ دیکھے جانے
پر 30 دن پورے کرنے کا کہا گیا جو اس بات کی جانب واضح اشارہ کرتا ہے کہ
مہینے کے آغاز و اختتام کا محور چاند کی رؤیت ہونا یعنی اس کا دیکھا جانا
ہے نہ کہ اس کا کسی خاص مقام پر واقع ہونا ۔
لہٰذا اگر سائنس کے مطابقمہینے کی 29 تاریخ کو نئے چاند کی پیدائش قطعی طور
پر واقع ہو بھی چکی ہو لیکن وہ کسی بھی وجہ سے نظر نہ آسکے، تو ایسی صورت
میں اگلے مہینے کا آغاز کرنا جائز نہ ہو گا۔ بلکہ 30دن پورے کرنا ضروری ہو
گا۔ اسی طرح اگر مہینے کی 29تاریخ ہو اور سائنس کہے کہ چاند کی پیدائش واقع
نہیں ہوئی لیکن اس کے برعکس چاند کے دیکھے جانے کی گواہیاں موصول ہو جائیں
جو شرعی ضابطۂ شہادت پر پورا اترتی ہوں تو اگلے دن سے نئے قمری مہینے کا
آغاز ہو جائے گا اور پچھلے مہینے کے 30 دن پورے نہ کیے جائیں گے۔ یہ سب
اسی لیے کہ قمری مہینوں کے آغاز و اختتام کے بارے میں حکم چاند کے دیکھے
جانے کا ہے نہ کہ چاند کے ممکنہ طور پر پیدا ہونے کا یا اس کے کسی خاص مقام
یا حالت میں ہونے کا۔ اللہ سبحانہ وتعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے
احکامات کے مطابق اپنی عبادات کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے لیے اپنے
دین کی فہم کو تمام تر غیر اسلامی ملاوٹوں سے پاک رکھے۔آمین۔
|