" />

پیارے داجی گل کے نام

مجھے وہ دن بھی یاد ہے کہ جب میری آٹھ سال کی بہن شائستہ امی کیساتھ چچا کے گھر سے آتے ہوئے سڑک پر حادثے کا شکار ہوکر فوت ہوگئی ' داجی گل ان دنوں گاڑی لیکر پشاور آتے ' انہیں ٹھیک کرتے اور پھر بیچ دیتے تھے ' انہیں بیٹی کی حادثے میں مرنے کی اطلاع ملی ' واپس ہوئے تو گائوں کے متعلقہ لوگ جن کی گاڑی سے میر ی بہن لگ کر جاں بحق ہوگئی تھی ' جرگے کی صور ت میں آئے تھے اور سب خاندان والے موجود تھے جب انہوں نے بات کی تو داجی گل نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کردی کہ " جس نے دی تھی اس نے واپس لے لی " اب اس پر کیا لڑنا جھگڑنا ' اور میں داجی گل کو دیکھتا رہ گیا.
مجھے یاد نہیں کہ میں کبھی ان کے گلے ملا ہوں. عیدین پر لوگ گلے ملتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی مجھے گلے نہیں ملایا ' بس ہاتھ ملا کر مبارکباد اور سرپر ہاتھ پھیرنا اس کی عادت تھی- یہ وہ احساس کمتری ہے جو میں رہتی زندگی یاد کرونگا.کہ وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح مجھے گلے ملاتا ' پیار کرتا لیکن بیماری کے عالم میں بھی میں جو خود تین بچوں کا باپ تھا اس کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا تھا اس سے میں گلے ملنے کی کوشش کرتا وہ گلے بھی ملتا لیکن و ہ مزہ نہیں آیا جو بچپن میں گلے لگ کر ملنے میں آتا ہے.
کبھی انہوں نے میرے ساتھ بیٹھ کر بات ہی نہیں ' کوئی چیز ہی ڈسکس نہیں کی ' ہاں بچپن سے ڈسپلن زندگی گزارنے کا طریقہ بتا دیا .وقت پر سونا ' وقت پر کام کیلئے نکلنا اور دوستی محدود لوگوں تک رکھنا یہ شائد میرے داجی گل کی عادتیں ہیں جو مجھے منتقل ہوئی ہیں-مجھے نہیں پتہ ' آج کیوں اپنے والد جنہیں ہم بچپن میں داجی گل کہا کرتے تھے یاد آرہے ہیں-
ہر رمضان المبارک کے آتے ہی ہم سارے بچے بہت خوش ہوتے کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر افطاری کرنے کا موقع ملتا تھا ' لیکن یہ افطاری بھی بڑی ڈسپلنڈ افطاری ہوتی تھی ان کے سامنے ترتیب سے ہر چیز پڑی رہتی ' ہم ان کے سامنے سارے بچے گم سم بیٹھے رہتے ' ان کی عادت تھی افطاری سے پہلے لمبی دعا کرتے تھے او ر ہم ان کو فالو کرتے ہوئے دعا کرتے تھے کہ بس کریں داجی گل اتنی لمبی دعائیں مانگتا ہے ' لیکن جب تک وہ افطاری نہ کھولتے ہم افطاری نہیں کرتے تھے .کاش سب کچھ نہ ہو لیکن ان کا سب کیساتھ افطاری کیلئے بیٹھ جانا ایک مرتبہ پھر آجائے..
والد سب بچوں کے آئیڈیل ہوتے ہیں باپ جیسا بھی ہو ' باپ ہی ہوتا ہے ' زمانے کے سرد و گرم سے اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے ' ہمارے داجی گل بھی ایسے ہی تھے بچپن میں دادا کی وفات سے یتیم ہونیوالے والد نے آٹھویں کلاس میں تعلیم چھوڑ دی تھی ' گائوں میں زمین پر بیٹھ کر کپڑے فروخت کرنے کا کام شروع کیا پھر دکان سے لیکر ٹرکوں کا کاروبار کرنا اور پھر ٹرانسپورٹر بن جانا بڑی بات ہے ' کیونکہ جو بندہ سیلف میڈ ہوتا ہے اسے پتہ ہوتا ہے کہ کتنی مشکل سے اپنی پوزیشن بنانی پڑتی ہے اس لئے ان کا لہجہ سخت تھا ' لیکن یہ ان کی عادت تھی کہ عام حالات میں نرمی سے پیش آتے تھے لیکن وقت کی پابندی ' گھر سے باہر رہنے پر غصہ کرتے ' داجی گل نے اپنے آخری عمر تک نماز کبھی نہیں چھوڑی ' تہجد کے نماز سے لیکر اشراق کی نماز میں نے اپنے داجی گل کو پڑھتے دیکھا .
غصے کے انتہائی تیز داجی گل ہماری شیطانیوں پر ایسے مارتے کہ ان کا نام سن کر ہی ڈر لگتا کہ جب کوئی یہ کہتا کہ تمھاری شیطانیوں کا ذکر تمھارے داجی گل سے کرینگے اور ہماری ساری شیطانیاں ختم ہوجاتی تھی ' مجھے سب سے زیادہ مار جھوٹ پر پڑتی تھی کہ میں ان کے سامنے جھوٹ بولوں 'داجی گل کہا کرتے تھے کہ چاہے کچھ بھی ہو سچ بولتے رہنا 'عجیب بات ہے کہ میں عام زندگی میں سچ بولتا ہوں لیکن صحافت سے وابستگی کے بناء پر زیادہ سچ بول نہیں سکتا ' زیادہ سچ کسی کسی کو برداشت ہوتا ہے.
یہ داجی گل کی ہی ہدایت تھی کہ ا گرمیرے عدم موجودگی میں کوئی مہمان حجرے میں آئے تو سب سے پہلے موسم کے لحاظ سے خاطر مدارت کرنا ' بٹھانا پھر بعد میں اس کا ایڈریس لینااور کام کا پوچھنا ' مہمانوں کے آگے بچھ جانے والے داجی گل کے بہت کم دوست تھے ' اتمانزئی کے ملنگ خان ' مسافر خان ' ظہور خان ' ڈاکٹر نور حلیم ' سید نورشاہ کاکا ' رحمان الدین کاکا ان کے چند مخصوص دوست تھے جن سے وہ وقتا فوقتا ملتے رہتے اور ان کے ہاں ہمارے گھر والوں کا آنا جانا بھی تھا . بازار میں جانے پر پابندی ' گلی میں کھیلنے پر پابندی ' دوست زیادہ بنانے پر بھی پابندی تھی 'ایک عجیب بات یہ تھی کہ داجی گل کہا کرتے تھے کہ سب کو دوست مت بولو ' ہر کوئی دوست نہیں ہوتا ' اس طرح دوستوں میں بھی فرق ہوتا ہے ' کوئی گلی تک جانے والا ہوتا ہے ' کوئی بازار تک اور کوئی ساری عمر کی رفاقت نبھانے والا دوست ہوتا ہے اور یہ ان کی نصیحت تھی کہ گلی اور عمر بھر کی رفاقت رکھنے والے دوستوں کی پہچان کرو.
یہ بھی انہی کی تربیت کا حصہ ہے کہ آج بھی کام ہو یا فراغت 'گھر میں ٹک کر بیٹھ جانے کی عادت ہے ' میں نے بہت جگہوں پر ان کے اختلاف کیا ' ان کے سامنے غصہ بھی کیا اور وہ خاموش ہوگئے ' مجھے یاد ہے کہ سکول کے زمانے میں مجھے نیند کیلئے گولیاں کھانے کی عادت تھی ' ایک دن داجی گل نے دیکھ لیا اور پھر وہ حال کردیا کہ آج بخار اور بیماری میں بھی گولیاں کھانے سے ڈر لگتا ہے کہ بغیر دوائی کے ٹھیک ہو جائیگی.والی عادت ہوگئی ہے .
میٹر ک کا دور ایسا دورہوتا ہے جس میں ہر نوجوان خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی اپنے آپ کو بہت زیادہ عقلمند سمجھتا ہے اور اپنے والدین خصوصا والد کو پرانے زمانے کی سوچ رکھنے والا سمجھتا ہے اور یہ حال سب کا ہے لیکن یہ وقت بتا دیتا ہے کہ والد چاہے بستر مرگ پر ہی کیوں نہ ہو اس کی شخصیت کے آگے بچے کچھ بھی نہیں ہوتے . خواہ بچہ زمانے کا غوث اعظم ہو یا دنیا کا بادشاہ ' اس کی وقعت ایک بچے جیسی ہوتی ہے. ہمارے سکول کے زمانے میں فٹ بال اورہاکی کے میچز ہوا کرتے تھے اب شائد اس لئے نہیں کہ سکولوں میں کھیلنے کیلئے جگہ نہیں ' یہ واحد سرگرمی تھی جس پرداجی گل نے کبھی غصہ نہیں کیا ' آٹھویں کلاس سے لیکر دسویں جماعت تک ہاکی اور فٹ بال کھیلنے کیلئے ہم کبھی اتمانزئی کے میونسپل کمیٹی گرائونڈ میں کھیلنے کیلئے آتے تھے یا پھر ترنگزئی ہائی سکول میں میچز ہوتے لیکن کبھی داجی گل نے اس معاملے پر مار نہیں کھائی کہ کھیلوں کی سرگرمیاں کیوں جاری ہے ہاں یہ کہا کرتے تھے کہ تعلیم پر توجہ دو. اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی .
مجھے وہ دن بھی یاد ہے کہ جب میری آٹھ سال کی بہن شائستہ امی کیساتھ چچا کے گھر سے آتے ہوئے سڑک پر حادثے کا شکار ہوکر فوت ہوگئی ' داجی گل ان دنوں گاڑی لیکر پشاور آتے ' انہیں ٹھیک کرتے اور پھر بیچ دیتے تھے ' انہیں بیٹی کی حادثے میں مرنے کی اطلاع ملی ' واپس ہوئے تو گائوں کے متعلقہ لوگ جن کی گاڑی سے میر ی بہن لگ کر جاں بحق ہوگئی تھی ' جرگے کی صور ت میں آئے تھے اور سب خاندان والے موجود تھے جب انہوں نے بات کی تو داجی گل نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کردی کہ " جس نے دی تھی اس نے واپس لے لی " اب اس پر کیا لڑنا جھگڑنا ' اور میں داجی گل کو دیکھتا رہ گیا.
گائوں سے پشاور کے کامرس کالج میں داخلے تک داجی گل نے ہمیں بہت ٹف ٹائم دیا ' ہر ہفتے تیس روپے ملا کرتے تھے مہینے کے ایک سو بیس روپے 1992 میں بڑی چیزتھی 'کیونکہ نسوار سگریٹ کی عادت الحمد اللہ داجی گل کی وجہ سے نہیں پڑی تھی ' باہر کھانے کی عادت ہمیں نہیں تھی ہاں اس وقت ویڈیوز گیمز کی دکانیں ہوا کرتی تھی اور ہر ہفتے ہمیں گائوں جانا ہوتا تھا اس لئے فقیر آباد گورنمنٹ کالج چوک میں ویڈیو گیمز کی دکانوں میں کوائن لیکر سارے پیسے اڑاتے اور پھر گائوں جاکر اگلے ہفتے کیلئے خرچ لے آتے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ' یہ الگ بات کہ ایک دن داجی گل نے ہمیں ویڈیو گیمز کھیلتے دیکھ لیا تھا اور وہ مار پڑی تھی کہ اس کے بعد ویڈیو گیمز سے ہماری جان چھوٹی.
مجھے یاد ہے کہ کالج کے دوران ہی میں رمضان میں بیمار پڑ گیاتھا اور اس وقت خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں پورا مہینہ زیر علاج رہا ' مجھے تو صرف یہ یاد ہے کہ میرے ناک میں پائپ تھے اور اس کے ذریعے مجھے خوراک ملتی تھی اور میرے کپڑے بدلنے سے لیکر پیشاب صاف کرنے کی ذمہ داری میرے داجی گل نے لی تھی . جو تقریبا ایک مہینے تک جا ری رہی ' اس دوران بھی میں جب بھی ہوش میں آیا تو داجی گل کو اپنے صفائی کرتا دیکھا یاپھر نماز پڑھتے دیکھا ' مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ گائوں کے میرے کزن نے داجی گل کوکہ دیا کہ آپ گائوں جائیں ہم اس کا خیال کرینگے اور میں مدہوشی کی عالم میں یہ سن رہا تھام کہ نہیں بیٹا میں نہیں چاہتا کہ میرے بیٹے کو کل کوئی خدمت کا طعنہ دے.میں اپنے بیٹے کا خود خیال کرونگا' یہ داجی گل کی سوچ تھی ' کہ بڑے بیٹے کو کسی کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے.اے کاش ..
یہ داجی گل کی عزت تھی ان کا ڈر بھی تھاکہ 2001 سے لیکر 2007 تک کبھی ان کے سامنے نہیں بیٹھا حالانکہ ان دنوں و ہ دل کے مریض تھے اور گھر میں ہی رہتے تھے ' کبھی ان کے سامنے کنگھی نہیں ' کبھی ان کے سامنے جانے کا اتفاق بھی ہوا تو پشتو زبا ن کے بقول " ڈیر پہ اودس کے بہ ناست وو ٫" کبھی ان کے سامنے سے گزرنے کی ہمت نہیں ہوئی ا ن کے پیچھے ہی جایا کرتے تھے حالانکہ بیماری کے باعث وہ بہت سست چلتے تھے.ہر وقت چپلیو ں کی پالش کرنے والے نئے جوڑے کیساتھ نیا چادر رکھنے کی عادت جو ہمارے گھر والوں میں کسی کے حصے میں نہیں آئی ' ہاں ایک عادت جو کہ کھانے کے دوران اپنی پلیٹ صاف کرنے کی عادت ہے جو الحمد للہ داجی گل سے ہم بھائیوں میں منتقل ہوئی جس پر فخر ہی کیا جاسکتا ہے .
بہت کچھ لکھنے کو دل کرررہا ہے بحثیت باپ ' بحیثیت بھائی اور بحیثیت شوہر سمیت بحیثیت بیٹے کے ہم نے اپنے داجی گل کوکچھ معاملات میں بہت زیادہ سخت پایا لیکن یہ ان کی تربیت اور دعائوں کا اثر ہے کہ اللہ تعالی آج ہر طرح سے مہربان ہے .
لکھنے کیلئے بہت کچھ ہے لیکن کچھ یادیں ' کچھ باتیں اپنے داجی گل کے نام جنہیں سوچ کر ہمیں آج بھی محبت کا احساس ہوتا ہے .بے شک والد سخت ہوتے ہیں لیکن والد ہی وہ شخصیت ہوتی ہے جن کی چھاپ اپنے بچوں پر زیادہ ہوتی ہے اور وہ اپنے بچوں کی کامیابی کیلئے ہروقت دعاگو ہوتے ہیں.سو..اپنے والد ین کی قدر کیجئے '

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420415 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More