عدیلہ نورین
ﷲ تعالیٰ نے انسان کو ایک ایسی مخلوق بنایا جس میں متضاد صلاحتیں پائی جاتی
ہیں۔ اس میں نیکی اور بھلائی کا رجحان بھی پایا جاتا ہے اور شر اور برائی
کی طرف میلان بھی۔ وہ اپنے بہتر کردار کے ذریعہ گلشنِ انسانیت کو بہار بد
اماں بھی کر سکتا ہے اور اپنی بد کرداری کے ذریعہ اسے خزاں رسیدہ بھی بنا
سکتا ہے۔ وہ اپنی صلاحیت و استعداد کے لحاظ سے دو دھاری تلوار ہے۔ شریعت کی
تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ اس کی صلاحتیں خیر کے کاموں میں استعمال ہوں،
اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے صرف اس بات کی تلقین نہیں فرمائی کہ وہ اچھا عمل کرے،
بلکہ اس بات کو بھی واجب قرار دیا کہ دوسروں کو حسنِ عمل کی دعوت دے اور
انہیں نیکی کی طرف بلائے۔ نیز برائی سے بچنا کافی نہیں ہے، یہ بھی ضروری ہے
کہ دوسروں کو برائی سے روکے۔ نیکیوں کو پھیلانے کے لیے قرآن نے امر
بالمعروف اور برائیوں سے روکنے کو نہی عن المنکر سے تعبیر کیا ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک ہی طریقہ نہیں ہے۔ زمانہ اور حالات
کے لحاظ سے ان کے ذرائع بدل سکتے ہیں۔ موجود دور میں ذرائع ابلاغ کو اس
سلسلے میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ خیر کی دعوت
اور شر کی اشاعت دونوں کے لیے سب سے موثر ذرائع ہیں تو بیجا نہ ہو گا۔
ابلاغ کے بعض ذرائع وہ ہیں جو ناظرین تک تصویر اور آواز کو پہنچاتے ہیں اور
یقینا دیکھنے والوں پر اس کا خاص اثر پڑتا ہے۔ دوسرا ذریعہ اشاعتی صحافت کا
ہے جو تحریری شکل میں قارئین تک پہنچتا ہے۔ اگرچہ بصری وسائل انسان کے ذہن
و فکر پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں لیکن ان کا اثر چند لمحات سے زیادہ نہیں
رہتا۔ تحریر کے ذریعہ جو پیغام انسان تک پہنچتا ہے وہ فوری طور پر انسان کے
جذبات کو مہمیز نہیں کر پاتا۔ وہ دل و دماغ کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔
دنیا میں جتنے انقلاب آئے ان میں تقریر سے زیادہ تحریر نے اپنا کردار ادا
کیا ہے۔ شاید اسی لیے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کی ہدایت کے لیے آسمانی
کتابیں بھیجی گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج صحافت دل و دماغ کو فتح کرنے کا سب
سے موثر ہتھیار ہے ۔ اس سے قوموں کی تقدیر وابستہ ہو گئی ہے۔
صحافی بنیادی طور پر معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے۔ صحافی کے بارے میں کہا جاتا
ہے کہ ایک اچھا صحافی حکمرانوں اور عوام کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔
صحافی معاشرے کی امنگوں کا ترجمان ہوتا ہے مگر گزشتہ کچھ عرصے سے صحافت میں
جو انقلاب آیا ہے، اس سے صورت حال کافی بدل گئی ہے۔ آج ہزاروں اخبارات اور
چینل وجود میں آ چکے ہیں مگر جو صحافت کی اصل روح تھی وہ اب بہت کم دکھائی
دیتی ہے۔
افسوس کہ دورِ حاضر میں صحافت اپنے مقصد سے کوسوں دور بھٹک رہی ہے۔ اب
صحافت کی حیثیت انڈسٹری جیسی ہے۔اس کا مقصد خبریں فروخت کرنا ہے۔مادہ پرستی
اور مال و دولت کی حرص میں ہم صحافت کے تقدس کو روز بروز پامال کرتے جا رہے
ہیں۔ ظاہر داری اور نمود و نمائش کی دوڑ میں صحافی اپنا ہنر، اپنا
ضمیراوراپنا قلم اونے پونے داموں فروخت کرنے کو تیار ہے۔ جس قلم نے ملک میں
انقلاب برپا کرنا تھاوہ ہر طاقت کے سامنے سرنگوں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ
72 برسوں میں اُردو زبان کی صحافت کو وہ عروج نہیں مل پایاجو آزادی سے پہلے
مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر اور
مولانا ظفر علی خان جیسی ہستیوں کے دور میں دیکھنے کو ملتا تھا۔
موجودہ صحافیوں کو ازسرنو اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرنا چاہیے۔ صحافت کو
انڈسٹری یا پیشہ بنانے سے پہلے یہ ادراک ہونا چاہیے کہ صحافت ایک ذمہ داری
ہے۔ صحافت کی بھاگ دوڑ جن ہاتھوں میں ہے، ان کا راست گو، بے باک اور حق گو
ہونا ضروری ہے۔ وہ ہمیشہ حقائق پر مبنی خبر ہی اشاعت کے لیے دے۔ ہمشہ مثبت
انداز میں سوچے اور غیر جانبدار رہے۔ لوگوں میں افراتفری اور سنسنی پھیلانے
کے بجائے منفی پہلوؤں سے بھی مثبت پہلو کشید کر کے عوام کے سامنے پیش کرے۔
اس نفسانفسی کے دور میں بھی ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کو ترجیح دے، قلم کی
طاقت کا استعمال ملکی مفادات اور ملکی دفاع کے لیے ہی کرے۔ عوام اور حکومت
کے مابین پل کا کردار ادا کرے اور سماجی مسائل کو بروقت اجاگر کرے تا کہ
عوام بڑے حادثات سے بچ سکے۔ اپنی قلم اور خبر کے زور پر ظالموں کے ظالمانہ
رویوں کو بیان کرتے ہوئے مظلوموں کے لیے صحافتی جنگ لڑے۔ اس مادہ پرستی اور
مفاد پرستی کے دور میں بھی امید کی کرنیں ایسی ہستیاں موجود ہیں جو قلم کے
ذریعے دعوتِ دین، دفاعِ وطن اوراصلاحِ معاشرہ کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔
انہی کے دم سے ہمارا صحافت پہ اعتماد قائم ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ تلوار کے مقابلے میں قلم کو ہمیشہ فتح ہوئی ہے۔ ضرورت اس
امر کی ہے کہ صحافت کی بھاگ دوڑ با کردار، با اخلاق، بے باک، اور حق گو
افراد کے ہاتھ میں ہو۔
|