میاں کے سر پر ہَل چلے گا - سفر نامہِ مری

بچپن کی دہلیز پار کر کے ہم جیسے ہی ٹین ایج میں چھلانگے (ویسے تو ہم اب بھی اپنے آپ کو ٹین ایجر ہی سمجھتے ہیں ) تو گلی گلی ایک ہی نعرہ سننے کو ملا کہ۔۔۔۔۔۔ کے سر پر ہل چلیگا، ۔۔۔۔۔۔۔۔ کے سر پر ہل چلیگا۔ اسوقت نا بالغی کی وجہ سے مطلب پلے نہ پڑا، تا ہم اب جب ہم ذرا بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہ ہل تو جناب دراصل دنیا کی مظلوم ترین شخصیت، عزت مآب، قبلہ جناب محترم میاں صاحب یعنی شوہر نامدار کے سر پر چلتا ہوتا ہے۔ ویسے تو ایک بار شوہر یعنی میاں بن جانے کے بعد تا عمر ہی اس بیچارے کے سر پر ہل چلنا لکھ د یا جاتا ہے، تا ہم گرمیوں کے موسم میں اس ہل کے پَھل کچھ زیادہ ہی تیز اور نوکیلے ہو جاتے ہیں وہ یوں کہ بچوں بچونگڑوں کے دیگر اخراجات کے ساتھ ساتھ گرمیوں کی چھٹیوں کے غیرترقیاتی قسم کے اخراجات بھی اس بے چارے میاں کے لیے وبالِ جان بن جاتے ہیں۔کیسے ؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

گرمیوں کی اسکول کی چھٹیاں، یہ وہ دن ہوتے ہیں جنکا انتظار بچے اور بیوی سارا سال بڑی بیتابی سے اور بڑے یعنی میاں صاحب بڑی کمیابی سے کرتے ہیں کیونکہ انکی جیب کٹنی ہوتی ہے۔ ابھی مئی کا مہینہ چڑھا نہیں ہوتا کہ بچوں اور بیگم کی سیرو تفریح اور شاپنگ کی پلاننگ شروع ہو جاتی ہے۔بیوی کی خواہش ہوتی ہے کہ چھٹیاں یا تو مری میں یا شمالی علاقہ جات میں گزاری جائیں یا پھر نانکوں کے ہاں گزاری جائیں، جب کہ باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ چھٹیاں تو دادکوں میں گزاری جائیں یا پھر خرچہ سے بچنے کے لیے صرف گھر میں ہی گزاری جائیں۔ مگر میاں بیچارہ اس کوشش میں کم ہی کامیاب ہوتا ہے، کیونکہ بچوں اور بیگم کی خواہش کے عین مطابق قرعہ فال شمالی علاقہ جات یا مری کے نام نکل چکا ہوتاہے اور میاں کا یہ جان کر تراہ نکل چکا ہوتا ہے۔ آخری کوشش کے طور پر میاں بیچارہ ولا دینے کی بھر پور کوشش کرتا ہے کہ چلو نانکیاں دے چلو جاﺅ، پھر وہاں سے ماموں جان دے نال مری چلے جانا، مگر بھائی کی جیب کٹتے دیکھ کر بیگم اس پلان کو فورا ریجکٹ کر دیتی ہیں اور آرڈر جاری ہوئے کہ پہلے ناک کی سیدھ میں سیدھے مری جا ئیں گے پھر اماں کے گھر۔

میاں کے سر اور جیب پر ہل چلنے میں چھٹیوں سے کچھ پہلے کافی تیزی آ جاتی ہے ، جب بیگم کی طرف سے بچے جموروں کے وزٹ پروگرام کی اشیائِہ ضروریہ کی لسٹ پیش کی جاتی ہے۔ جن میں نئے کپڑے، جوتے ، نیکر ، بنیان، جرابیں، لاسٹک ، پمپرز۔۔۔۔ سے لیکر ازار بند تک شامل ہوتے ہیں۔ اگر قصد نانکوں کے ہاں جانے کا ہوتو اسمیں بہت سے دوسرے لوازمات بھی شامل ہو جاتے ہیں ، مثلا بیگم کے بہن بھائیوں، بھا نجے، بھانجیوں کے کپڑے لتے اور چوڑیاں، پونیاں وغیرہ وغیرہ تا کہ اسکی موٹی پھڈی ناک کٹنے سے محفوظ رہے ۔ بہر حال فائنل قصد چونکہ پہلے اس بار مری اور شمالی علاقہ جات کا ہوتا ہے لہٰذا وہاں تک جانے کا مسئلہ کہ کیسے جایا جائے۔ بیگم اپنی عرضداشت میاں کو پہلے ہی گوش گزار کرچکی تھیں کہ عام بس میں انہیں الٹیاں لگتی ہیں، اے سی کوچ میں دم گھٹتا ہے، کار کے لمبے سفر میں چکر آتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میاں نے تنگ آکر کہا کہ بیگم پھر آپکے کے لیے چنگ چی رکشہ یا گھوڑا لے آتا ہوں اس پر بیٹھ کر چلی جانا، مگر جواب میں کچھ نازیبا الفاظ ہی سننے کو ملے۔ (شادی شدہ حضرات بہتر جانتے ہیں)۔ خیر جناب بیگم سے مک مکا ٹرین کے اے سی پارلر پر ہوا۔

بحسبِ خواہشِ بیگم صاحبہ، میاں صاحب یعنی شوہرِ نامدار اپنے شہر کے ا سٹیشن پر گئے انہیں عرضی پیش کی کہ صاحب ہمیں اے سی یا لوور اے سی میں میں سفر کرناہے، بحکم بیگم جان کہ موصوفہ عام کلاس میں سفر نہیں کر سکتیں ، چند سیٹیں عنایت فر مادیجیے۔ بکنگ والے صاحب نے میاں صاحب کو حیرت سے سر تا پاﺅں یوں دیکھا جیسے کہ بغیر کپڑوں کے چلے گئے ہوں اور پھر مزید حیرت میں ڈالا کہ جناب اس کلاس کی بوگی ہماری مطلوبہ ٹرین میں ناپید ہے۔ دوبارہ عرضداشت پیش کی کہ جی عام سلیپر میں ہی سیٹیں دے دیں، پتہ چلا کہ جی یہ بکنگ بھی یہاں دستیاب نہیں ہے، اسکے لیے آپکو بڑے شہر جانا پڑیگا۔ میاں صاحب بڑے مایوس ہوئے کہ اب بیگم کو کیا جواب دیں گے۔ خیر چاروناچار گھر لوٹے اور کسی طرح بیگم کو اکانومی کلاس کی سیٹ اور برتھ پر گزارہ کرنے پر راضی کر ہی لیا اور دل ہی دل میں خوش کہ کچھ پیسے بھی بچالیے۔

تو جناب ! مقررہ دن اور وقت پر اسٹیشن پہنچنے سے پہلے ریلوے انکوائری میں گاڑی کا ارائیوال ٹائم جاننے کے لیے بہت فون کیے، مگر حسب توقع جواب ندارد، بچے اور بیگم اس فکر میں کہ کہیں گاڑی نہ نکل جائے اور جلد جانے کے لیے بے چین ۔ اسٹیشن پہنچے تو پتہ چلا کہ ہماری مطلوبہ گاڑی آج صرف ایک گھنٹہ لیٹ ہے۔ لو جناب ایک گھنٹہ لیٹ گاڑی آ گئی۔ ہر بندہ گاڑی پر ایسے ٹوٹ پڑا جیسے چیل گوشت پر۔ جیسے تیسے میاں صاحب بھی دھکم پیل کر تے بمعہ اہل و عیال و سامان ایک ڈبہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ اپنی بک شدہ سیٹ اور برتھ پر پہنچے تو ان سیٹوں اور برتھ پر پہلے سے کچھ غیر متعلقہ افراد کا قبضہ تھا۔میاں صاحب نے ڈرتے ڈرتے پہلے بیگم اور بچوں کی طرف دیکھا ، آستینیں چڑھائیں پھران غیر متعلقہ افراد کو بڑھک لگائی کہ سیٹیں خالی کریں، مگر انہوں نے سنی ان سنی کردی۔ بیگم کو بہت غصہ آیا اور حسب عادت گھر کی طرح نہایت گرجدار آواز میں انہیں اٹھنے کا حکم دیا تو بیگم کی دڑکی کام آگئی، سیٹیں خالی تو ہو گئیں مگر اس شرط پر کہ انکی ایک عدد مریضہ کو فلاں جگہ تک سا تھ بٹھایا جائیگا۔ خیر انسانی ھمدردی کے ناطے، جو کہ میاں میں (بیگم میں نہیں) کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، مان گئے۔ جب میاں صاحب نے اوپر اپنی برتھ پر نظر ڈالی تو وہاں پر بھی دو عدد خواتین فراش تھیں اور انہوں نے بھی برتھ خالی کرنے سے ایسے صاف انکار کر دیا ، جیسے سیاستدان کرسی چھوڑنے سے کرتے ہیں ۔ اب حالت یہ تھی کہ میاں صاحب چار سیٹیں بک کرانے کے باوجود بھی سیٹوں کے درمیان کھڑے تھے اور دوسرے لوگ سیٹوں پر برا جمان تھے۔ خیر کچھ تگ و دو کے بعد میاں صاحب اپنی سیٹیں اور برتھیں لینے میں کامیاب ہو ہی گئے ۔ کچھ دیر بعد واش روم کی حاجت ہوئی، وہاں گئے تو پتہ چلا کہ پانی والا ٹینکر خراب ہونے کی بنا پر پانی نہیں آیا۔ دوسرے واش روم گئے تو وہاں سرے سے ٹونٹی ہی نہ تھی۔ مجبورا میاں صاحب کو ٹیشو پیپر پر گزارہ کرنا پڑا۔ خیر جناب! جیسے تیسے پندرہ گھنٹے سفر کرنے کے بعدبچے کبھی گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا تو کبھی پانی پلانے پہ جھگڑا کے مصداق اور سیا ستدانوں کے لڑائی جھگڑے کی طرح شیشے والی سائیڈ پر بیٹھنے کے چکر میں اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے، اور اترتے ہی واپسی کی کمپیوٹرائزڈ بکنگ بھی کرالی۔ پھر پنڈی سے مری تک کا سفر بھی ویگن وغیرہ سے افورڈ نہیں کیا کہ جی رات بھر سفر کے بعد اب کہاں ویگنوں اور بسوں کے دھکے کھاتے پھریں، سب کی یہی خواہش کہ بس جلد ازجلد منزل مقصود یعنی مری پہنچا جائے۔ جس کے لیے ظاہر ہے کہ اسٹیشن سے پھر سپیشل کار ۔ چار و نا چار۔

مری پہنچ کر بیگم کی طرف سے پھر ارجنٹ آرڈر جاری ہو ئے کہ کسی اچھے سے کم چڑھائی والے ہوٹل میں قیام و طعام کا اہتمام ہونا چاہیے، تاکہ انہیں اور بچوں کو چڑھنے اترنے میں آسانی رہے اور پاﺅں کی موچ سے بھی محفوظ رہا جا سکے۔ یوں بیگم کے مذکورہ خیالات سے میاں کے کسی سستے سے ہوٹل میں رہنے کا خواب چکنا چور ہو گیا اور ساتھ یہ حکم بھی جار ی ہوا کہ بچوں کے لیے کمرے میں ایکسٹرا گدے کے بجائے ایکسٹرا بیڈ لگوایا جائے، کہ بچے فرش پر نہیں سوئیں گے، کہ کہیں کان یا ناک میں مری کے مشھورومعروف کھٹمل نہ گھس جائیں۔ مری میں اچھا اور سستا کمرہ ڈھونڈنا بھی ایسا ہی ہے جیسے الیکشن کے بعد سیاستدانوں کو ڈھونڈنا۔ بہرحال ! دو گھنٹوں کی محنتِ شاقہ ، تگ و دو اور مختلف ہوٹلوں میں اترائی چڑھائی کے بعد بلآخر بیگم کی پسند اور میاں کی ناپسند کا ایک کمرہ پسند آ ہی گیا کیونکہ اسکا کرایہ بہت زیادہ تھا ۔ کمرے میں پہنچتے ہی بچوں نے ایسے نعرہ مستانہ بلند کیا جیسے دیبل کا قلعہ فتح کر لیا ہو ۔ شور شرابا سن کر ہوٹل کی انتظامیہ دوڑی دوڑی آئی کہ شاید کمرے میں سے کوئی بچھو ، سانپ یا کو ئی اور ممنوعہ شے تو بر آمد نہیں ہو گئے۔ خیر میاں صاحب نے بڑی مشکل سے ہوٹل والوں کو سمجھا بجھا کر واپس کیا۔

کچھ آرام کرنے کے بعد بچوں اور بیگم کی طرف سے کچھ کھسر پھسر کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں اور معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ کھانے کے لیے ہوٹل سلیکٹ کیے جارہے ہیں کہ صبح، دوپہر، شام کہاں ہو گا طعام ۔ تو جناب! ابتدا کے ایف سی کے ایک مہنگے ترین کھانے سے ہوئی۔ میاں نے لاکھ کوشش کی کہ کسی ہلکے پھلکے ہوٹل میں ایک دو پلیٹ میں گزارہ ھو جائے، مگربیگم اور بچوں نے میاں کی یہ کوشش ایسے ہی ناکام بنادی جیسے حکومت دہشت گردی کی ہر کوشش ناکام بناتی ہے ۔ بہر حال! جب تلک مری میں اسٹے رہا بیگم اور بچوں کی فرمائش پر، میاں صاحب کی جیب پر گراں گزرنے کے باوجود کے ایف سی، پزا ھٹ، اور ریڈ اونیون، وائٹ اونین اور دیگر مہنگے ترین ہوٹلوں میں کھانا معمول کے مطابق جاری رہا اور ہیپا ٹائٹس کے خوف سے پینے کے لیے بیگم کی فرمائش کے عین مطابق عام پانی کی جگہ منرل واٹر کا بے دریغ استعمال ہوا۔ بلکہ بعض جگہ پر تو پانی ناپید ہونے کی بنا پر بچوں کے منہ ہاتھ اور پوٹی بھی بیگم نے منرل واٹر سے دھوئے اور میاں صاحب یہ سب دیکھ کر آنسو پونچھتے رہے۔

مری کی سیر کے دوران بچہ گاڑی ہائیر کرنا بھی ایک فیشن ہے، کیونکہ بچے تو بچے، بڑے بھی اکثر او نچے نیچے راستوں پرچل چل کر تھک جاتے ہیں اور ان بچہ گاڑیوں پر سیر کرتے نظر آتے ہیں۔ مری میں بچہ گود میں اٹھا کر گھنٹوں چلنا بھی ایک بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ یوں پھر چھوٹے والے سمپل یعنی بچے کے لیے بچہ گاڑی کا یہ ناجائز خرچہ بھی میاں کو ہی برداشت کرنا پڑ تا ہے۔ بیگمات اپنے گھر میں سارا دن بچے کو سنبھال لیں گی، مگر گھر سے نکلتے ہی یہ کام میاں صاحب کو سونپ دیا جاتا ہے کہ اپنے کپڑوں کی استری اور چہرے کا میک اپ خراب نہ ہو ۔ بلکہ بعض جگہوں پر تو بیگمات بھی اس سواری سے خوب لطف اندوز ہو تی ہیں اور کئی جگہ پر تو یہ بچہ گاڑیاں لحیم شحیم بیگمات کو اٹھانے سے انکاری ہو کر پنکچر ہو جاتی ہیں۔ مری جا کر مال روڑ پر ساری رات یونہی گھومنا پھرنا اور مٹر گشت کرنا بھی ایک فیشن ہے۔ اپنے گھر میں بعد نمازِ عشاءسو جانے والے بھی تہجد تک مال روڑ پر آنکھ مٹکا کر تے نظر آتے ہیں۔ اسکے علاوہ جتنی دیر آپ وہاں رہیں گے تو وہاں موجود مختلف قسم کے لوازمات مثلا آئس کریم، چپس، چاٹ، چنے، چائے، کافی وغیرہ کی ڈیمانڈ بھی وقتا فوقتا آتی رہے گی اور میاں بیچارے کی جیب پر چھری چلتی رہیگی ۔ بقول بیگم کہ یہ دن کونسا روز روز آتے ہیں۔ لہذا پیٹ میں گنجائش ہو کہ نہ ہو کھانا سب کچھ ہوتا ہے بیشک موشن ہی لگ جائیں۔ ارے ہاں موشن پر یاد آیا کہ مری میں تو ایک بار لیٹرین جانے کے بھی دس روپے لیتے ہیں اور یوں سینکڑوں روپیہ تو لیٹرین کی نظر ہو جاتا ہے کہ بچے اِدھر کھاتے ہیں ادھر ہگتے ہیں۔ یوں میاں کی جیب کا خوب کباڑا کرایا جاتا ہے۔

مری جائیں اور دیگر آلے دوالے کے صحت افزا مقامات کی سیر نہ کی جائے تو یہ نا ممکن سی بات نظر آتی ہے۔ میاں کی کوشش ہو تی ہے کہ یہ سفر کسی عام سی گاڑی میں کر لیا جائے تاکہ پیسوں کی کچھ بچت ہو جائے تا ہم میاں کی یہ کوشش بھی ایسے ہی ناکام ہوتی ہے جیسے کہ مادھوری اور مرحوم ایف ایم حسین شادی میں ناکام رہے اور حکم صادر ہو تا ہے کہ جی سارا دن کے لیے سپیشل کار بک کرائی جائے اور ایوبیہ ، نتھیا گلی، نیلم پوائنٹ، پتریاٹہ، اسوزو پارک، خانس پور اور دیگر مقامات مقدسہ کی زیارات کرائی جائیں جو کہ ظاہر ہے ایک دن میں نہیں ہو تیں اور چار روز تلک روزانہ سپیشل کار، چاہے جہاں بھی گئے میرے یار ۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق میاں کو یہ کڑو ی ڈبل کو نین بھی بغیر پانی کے ایسے نگلنی پڑتی ہے جیسے عوام کو ہر ماہ نہ چاہتے ہوئے بھی مہنگائی نگلنی پڑتی ہے ۔ اسکے علاوہ چیئر لفٹ اور کیبل کار، کے اخراجات علیحدہ ہو ئے۔ ا سوزو پارک میں تو ایک بار بچے اور بیگم گھسے تو ایسے پھیلے کہ نکلنے کا نام نہ لیں، بندر کی طرح ایک جھولا چھوڑاتو دوسرے پر ، دوسرے سے تیسرے پر اور تیسرے سے چوتھے پر، اور تو اور بیگم بھی جھو لے لینے میں پیش پیش رہیں۔ میاں نے لاکھ کہا کہ بیگم آپکی عمر اب جھولے جھولنے کی نہیں جھلانے کی ہے (پوتے پوتیوں کو) ، مگر بیگم سنی ان سنی کرتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر خود بھی بچہ بن گئی اور پچپن میں انہیں بچپن یاد آنے لگا۔

میاں صاحب نے لاکھ کوشش کی کہ مری کا یہ دورہ مختصر ہو کر چار پانچ دن پر محیط رہے کہ آگے بیگم کی اماں کے گھر بھی جانا ہے، مگر اہلخانہ نے دس دن سے پہلے ہلنے کا نام ہی نہیں لیا۔ چاروناچار میاں کو بھی بادل نخواستہ انکا ساتھ زبردستی د ینا پڑا ۔ پھر ایک روز بلآخر بیگم کو انکے ابا اور منے کے سر کی قسم دیکر بتایا کہ جیب اب واقعی خالی ہونے کو ہے لہذ ا جلد کوچ کی تیاری کر لو ورنہ تمہاری اماں کے ہاں نہ جا سکیں گے، تو تب جاکر بیگم کو یقین آیا وہ بھی اس شرط پر کہ جاتے جاتے مری سے اچھی سی شاپنگ ضرور کرا ئیں، یعنی بچوں کے کھلونے، بیگم کے نئے سوٹ ، سسرالیوں کے بائے نیم الگ الگ گفٹ ، مری کی سوغات کے طور پر ، وغیرہ وغیرہ ۔ اور ظاہر ہے مری سے شاپنگ کا مطلب ہے ہر چیز کے دگنے چگنے دام۔نتیجہ پھر وہی میاں کی جیب پر استرا۔

واپسی پر جب میاں صاحب بمہ اہل و عیال اسٹیشن پر اپنی کمپیوٹرائزڈ بکنگ والی سیٹوں پر پہنچے تو وہاں پر بھی ایک فیملی پہلے سے براجمان تھی ، اور حیرانگی اس بات پر تھی ان سیٹوں پر نمبرنگ تین بار کی گئی تھی۔ پہلے والے اصلی نمبر دوسرے والے کا لے مارکرسے اور تیسرے والے سفید چاک سے لکھے گئے تھے، اور ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ ِ،،چاک والے نمبر درست ہیں،،۔ اب میاں صاحب کبھی کمپیوٹرائزڈ بکنگ والے نمبروں کو دیکھیں اور کبھی چاک والے نمبروں کو،کہ پتہ نہیں کون سے درست تھے۔ لو جناب یہاں بھی سیٹوں کے پیچھے پھڈا شروع۔میاں صاحب کو جھگڑتا دیکھ کر ایک نیک بخت نے مشورہ دیا کہ آپ اس سلسے میں ٹرین کے ٹی ٹی سے رابطہ کریں۔ ٹی ٹی صاحب کو ڈھونڈا اور انہیں ا پنا مدعا بیان کیا تو بہت برھم ہوئے اور نہایت غصہ میں کہنے لگے کہ میں سیٹیں الاٹ کرنے والا ٹی ٹی نہیں بلکہ سامان والا ٹی ٹی ہوں۔ خیر صاحب سیٹوں والے ٹی ٹی صاحب کو بھی میاں صاحب نے ٹرین چلنے سے چند منٹ پہلے گاڑی کے انجن کے پاس جا ہی لیا۔ مدعا بیان کرنے پر انہوں نے بھی پہلے کچھ چی پاں کی، مگر بعد ازاں بغیر کچھ لیے دیے حیران کن طور پر سیٹوں کا مسئلہ بالآ خر حل کر ا ہی دیا۔

دوبارہ پندرہ گھنٹے کی ٹریول کے بعد سسرال پہنچے ( وہاں کا حال نہ ہی لکھا جائے تو بہتر ہے کہ بیگمات ناراض ہو جائیں گی)۔ کچھ روز سٹے کرنے کے بعد بیگم نے بمشکل گھر واپسی کا قصد کیا، اسٹیشن پہنچے ، رات گیارہ بجے کی ٹرین رات ایک بجے آئی، بچوں کا نیند سے برا حال، بیگم پریشان، ساتھ سسرالی بھی، کہ جلدی سے مطلوبہ گا ڑی آئے تو انہیں دھکا دیں، اور گھر جاکر آرام کریں۔خیر جناب! صبح کے چھ بجے ایک اور ٹرین چینج اور کے لیے ایک اسٹیشن پراترے ۔ ٹرین جانے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا، قلی صاحب سے بکنگ کے بارے میں پوچھا تو اس نے میاں صاحب کو سر تا پاﺅں ایسے دیکھا جیسے اس سے کو ئی الجبرا کا سوال پوچھ لیا گیا ہو۔ قلی صاحب نے فرمایا کی جناب اس ٹرین کی بکنگ نہیں ہوتی۔ ،، توانوں پتا نئیں جے ،، ، جہاں مرضی آئے قبضہ کر لیں، اور پوچھنے پر مزید بتایا کہ گاڑی پلیٹ فارم نمبر 2 سے روانہ ہوگی۔ میاں صاحب نے پلیٹ فارم نمبر 2 بہت تلاش کیا ، مگر وہ کہیں بھی نظر نہ آیا کہ شاید بہت چھوٹا تھا یا پھر میاں کی آنکھوں میں ککرے آگئے تھے۔ پھر ایک صاحب نے پوچھنے پر ایک جانب دور کا اشارہ کرکے بتایا کہ وووووووووووووووووہ رہا پلیٹ فارم نمبر 2، دراصل وہ پلیٹ فارم نہیں بلکہ گاڑیوں کا ایک شنٹنگ پوائنٹ تھا۔میاں صاحب نے جلدی جلدی چھوٹو کو گود میں اور بیگ بغل میں داب کر چلنے کو کوشش کی تو لڑکھڑا کر گرُپڑے اور چھوٹے میاں نیچے گرتے ہی دھاڑنے لگے ۔ بیگم نے اپنے بچے کا یہ حال دیکھا تو وہیں جلی کٹی صلواتیں سنادیں جسے ساتھ گزرنے والے سب لوگ سن سن کر انجوائے کر تے رہے۔ میاں صاحب دوبارہ جلدی سے کپڑے جھاڑ کر اٹھے ہی تھے کہ بیگم نے پھر آرڈر جاری کیے کہ اس بڑھاپے یہ آپکے بس کا کام نہیں کو ئی قلی کر لیں۔ لو جناب۱ قلی صاحب نے سو روپیہ لیکر منزلِ مقصود یعنی گاڑی تک پہنچایا اور تین سیٹوں کا قبضہ بھی دلوا دیا۔

گاڑی کیا تھی بس گاڑی کے نام پر ایک ٹوٹا پھوٹا ڈبہ تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی میاں صاحب کے پاﺅں کے نیچے سے واقعی زمین نکل کر نیچے دوسری زمین نظر آنے لگی، یعنی جہاں میاں صاحب کا پاﺅں دھرا تھا اسکے عین نیچے فرش میں ٹا کی لگاکر بوگی کے ٹوٹے فرش کو چھپانے کی ناکام سی کوشش کی گئی تھی۔ سوراخ اتنا بڑا تھا کہ باسانی گاڑی کے وہیل دیکھے اور گنے جا سکتے تھے۔ اس گاڑی میں ایک ایک بندے نے چار چار سیٹیں ملی ہوئی تھیں، اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا ابھی میاں صاحب گاڑی کے چلنے کی اناﺅنسمیٹ، یا گاڑی کے ہارن کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ حیرت انگیز طور پر گاڑی بلکل آن ٹائم چل پڑی وہ بھی بغیر کسی اناﺅنسمیٹ اور گاڑی کے ہارن کے او ر حیرت انگیز طور پر ہمیں آن ٹائم اپنی منزل مقصود پر بخیروعافیت پہنچا دیا۔جس کے لیے میاں صاحب ریلوے والوں کے بیحد مشکور ہوئے۔ تا ہم ایک شکایت کہ ہمارے ریلوے ڈیپارٹمنٹ نے چھوٹے اور پسماندہ علاقوں کے لوگوں کے لیے ایسی تھکڑ قسم کی گاڑیاں رکھی ہوئی ہیں کہ ان میں بندہ ایک بار سفر کرے تو تین دن تک بستر سے نہ اٹھے ا ور ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان علاقوں میں کوئی حیوان یا شودر انسان بستے ہیں جوکہ اچھی گاڑیوں اور اچھی کلا س میں سفر کرنے کے مستحق ہی نہیں ہیں ۔

اَٹ لاسٹ بیوی بچے خوش خوش اور میاں صاحب چپ چپ لٹے پٹے لوٹ کے بدھو گھر کو آئے تو میاں صاحب کی جیب میں ناشتے کے پیسے بھی نہ تھے۔ میاں صاحب سوچ میں پڑگئے کہ یار یہ گرمیوں کی چھٹیاں آخر ہمار اکباڑہ کرنے کو آتی ہی کیوں ہیں؟ کیا آپ کے ساتھ بھی کبھی ایسا ہوتا ہے؟
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247489 views self motivated, self made persons.. View More