الیکٹرانک میڈیا وہ جن ہے جسے
بوتل سے نکالنے کے بعد بوتل توڑ دی گئی ہے! اب یہ جن جائے تو جائے کہاں؟ جس
میں اِسے بند کیا جاسکے وہ بوتل کہاں سے لائی جائے؟ اور اگر بنانے کی بات آ
جائے تو اِتنی بڑی اور مضبوط بوتل بنائے کون؟ کس میں دم ہے کہ اِس جن پر
قابو پانے کا وظیفہ کرے، چلّہ کاٹے؟ پاکستان پانچ چھ سال سے حالتِ جنگ میں
ہے۔ یہ جنگ ٹی وی چینلز اور معاشرے کے درمیان ہے! جس طرح کوئی بدمست ہاتھی
اپنی موج میں بہتا اور راستے میں آنے والی ہر چیز کو روندتا چلا جاتا ہے
بالکل اُسی طرح چینلز بھی بہت کچھ روندتے ہوئے گزر رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے
آگے نکلنے کے دوڑ نے حواس، شعور، اقدار کا احساس و احترام سبھی کچھ تو چھین
لیا ہے۔
چینلز کو داد دینا پڑے گی کہ اُنہوں نے اقبال کے فرمان
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
کے مصداق اپنے لیے طرح طرح کے موضوعات خود پیدا کیے ہیں! شدید گرمی اور
شدید سردی کروڑوں سال سے پڑتی آئی ہے مگر اب یہ دونوں کیفیتیں چینلز کی
ہانڈی کا مَسالا ہیں! حالت یہ ہے کہ مُوسلا دھار بارش ہو رہی ہو تو کسی
چینل پر پانی میں ڈوبی ہوئی بستیاں اور بے گھر ہو جانے والے پریشان حال لوگ
دکھائی دیتے ہیں اور کسی دوسرے چینل پر کوئی مشہور شخصیت مزے لے لے کر بتا
رہی ہوتی ہے کہ کس طرح وہ اپنی جوانی کے دنوں میں بارش شروع ہوتے ہی پکوڑے
تلنے کی فکر میں ڈوب جاتی تھی! دیکھنے والے فیصلہ نہیں کر پاتے کہ موسم سے
محظوظ ہوں یا تباہی کا ماتم کریں!
کوریج کی دوڑ میں تمام چینلز ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کے لیے بے تاب رہتے
ہیں۔ رپورٹرز بھاگم بھاگ اسپاٹ پر پہنچتے ہیں۔ بیپر دینے کی ایسی فکر لاحق
ہوتی ہے کہ جو دو چار نکات کاغذ پر لکھ کر دیئے جاتے ہیں اُنہی کی بنیاد پر
پندرہ منٹ تک بولنا پڑتا ہے۔ اب ایسے میں کوئی کیا کیا بولے گا، اِس کا
اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں۔
کہیں کوئی دھماکہ ہو جائے تو پھر دیکھیے کہ بے پَر کی اُڑانے کا کیسا
مقابلہ شروع ہوتا ہے اور کتنی دور کی، کیسی کیسی کوڑیاں لائی جاتی ہیں!
ایسے موقع پر رپورٹر کے لیے جلد از جلد اسپاٹ یعنی جائے وقوع پر پہنچنا
لازم ہے اور وہاں پہنچنے کے بعد صرف ایک بنیادی اُصول اُسے یاد رکھنا ہے کہ
جو منہ میں آئے وہ بولنا ہے اور بولتے رہنا ہے! چینلز کی ٹیمیں کوریج کے
چکر میں اسپاٹ پر امدادی کارکنوں اور سیکورٹی اہلکاروں کا کچھ اِس قدر ناک
میں دم کر رہی ہوتی ہیں کہ ہلاک ہونے والوں کا بس نہیں چلتا کہ دوبارہ زندہ
ہوکر دست بستہ معافی مانگیں! لاشیں بے چاری کہیں جانے کی پوزیشن میں نہیں
ہوتیں اور کیمرے دیکھ کر منہ دِکھانے کے شوقین جمع ہوتے چلے جاتے ہیں!
اسپاٹ پر کھڑے ہوئے رپورٹر اور اسٹوڈیوز میں بیٹھے ہوئے اینکرز کے شاندار
”بَھنڈ“ ایونٹ کی ٹریجڈی کو بھی کلاسک کامیڈی میں تبدیل کردیتے ہیں!
رپورٹرز کی ”علمیت“ اور اینکرز کی مہارت مل کر وہی کیفیت پیدا کرتی ہیں جس
کے بارے میں احمد فراز نے کہا تھا
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں!
ایک ٹی وی اینکر نے خود کش حملے کے بعد اسپاٹ پر پہنچنے والے رپورٹر سے
پوچھا ”یہ بتائیے کہ خود کش حملہ آور ہیں یا چلے گئے؟“ گویا حملے کے بعد
اُنہیں چائے پانی کے لیے رُکنا تھا! بعض اینکرز کا تو بس نہیں چلتا کہ یہ
پوچھ لیں کہ دھماکے کے بعد لاشوں کے تاثرات کیا ہیں اور وہ کیسا محسوس کر
رہی ہیں! دھماکے میں شدید زخمی ہونے والے زندگی اور موت کی کشمش میں مبتلا
ہوتے ہیں اور یار لوگ کیمرے اور مائکروفون لیکر اُن کے سر پر سوار ہو جاتے
ہیں! اُن سے تاثرات معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو اِس دُنیا پر الوداعی
نظر ڈال رہے ہوتے ہیں! کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے بعد موقع سے لاشیں
اٹھانے کے لئے مختلف اداروں کی ایمبولینس سروس میں رَسّا کشی بھی اب ایونٹ
کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے!
دیکھنے والوں نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ کہیں کوئی قتل ہوگیا۔ میڈیا والے
پہنچے تو مرنے والے کے ماں باپ رونے لگے۔ چینل والوں کی طرف سے ارشاد ہوا
کہ ابھی نہ روئیں، کیمرہ ابھی ریڈی نہیں! اور معاملہ یہیں پر ختم نہیں
ہوتا، ہر چینل کی ٹیم پس ماندگان کو نئے سِرے سے رُلاتی ہے!
یقین کیجیے کہ سیاست دان بھی انسان ہوتے ہیں اور بیمار بھی پڑتے ہیں۔ مگر
اب یہ حال ہے کہ کوئی سیاست دان ذرا سا کھانس دے تو ٹی وی چینلز کو بیپر
لینے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے! کوئی مشہور شخصیت غسل خانے میں گر پڑے تو خبر
بن جاتی ہے! کوئی مشہور شخصیت کسی تقریب میں ذرا سی لڑکھڑا جائے تو اُس کے
ڈاکٹرز سے رابطہ کرکے کیس ہسٹری تک نکال لی جاتی ہے! اب تو بے چاری
سیلیبریٹیز سر عام سَر کھجانے سے بھی کتراتی ہیں کیونکہ چینلز والے خُشکی،
لیکھوں اور جُووؤں تک پہنچنے میں دیر نہیں لگاتے!
دنیا بھر میں طرح طرح کے خود رَو پودے پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ٹی وی چینلز پر
مفت دیئے جانے والے مشورے دنیا کے عجیب ترین خود رَو پودوں کی مانند ہیں۔
چینلز نے ایسے ماہرین تیار کئے ہیں جو دس پندرہ منٹ کی بحث میں کوزے میں
دریا، بلکہ سمندر کو اِس طرح بند کردیتے ہیں کہ بے چارے کے لیے سانس لینا
دشوار ہو جاتا ہے! جب یہ اسٹارٹ ہوتے ہیں تو کِس کی مجال ہے کہ اِنہیں mute
کرے! بپھرے ہوئے بیل کو سامنے آکر سینگوں سے پکڑنا شاید ممکن ہو، چینلز کے
پروردہ ماہرین کو لگام دینا ہما شُما کے بس کی بات نہیں! لوہے کو لوہا
کاٹتا ہے، بکواس کا علاج بکواس ہے۔ یعنی ماہر کا توڑ ماہر ہی کے ذریعے تلاش
کیا جاسکتا ہے! اِسی لیے چینلز پر روزانہ پرائم ٹائم میں ”مُرغوں“ کی لڑائی
کا ٹھیک ٹھاک اہتمام کیا جاتا ہے! لوگوں کا یہ حال ہے کہ چینلز سے ذہنی
خوراک لیتے نہیں تھکتے یعنی رات کو پرائم ٹائم میں ٹاک شو سے پیٹ بھرتے ہیں
اور صبح کے ناشتے میں کسی حسین چہرے کے ساتھ مارننگ شو لیتے ہیں! حد یہ ہے
کہ جو ورزش عشروں سے کرتے آئے ہیں اُسے کسی نازک اندام انسٹرکٹر سے دوبارہ
سیکھنے میں بھی کوئی ہرج محسوس نہیں کیا جاتا!
قومی سلامتی کے امور پر متعلقہ اداروں کے سربراہان بہت کچھ جانتے ہوں گے
مگر صاحب، بند کمرے میں اعلیٰ فوجی افسران جن اُمور پر بحث کر رہے ہوتے ہیں
اُن کے بارے میں چینلز پر بیٹھے ہوئے ماہرین جس طرح طرح فَرفَر بول رہے
ہوتے ہیں اُسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ قومی سلامتی کے اُمور میں اِن سے
مشاورت نہ کرنا محرومی کی دلیل ہے! اگر کسی لڑائی کا فیصلہ ٹی وی کے ٹاک
شوز پر منحصر ہو تو ہم کوئی جنگ ہار نہیں سکتے! جس طرح سُوپ کے ٹھیلے پر
مُرغیاں لٹکی ہوئی پگھل رہی ہوتی ہیں بالکل اُسی طرح ٹاک شو کے ٹھیلے پر
قوم کے قائدین کی خیریت دریافت کی جاتی ہے اور وہ بھی الزامات کی ٹکٹکی پر
اُلٹا لٹکاکر! اِن پروگراموں کو دیکھتے رہنے سے زبان ہی نہیں، مُنہ بھی بگڑ
جاتا ہے! ہمارا پُرخُلوص مشورہ ہے کہ جب تک چینلز کے جن کو بند کرنے کے لیے
بوتل بازیاب نہیں ہو جاتی یا تیار نہیں کرلی جاتی، بچوں کو اِن چینلز اور
بالخصوص ٹاک شوز کی پہنچ سے دور رکھیں! |