ظریفانہ: للن، کلن، جمن اور رمضان (قسط اول)

میر کلن علی خاں اور مرزا للن بیگ بچپن کے دوست تھے۔ ان دونوں کو مطالعہ کا بہت شوق تھا ۔ دین کی تبلیغ و اشاعت اور دیگر سماجی کاموں میں بھی وہ پیش پیش رہتے تھے اس لیےسماج میں ان کا بہت بڑا حلقۂ اثر تھا ۔ مسجد کے انتظامیہ میں بھی وہ دونوں سرگرم تھے۔
ایک روز کلنخاں نے للن بیگ سے کہا مرزا صاحب کل میرے ہاتھ ’’رمضان ایک عبادت ایک پیغام ‘‘ نامییہ کتاب لگی ۔ بھئی کیا کہنے! مزہ آگیا۔
یہ تو کوئی نیا موضوع نہیں ہے اس پر بہت ساری کتابیں دستیاب ہیں ۔للنبیگ نے جواب دیا
جی ہاں مجھے علم ہے اسی لیے تو یہ کتاب پسند آئی ۔ روایت سے ہٹ جدید اسلوب بیان، منفرد انداز اور مثالیں تو کیا کہنے بھئی بالکل بے مثال ۔
ایسی بات ہے تو ہمیں بھی تو اس کا کوئی اقتباس سنائیں ۔
کلن خان بولے ہاتھ کنگن کو آرسی کیا یہ لو سنو:
’’ارکان اسلام پر اصل محنت کرائے بغیر امت کونیکی کی راہوں پردوڑانے کاکام بے ثمر ہے۔ اس سے اسلام کی اصلی روح کی عکاسی نہ ہوسکے گی۔ مسلمان سے قرآنی شخصیت برآمد نہ ہوسکے گی۔ اس ترتیب اور تلازم کوسمجھ لینا بس دین کی سمجھ پانا ہے۔ مختصراً یہ کہ عبادت بذات خود ایک بے انتہا پرکیف عمل اور دل گیر حقیقت ہے اوراصل میں تو یہ بذات خود ہی مقصود اور مطلوب ہے مگراس سے انسان کے انفرادی اور معاشرتی کردار میں آپ سے آپ ایک تبدیلی کاآجانا بھی لازمی ہے۔
للن نے کہا یہ کیا آپ بیچ ہی میں رک گئے اور کوئی مثال بھی نہیں آئی ۔
کلن بولے میں نے سوچا آپ بور ہونے لگے ہوں گے اس لیے توقف کردیا ۔ ویسے مثال اب آیا ہی چاہتی تھی۔
تب تو آپ کا رکنا اور بھی غلط تھا ۔ یہ تو گویا آپ نے جام ہونٹوں سے لگا کر ہٹا دیا ۔
معذرت چاہتا ہوں لیجیے آگے سنیے:شادی کالغوی مطلب اگرچہ گھر بار اور اولاد نہیں مگر یہ سب کچھ اس کے ساتھ خود بخود آتا ہے۔ زوجین میں سے کوئی بانجھ نہ ہو تو اولاد لازماً شادی کاایک مقصد ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ کہ شادی بذات خود بھی ایک غیر معمولی لطف اور کشش رکھتی ہے اور ایسا بھی نہیں کہ اولاد کے سوا انسان شادی سے کوئی مقصد یا غرض نہ رکھتا ہو،یقینا ًمرد اور عورت کا ایک دوسرے سے راحت اور سکون پانا بجائے خود بھی مطلوب ہے۔ بس تقریبا یہی مثال ارکان اسلام کے ساتھ نیکی کے مظاہر کی ہے۔
بھئی بہت خوب ۔ اس مثال کو سن کر مجھے اپنی تیس سال پرانی شادی یاد آگئی اور مزہ آگیا ۔
ایسا ہے تو آگے چند سطریں سن کر منہ میٹھا کرلو : اسلام جس عبادت کاحکم دیتا ہے وہ رہبانیت کی طرح بانجھ نہیں جوانسان کی ذات میں اور اس کے گرد پھیلے معاشرے میں کوئی تبدیلی نہ لے آئے۔ عبادت تو ہے ہی شعور اور کردار میں تبدیلی لانے کے لئے۔ گو اس عبادت کا اپنالطف اور اس کا بجائے خود مطلوب ہونا اپنی جگہ برقرار ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ لوگو بندگی اختیار کرلو اپنے رب کی جو تمہارا بھی خالق ہے اورتم سے پہلوں کا بھی خالق ہے۔ کیا بعید کہ تمہیں تقویٰ نصیب ہوجائے‘‘۔ چنانچہ ہدایت سے انسان میں بندگی آتی ہے اور بندگی سے تقویٰ ۔ رمضان کا بھی بس یہی پیغام سمجھو!
بھائی کلن میاں قرآن حکیم کی یہ آیتو کئی بار نظر سے گزری مگر یہ انطباق دل خوش ہوگیا ۔ کمال لکھا ہے اس شخص نے، مصنف کا نام کیا ہے ؟
ایک نیا مصنف ہے حامد کمال الدین مگر جیسا کہ آپ نے کہا انداز بیانکمال کا ہے۔
للن بولےاب آپ ہمیں اس نعمت سے محروم نہیں رہ سکتے ۔ ہم اس کتاب کو اپنے ساتھ لے جائیں گےتاکہ اس کے لعل و گہر سے مستفید ہوسکیں ۔
کلن نے کہا لیکن ایک شرط ہے ہفتہ بھر کے اندر لوٹانا پڑے گا ۔
اوہو کتاب بھی کوئی لوٹاتا ہے؟ اور وہ بھی ایک ہفتے میں ! یہ تو سراسر زیادتی ہےْ
بھائی ایک ہفتے بعد نہ تو دینے والے یاد رہتا ہے کہ کس کو دیا تھا اور نہ لینے والا یاد کرپاتا ہے کہ کس سے لیا تھا اس لیے معاملہ جتنی جلد نمٹ جائے اچھا ہے
کتاب کو پڑھنے کے بعد للن میاں نےبھی تصنیف کو لاجواب مان لیا۔ اب انہیں سارےلوگوں تک اس کو پہنچا نے کی فکر لاحق ہوگئی ۔ اس لیے وہ کلن سے بولے یار میں تو کہتا ہوں اس کتاب کا ایک نسخہ جمعہ کی نماز کے بعد پر نمازی کو دے دیا جائے تاکہ سبھی لوگاستفادہ کریں ۔
للن میاں یہ خیال میرے ذہن میں بھی آیا تھا مگر اس کو میں نے جھٹک دیا ۔
وہ کیوں ؟ کیا کتاب کی بابت آپ کی رائے تبدیل ہوگئی ہے۔
جی نہیں بلکہ آپ کی تائید کے بعد اس کو تقویت ملی لیکن کتاب منگوانا اور بانٹنا جتنا آسان ہے پڑھنا پڑھانا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے ۔ ویسے بھی مطالعہ کا رحجان کم ہوتا جارہا ہے۔ لوگوں کوو اٹس ایپ اور فیس بک سے فرصت ملے تو کچھ پڑھیں ۔ رہی سہی کسر یو ٹیوب پوری کردیتا ہے۔
جی ہاں وہ تو ہے ۔ کیوں نہ ہم آئندہ جمعہ کو اس کتاب پر کسی سے تقریر کروا دیں؟ لوگ جمع تو ہو ہی جاتے ہیں اپنے آپ سن لیں گے ؟
یہ عمدہ تجویز ہے میں تو کہتا ہوں رمضان شروع ہوچکا ہے میوں نہ شب قدر کی بڑی مجلس میں اس پر خطاب ہو۔
یہ اچھا شب قدر میں عوام بڑی عقیدت سے رات بھر جاگتے ہیں۔ گہما گہمی رہتی ہے اس موقع پر آپ کتاب کا حاصلِ مطالعہ پیش کردیجیے۔
کلن نے گھبرا کر پوچھا میں؟ آپ میرا مذاق تو نہیں کررہے ہیں ۔ کم از کم اس مقدس مہینے کا تو خیال رکھیں۔
نہیں بھائی ایسی بات نہیں میں نے سوچا ’’رسمِ دنیا بھی ہے ، موقع بھی ہے ، دستور بھی ہے‘‘۔
بے موقع یہ مصرع جڑ کر آپ مجھے شرمندہ کررہے ہیں ۔ میں تو کہتا ہوں جمن پاشا کو کیوں نہ زحمت دی جائے ۔
اوہو کیا نام بتایا قسم سے مزہ آگیا ۔ ان پر تو غالب کا یہ مصرع ہو بہ ہو صادق آتا ہے کہ ’’یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب ‘‘۰۰۰۰۰۰
اب آگے نہ بولیں ورنہ پاشا صاحب ناراض ہوجائیں گے ۔ٹھیک ہے میں کل ہی ان کی خدمت میں یہ کتاب اور آپ کی گزارش پہنچا دیتا ہوں ۔
)۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450635 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.