شب قدرمیں مسجد کےاندر موجود حاضرینِ مجلس جمن پاشا کی
تقریر سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ انہوں نے فرمایا :
بھائیو! شہر کے ایک نادان بچے کی طرح جس نے کھیت اور باغات کبھی نہ دیکھے
ہوں، کسانوں اور باغبانوں کا پسینہ کبھی بہتا نہ دیکھا ہو تو وہ سمجھتا ہے
کہ سیب ریڑھیوں کولگتے ہیں اور آم دکانوں میں اگتے ہیں۔ بندگی کا یہ رشتہ
،خدا کی ممنونیت اور احسان مندی کا یہ احساس جس لمحہ دل سے محو ہوتا ہے تو
پوری زندگی ہمارے لیے ویسے ہی بے معنی اور لغو ہوکر رہ جاتی ہے۔ سب خوشیاں
اور راحتیں ویسی ہی بے مقصد اور بے قیمت ہوجاتی ہیں۔یہاں کے خوش نما پھل،
پر لطف ذائقے ، یہ سب رعنائیاں اور لطافتیں ہم کو ریڑھی کا کمال نظر آتا
ہے!!
یہ سن کر کلن نے للن سے سرگوشی کی یہ پاشا صاحب کہاں نکل گئے؟
للن نے ناگواری سے کہا بچوں کی طرح گڑ بڑ نہ کرو ۔ چپ چاپ سنو ۔
جمن پاشا کا پرجوش بیان جاری تھا : صاحبو! مالک کی بجائے اناج کی بندگی،
رازق سے بے اعتنائی پر رزق کی طمع ، نعمت کا پاس اور منعم کی بے وقعتی،یہ
دنیا میں ہمیشہ پست ہمتوں اور کم ظرفوں کاشیوہ رہاہے۔ یہاں گھٹیا انسانوں
کا یہ پرانا مذہب چلا آرہاہے۔ روزہ جو اصل معبود کےلئے اختیار ی بھوک رکھ
کر ہوتا ہے ، مالک کی خاطر پیاس سہہ کر رکھاجاتاہے، دراصل اسی کم ظرفی کے
مذہب کا انکار ہے۔ یہ روزہ کیا ہے؟
کلن سے پھر رہا نہیں گیا وہ بولے یہ پاشا صاحب جواب دینے کے بجائے سوالات
کیے جارہے ہیں ۔
للن نے کہا ان کو اپنا کام کرنے دو اور تم اپنا کام کرو یعنی خاموشی سے سنو
ورنہ گھر جاکر سو جاو ۔
جمن پاشا کا خطاب جاری تھا یہ روزہ کیا ہے؟اس بات کا اعلان کہ دنیا میں
خدائی روٹی کی نہیں، روٹی دینے والے اور پیدا کرنے والے کی ہے۔ جو کبھی نہ
بھی دے تب بھی خدائی اسی کی شان ہے۔ ہر حال میں اپنا اس سے ایک ہی رشتہ ہے۔
یہ بندگی اور سپاس کا رشتہ ہے۔ یہ منعم شناسی ہی دراصل خود شناسی ہے۔
بھائیو اس رشتے کو جانے بغیر منعم کو پہچانے بغیر کھاتے چلے جانا، کہاں کی
انسانیت ہے!! اعلی ظرفی تو یہ ہے کہ کھانے سے زیادہ انسان کو کھلانے والے
کی قدر ہو اور کمینگی یہ ہے کہ آدمی کو بس صرف کھانے سے غرض ہو!
کلن نے کہا یہ کیا تقریر ہے للن ۔ نہ قرآن و حدیث اور نہ کوئی اچھی سی
مثال؟ بھئی مزہ نہیں آہا ہے۔
للن بولے بھائی دھیرج رکھو اتنے بے چین کیوں ہو ۔ یہ تو ابتدائے عشق ہے آپ
ابھی سے رونے لگے ۔ آگے تو دیکھیے کہ کیا آتا ہے؟
للن اور کلن کی کھسر پسر سے بے نیاز جمن میاں بولے جارہے تھے : انسان کے
کھانے اور چارے کا فرق بس اسی ہدایت کے دم قدم سے تو ہے!! دنیا کے طبیب اور
ڈاکٹر تو آپ کو کھانے اور چار ے کا فرق صرف غذائیت کے اعتبارسے ہی بتا سکیں
گے۔ وہ تو آپ کو کیلوریوں اور ویٹامینوں کی گنتی کرنا ہی سکھا سکیں گے، مگر
انسانوں کی طرح کھانا، کسی سوچے سمجھے مقصد کےلئے کھانا بلکہ کسی اعلی مقصد
کےلئے کبھی نہ بھی کھانا، پھر کھانے اور نہ کھانے، ہر دوصورت میں بندگی کا
اقرار اور اعتراف کرنا، بلکہ نہ کھانے کی صورت میں شکم سیروں سے کہیں بڑھ
کر اس کی حمد وتسبیح کرنا، بھوکا اور پیاسا رہ کر اپنی بندگی اوراس کی
کبریائی کا اور بھی شدت سے اعتراف کرنا تو بندہ صرف محمد ﷺ سے ہی سیکھ سکتا
ہے، انسان اور حیوان کا یہ فرق آپ کو سورہ محمد ہی سے معلوم ہوسکتا ہے۔
’’خالق سے کفر کرنے والے بس کھاتے ہیں، چند روزہ زندگی کی موج کرنے میں لگے
ہیں، یوں کھاتے ہیں جیسے جانور ،اور آگ ان کا گھر بننے کےلئے ان کے(انتظار
میں )ہے‘‘۔
اس پر مغز اور دلنشین بیان کے بعد مصافحہ کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔
کئی لوگوں نے ان سے معانقہ بھی کیا مگر کلن میاں پریشان ہوگئے انہوں نے
مرزاللن سےشکایت کی دیکھا آپ نے جمن بھائی نے تو سب چوپٹ کردیا۔
کیوں ! اتنے لاجواب بیان کے بارے میں آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ؟للن میاں
نے تردید کی ۔
تقریر تو بے شک اچھی تھی لیکن اس میں کتاب کا کچھ بھی نہیں تھا ۔
جی ہاں لیکن اس کے لیے تو انہوں نے پہلے ہی معذرت چاہ لی تھی کہ پڑھنے کا
موقع نہیں ملا ۔ اس کے باوجود جو باتیں انہوں نے پیش کیں وہ بہت معقول اور
اثر آفرین تھیں ۔ میں تو سمجھتا ہوں ہمارا مقصد حاصل ہوگیا۔
کیا خاک مقصد حاصل ہوا۔ اس بیان کی غرض و غایت جس کتاب کو لوگوں تک پہنچانا
تھا ، وہ تو حاصل ہی نہیں ہوا۔
اچھا تو کتاب کی غرض و غایت کیا تھی؟ للن میاں نے سوال کیا۔
کتاب کے اغراض و مقاصد تو مولف نے یہ بیا ن کیے ہیں کہ اس سے مطلوب قرآن و
حدیث کی روشنی میں رمضان و روزے کی حقیقت بیان کرنا ہے ۔
اچھا یہ بتاو کہ یہ مطلوب و مقصود حاصل ہوا یا نہیں ؟
وہ تو ہوا مگر ۰۰۰۰۰کتاب ۰۰۰۰۰میرا مطلب آپ سمجھے نا ؟
جی ہاں لیکن اگر کتاب کا مقصد حاصل ہوگیا تو کیا یہ کافی نہیں ہے ؟ ایسے یا
ویسے کیا فرق پڑتا ہے بلکہ میں تو سوچتا ہوں اچھا ہی ہوا ۔
کلن نے پوچھا ، کیا اچھا ہوا میں نہیں سمجھا ؟
یہی کہ جمن پاشا کو پڑھنے وقت نہیں ملا ۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں للن صاحب ، خود جمن پاشا نے تقریر کی ابتداء میں اس
پر افسوس کا اظہار کیا کہ مذکورہ کتاب کو پڑھنے کے لیے وقت نہیں نکال سکے
اور آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ اچھا ہوا ؟
جی ہاں میں نے بھی ان کے بیان میں وہ اعتراف سنا اور انہوں نے یہ بھی کہا
کہ پہلی فرصت میں وہ اس کو پڑھیں گے ۔
اس کے باوجود آپ یہ کہہ رہے ہیں ؟
للن نے کہاجی ہاں وہ ان کا مسئلہ ہے لیکن میں اپنے نکتۂ نظر سے یہ بات کہہ
رہا ہوں ۔
اچھا ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ آپ کا کیا نظریہ کیا ہے؟
بھئی دیکھو اگر وہ کتاب کو پڑھ لیتے تو وہی سب بتاتے جو ہم نے کتاب میں پڑھ
رکھا تھا ۔ہماری معلومات میں بھلا کیا اضافہ ہوتا؟
یہ بات تودرست ہے لیکن پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ ہمارےمحلے کے سارے لوگ اس
کتاب کو پڑھیں ۔
تو اس میں کیا مشکل ہے کل جمعتہ الوداع آپ وہ کتاب منگوا کر تقسیم کردیں ۔
لیکن آپ نے تو کہا تھا کہ لوگ مطالعہ نہیں کرتے ؟واٹس ایپ اور یو ٹیوب پر
لگے رہتے ہیں۔
جی ہاں اس کا علاج یہ ہے کہ وہ کتاب آپ اپنی آواز میں ریکارڈ کرکے پی ڈی
ایف کے ساتھ واٹس ایپ،فیس بک اور یوٹیوب پر ڈال دیں ۔
اس سے کیا ہوگا؟
یہی کہ جس کو پڑھنا ہے پڑھ لے گا اور جو نہیں پڑھے گا کم از کم سن لےگا۔
میری آواز کیوں ؟ جمن پاشا کی گرجدار آواز کیوں نہیں؟
ٹھیک ہے ان سے پڑھوا لینا لیکن یہ کام کسی پیشہ ور ماہر کی نگرانی میں
اسٹوڈیو کے اندر کرنا تاکہ سامعین اس کو صاف صاف سن سکیں ۔
کلن نے اندیشہ ظاہر کیا لیکن جمن کو برا تو نہیں لگے گا۔ وہ خود اتنے اچھے
خطیب ہیں اور ہم کسی اور کی کتاب ان سے پڑھوا رہے ہیں؟
اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے؟ جمن پاشا کے بیان کی بھی تو ویڈیو ہمارے
پاس موجود ہی ہے ۔ پہلے اس کو سماجی رابطوں مثلاً واٹس ایپ اور یوٹیوب پر
پھیلا دیتے ہیں ۔ اس کے بعد کتاب کی ریکارڈنگ کروا لیتے ہیں ۔ ایک کے ساتھ
ایک فری والی اسکیم سمجھ لو ۔
کلن نے خوش ہوکر کہا یہ اچھا ہے مگر ایک کیوں دونوں مفت ہی ہیں ۔
للن بولے اسی لیے مفت کی چیز نے اپنی اہمیت گنوادی ہے ۔
لیکن کیا کریں ؟ مفت خوری کے اس دور میں جب سب مفت میں مل رہا ہے تو اس بیش
قیمت چیز کی کیا قدروقیمت طے کریں؟
للن نے کہا جی ہاں اور ویسے اس سال یہ ویڈیو آپ کی جانب سے دوست و احباب
کی خدمت میں عید کا بہترین تحفہ ثابت ہوگا ۔
جی ہاں تب تو میں اس کی قیمت بھی نہیں لے سکتا اس لیے کہ ایسا کرنے سے
سارااجر وثواب کافور ہوجائے گا ۔
بہت خوب عید کے اس یادگار تحفہ کے لیے میری جانب سے پیشگی شکریہ اور
مبارکباد قبول فرمائیں۔
|