جس طرح ساتویں بچے کی پیدائش پر
ہمارے ہمسائے کو خیال آیا کہ آٹھواں بچہ موٹر سائیکل پر نہیں پھنس سکے گا
اسی طرح ایک دن موٹر سائیکل چلاتے چلاتے حسن عباسی کو احساس ہوا کہ اگلی
شاعرہ کی آمد پر بہت جلد اسے ٹینکی سے ہینڈل پر آنا پڑے گا سو دونوں نے
گاڑی خرید لی ۔مشاعروں میں حسن عباسی کو دیکھ کر اختر ریاض الدین کی ہوائی
والی گاڑی یاد آجاتی ہے ، ہمارے دوست ”ب“ المعروف شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ
حسن عباسی پارٹ ٹائم پبلشر ہے جبکہ فل ٹائم شاعرات ”ڈھونے“ کا کام کرتا ہے
۔وہ شاعرات جنہیں اکیلے، رات کو غیر مردوں کے ساتھ مشاعروں میں آنے کی
اجازت نہیں ملتی انہیں لانے کا کام حسن عباسی انجام دیتا ہے معلوم نہیں
کیوں ان کے گھر والے اسے ”مرد“ نہیں سمجھتے ۔حسن عباسی کو پانی، مسجد ،
کتاب اور لڑکیوں سے محبت ہے کہتا ہے پہلی تین چیزیں نہ ہوں تب بھی کام چلا
لوں گا ۔کہتا ہے میں نے اپنے پہلے شعرسمندر کی ریت پر لکھے تھے میں نے
پوچھا پھر کیا ہوا؟ تو کہنے لگا جس کے لیے لکھے تھے اسی نے گھر شکایت لگا
دی کہ حسن ریت کھاتا ہے ۔ اردو بازار کے پرانے لوگوں کا کہنا ہے کہ حسن
عباسی نے بہت محنت کی ہے شاہ صاحب کا کہنا ہے واقعی بہت محنت اسی لیے اس کے
سر پر نئے بال اگ آئے ۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا
ہے کہ یہ جتنا مشہور لاہور میں ہے اس سے کہیں زیادہ پشاور اور دبئی میں ہے
۔ شکل و صورت کچھ ایسی ہے کہ ایک مرتبہ دبئی مشاعرہ پڑھنے گیا تو شیخ
صاحبان نے غزل سے پہلے ہی واہ واہ شروع کر دی۔اس کی غزل ” تیری مشکل نہ
بڑھاﺅں گا ،چلا جاﺅں گا“ کافی مشہور ہوئی لیکن مشاعرے میں سنانے سے پرہیز
کرتا ہے کیونکہ جیسے ہی پہلا مصرعہ پڑھتا ہے منچلے ” چلے جاﺅ، چلے جاﺅ“
آواز لگا دیتے ہیں ۔ہر بات شاعرانہ انداز میں کرتا ہے ، یہاں تک کہ کوئی
بیوی بچوں کا پوچھے تو کہتا ہے
”ایک بیوی تین بچے ہیں
، عشق جھوٹا لوگ سچے ہیں “
وزن کی خرابی کے ڈر سے ابھی تک تین ہی بچے ہیں ۔۔۔
حسن عباسی سب سے بنا کر رکھتا ہے اسی لیے ہمیں شک ہے کہ وہ زن مرید ہے جبکہ
شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ وہ رن مرید ہے کیونکہ زن عموما ایک اور زیادہ سے
زیادہ چار ہوتی ہیں ۔اس کی ہر تحریر میں پھول ، بادل ، اور لڑکی ضرور ہوتی
ہے ۔ کسی کا تعزیت نامہ لکھے تو اس میں بھی کوئی خوبصورت لڑکی ضرور ڈال دے
گا جیسے لڑکی نہ ہوئی کوئی پکا پکایا پھل ہو گیا ۔اگر کسی چیز کا بار بار
ذکر کرنے پر انسان میں وہی خصوصیات آ جاتیں تو حسن عباسی آج دنیا کی سب سے
خوبصورت لڑکی ہوتا ۔
اس کا کہنا ہے کہ لڑکیاں اس کی شاعری پر مرتی ہیں ، یہ الگ بات کہ اس پر
مرنے والی لڑکیاں بھی شادی کسی اور سے ہی کرتی ہیں ۔ ادبی تقریبات میں
عموماََ سب سے پیچھے والی لائن میں بیٹھتا ہے کہتا ہے وہاں بیٹھ کر آگے
والوں کی چغلیاں کرنے میں جو مزا ہے وہ اور کسی کام میں نہیں ۔سب کو ایک
آنکھ سے دیکھنے کا قائل ہے البتہ لڑکیوں کو دونوں آنکھیں کھول کر دیکھتا ہے
۔حسن عباسی نے سفر نامے لکھنے کا آغاز کیا تو معلوم ہوا اس کے ہاں بھی
مستنصر حسین تاڑر والا معاملہ ہے ۔یعنی جہاں جاتا ہے لڑکیاں اس کے آگے
پیچھے منڈلاتی پھرتی ہیں کبھی ہم تاڑر صاحب کے سفر نامے پڑھ کر سوچا کرتے
تھے کہ بیرون ملک سفر کے دوران ان کے آگے پیچھے پھرنے والی لڑکیاں کیا
اندھی تھیں ؟ اب یہی حسن عباسی کے بارے میں سوچتے تھے لیکن ایک دن ان میں
سے ایک لڑکی کی تصویر دیکھ لی تو حسن کی بات پر یقین آگیا کیونکہ وہ لڑکی
اس سے بھی زیادہ کالی تھی۔
حسن عباسی پاکستان سے باہر ہونے والے عالمی مشاعروں میں ضرور جاتا ہے کہتا
ہے وہاں لڑکیاں مجھے چھیڑتی ہیں تو اچھا لگتا ہے ،۔ اس کی قسمت ایسی ہے کہ
بیرون ملک کسی حسینہ کو غزل سنانے لگے تو پاس سے کوئی کالا آ جاتا ہے جبکہ
پاکستان میں ایسی جرات کرے تو اس کا اپنا سالا آ جاتا ہے ۔ اصولوں کا اتنا
پابند ہے کہ آوارہ گردی بھی ٹائم ٹیبل کے مطابق کرتا ہے ، آوارہ گردی کرنے
نکلے تو بھی اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کہاں کہاں جانا ہے ۔ اس کی خواہش
ہے کہ کسی طرح گٹار بجانا سیکھ لے ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا گٹار ایک
ایسا ساز ہے جو کسی لڑکی کو سکھانا ہو تو پہلے اسے گود میں بٹھانا پڑتا ہے
ہم نے پوچھا پھر سیکھا کیوں نہیں تو معصومیت سے کہنے لگا : ”سیکھنے تو گیا
تھا لیکن وہاں اصلی خان صاحب بیٹھے سیکھا رہے تھے “۔
حسن عباسی کو لکھنے پڑھنے کا بہت شوق ہے شاید اسی لیے جسے عشقیہ خط لکھے اس
کی گالیاںبھی شوق سے پڑھ لیتا ہے۔ حسن سے جب بھی ملیں اس کی گفتگو میں
لڑکیوں کا ذکرضرور ہوتا گا یہاں تک کہ لڑکیوں سے بھی لڑکیوں کی باتیں کر
لیتا ہے ۔شاہ صاحب کہتے ہیں کہ اس کی زندگی میں لڑکیوں کی وہی اہمیت ہے جو
کھانے میں نمک کی ، لیکن ہمیں شاہ صاحب کی بات سے سخت اختلاف ہے کیونکہ
کھانے میں نمک ضروری، ضرور ہوتا ہے لیکن کم کم بھی ہوتا ہے ۔ اسے شاعرات
وہی اچھی لگتی ہیں جو ”بے وزن“ ہوں کہتا ہے ”وزن“ میں خود پیدا کر لوں گا
۔اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حسن عباسی کا شمار ان شاعروں میں کیا جاتا
ہے جنہیں اوزان کا علم ہے اور وہ بے وزن شاعری کو باآسانی وزن میں کرنے
پرقادر نظر آتے ہیں ۔ حسن عباسی بہت اچھا دوست اور مخلص انسان ہے ، آج کے
دور میں ایسے لوگ بہت کم ملتے ہیں جو مخلص بھی ہوں اور ادبی انداز میں
گفتگو کرنے پر بھی قادر ہوں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ اسے ڈھیروں خوشیاں عطا
فرمائے ۔شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ اس کے معاشقوں کو دیکھ کر بھی یہی لگتا ہے
کہ اسے ہر سال کم از کم تین چار خوشیاں تو ضرور ملتی ہوں گی لیکن یہ بدنامی
کے ڈر سے چھپا لیتا ہے ۔ |