داعی اور فدائی

وہ حسین ؑکے مستعدومخلص " خادم" جبکہ ان کے نانا حضرت محمدرسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کے جانثار" غلام "اورحسینیت ؑ کے ساتھ ساتھ اقبالیات کے علمبردار تھے۔ خادم حسین رضوی ؒ کی نمازجنازہ کاروح پرور منظر دیکھنے کے بعدبھی" مٹی" پرچلنے پھرنے والے "مٹھی "بھرلوگ اگر تحریک لبیک پاکستان کے نظریات ، اثرات اورثمرات کونہ سمجھیں وہ کنداذہان ، مورکھ اورمردہ ضمیر ہیں۔حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ "وفا" نے خادم حسین رضویؒ کو"باصفا "بنادیا۔میں سمجھتا ہوں جس طرح ہم یورپ میں پاکستانیوں کو"پاکی "کہنا برداشت نہیں کرتے اس طرح شیخ رشید سمیت اہل سیاست اوراہل صحافت سے وابستہ چند افراد کاتحریک لبیک پاکستان کو "ٹی ایل پی" کے نام سے پکارنابھی انتہائی نامناسب ہے۔ خادم حسین رضوی ؒ کی دونوں ٹانگوں نے ان کاساتھ چھوڑدیاتھا لیکن پھر بھی ناموس رسالت کی حفاظت کیلئے ہر پل ان کے عزم واستقلال اور" تجدید عہد"نے انہیں اپنے "عہد" کے علماء سے قدآوراورانہیں قابل قدربنادیا،اب سات ہزارافضل قادری ایک خادم حسین رضوی ؒ مرحوم کامتبادل نہیں ہوسکتے ۔ پاکستان کے زندہ "مخدوم" عوام کے اس قدرپسندیدہ نہیں جس قدر"خادم" حسین رضویؒ آج ہمارے درمیان نہ ہوتے ہوئے بھی پاکستانیوں میں مقبول اوران کے محبوب ہیں ۔خادم حسین رضوی ؒ کاانتقال ہوگیا لیکن ان کی قبر زندہ ہے،اس طرح عشاق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم غازی علم دین شہیدؒ اورغازی ممتازقادری شہید ؒ کی قبوربھی پرنوراورزندہ ہیں،یہ نیت،نسبت ،قسمت اورہمت کی بات ہے ۔یادرکھیں اﷲ رب العزت اوراس کے محبوب حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے" قرب" کیلئے "کرب" سے گزرنا پڑتا ہے ۔ حضرت محمد اقبال ؒ نے دونوں جہانوں میں عفت ،عافیت ،کامیابی وکامرانی،راحت وشادمانی کی راہ بتاتے اور اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کیا خوب فرمایا تھا
کی محمدؐ سے وفاتونے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

جوحضرت محمدرسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کاوفادارنہیں وہ باوقار اورباکردارنہیں ہوسکتا۔عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں" فنا "اورناموس رسالت پر"فدا"ہونیوالے امرہوجاتے ہیں۔یقینا جو معبود کے محبوب کی محبت سے اپنے قلب کوسیراب اورتاجدارانبیاء کے ساتھ وفانہیں کرے گا زندگی بھر قدم قدم پربیوفائی،تنہائی ،رسوائی اورپسپائی اس کامقدربنے گی۔ پھردنیا کی کوئی طاقت اسے فنا ہونے سے نہیں روک سکتی ۔سرورکونین حضرت محمدرسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم سے نسبت اورمحبت کیلئے خوشی خوشی دنیا چھوڑی جاسکتی ہے لیکن کوئی سچا مسلمان حقیر ترین دنیا کیلئے سراپا رحمت حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کادامن ہرگزنہیں چھوڑسکتا۔اگرترازومیں ایک طرف حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ والہانہ عقیدت ومحبت جبکہ دوسری طرف دنیا بھر سے منفعت بخش تجارت کے ساتھ ساتھ تخت وتاج کورکھ دیاجائے توپھر بھی عقیدت ومحبت کاپلڑا بھاری ہوگا۔ حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کے ساتھ مسلمانوں کی بے پایاں محبت سودوزیاں سے بے نیاز ہے۔ حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کی تقدیس کے مقابلے میں خبیث فرانس اور یورپ تودرکناراس عارضی دنیا میں کسی ریاست کی کوئی وقعت اوراہمیت نہیں۔مسلمانوں سمیت دنیا جہاں کے کافروں ،زمین کے اوپر،سمندروں اورپتھروں کے اندرموجودمخلوقات کورزق ہماراقادروکارسازاﷲ رب العزت دے رہا ہے ،اس کے ہوتے ہوئے دس ہزارفرانس اورپچاس ہزاریورپ ہم پاکستانیوں کو بھوکاپیاسانہیں مارسکتے ۔ حضرت محمد اقبال ؒ کے فلسفہ خودداری کوہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا،انہوں نے یقینا کپتان عمران خان سمیت پاکستان کے سابقہ وزرائے اعظم کیلئے کہا تھا
اے طائرلاہوتی،اْس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو، پرواز میں کوتاہی

ناموس رسالت ؐ اور اسلامی رفعت کی قیمت پرفرانس یایورپ کے ساتھ ہزاروں بلین کی تجارت ہرگز منفعت بخش نہیں بلکہ بحیثیت قوم اس میں بدترین خسارہ اور کباڑہ ہے ۔اگر آج ہم فرانس اوریورپ کے ساتھ محض تجارت کیلئے ناموس رسالت پرناپاک حملے خاموشی سے برداشت کرتے رہیں تو ہم موت کے بعد مرقداورمحشر میں اﷲ رب العزت اور حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کاسامنا کس طرح کریں گے۔ہمارے وہ احباب جوفرماتے ہیں حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم دونوں جہانوں کیلئے سراپارحمت ہیں توان کی خدمت میں عرض ہے ظاہری حیات میں آپ ؐ کااخلاص اورجذبہ ایثار آپ ؐ کے شایان شان تھاجبکہ ان کے جانثار غلاموں یعنی ہم مسلمانوں کا مزاحمتی ری ایکشن ایک غلام اورچوکیدار کی حیثیت سے اپنے اپنے فرض منصبی کی بجاآوری کیلئے ناگزیر ہے۔جس طرح کسی عدالت کو اپنی توہین برداشت نہیں ،کوئی فرزند اپنے ماں باپ کیخلاف ہرزہ سرائی پرخاموش نہیں رہتا توپھر عاشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم ہونے کے "داعی"سچے " فدائی" کیوں نہیں ہوسکتے ۔

عمران خان کوجہاں کئی طرح کے زعم ہیں وہاں انہیں لگتا ہے وہ ایک سیاسی مدبر اورزبردست مقرر بھی ہیں جبکہ ان کایہ زعم مسلسل انہیں اورعوام کوگہرے زخم دے رہا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کپتان کے ہاں تدبرکاکوئی تصور نہیں ہے۔ایک روز عمران خان اورورلڈ کرکٹ کپ کی کامیابی میں شریک پلیئرزکسی نجی ٹی وی کے پروگرام میں شریک تھے اورفائنل مقابلے کی یادیں تازہ کررہے تھے اس دوران عمران خان نے کہا میں نے ورلڈکپ کی کامیابی کے بعدجو تقریر کی وہ زیادہ اچھی نہیں تھی لیکن اگرمیں اب کی طرح تقریرکرتا تو کمال ہوجاتا،مجھے کپتان کی خوش فہمی پربہت ترس آیاکیونکہ میں انہیں مقرر نہیں سمجھتا ۔میں توایک بات جانتا ہوں کپتان کی طرح زیادہ باتیں کرنیوالے زیادہ غلطیاں کرتے بلکہ انہیں بار باردہراتے ہیں ۔وزیراعظم عمران خان کاقوم سے حالیہ خطاب بصیرت ،حکمت اورحمیت سے عاری تھا ۔وہ سعدحسین رضوی کوگرفتار،تحریک جوانان پاکستان کے پرعزم چیئرمین عبداﷲ گل کودہشت گردی ایکٹ کے تحت بوگس ایف آئی آرمیں نامزد، تحریک لبیک کیخلاف کریک ڈاؤن اورطاقت استعمال جبکہ لاہورسمیت پنجاب پولیس کااستحصال کرنے کاکوئی معقول جوازپیش کرنے میں ناکام رہے۔انہوں نے حکومت کی بدنیتی اور بدانتظامی کے نتیجہ میں قیمتی جانوں کے ضیاع پرندامت یاافسوس کااظہار تک نہیں کیا ۔حکومت کا تحریک لبیک پرپابندی کااقدام درست نہیں لہٰذاء یہ عنقریب بحال ہوجائے گی ۔

قادروکارساز اﷲ رب العزت کے حکم پرسرورکونین اورسراپا رحمت حضرت محمدرسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم پوری استقامت کے ساتھ بت پرستی کرنیوالے افرادکو دین فطرت اسلام کی دعوت دے رہے تھے جس پرمشتعل اورمضطرب کافر" زور" کے بل پرآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو رو کنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکامی کے بعد "زروجواہر" سمیت دوسری مراعات کی پیشکش کی مگراس بار بھی ناکام رہے توآپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کوان کے چاچاجان یعنی حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے والد سے کہلوایا گیاجس پرصادق وامین حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم نے فرمایا اگر مشرک میری ایک ہتھیلی پر چاند اوردوسری ہتھیلی پرسورج رکھ دیں توبھی میں معبودبرحق کی دعوت دینے سے باز نہیں آؤں گا۔ظہوراسلام کے بعد حضرت بلال رضی اﷲ عنہ سمیت متعدد صحابیٰ پر کافروں نے ظلم وستم کی انتہا کردی انہیں بھوکا پیاسا رکھا گیا لیکن وہ دین کیلئے دنیا کواپنے پائے حقارت سے ٹھکراتے رہے ۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ کاایک خوب صورت قول ہمارے حکمرانوں سمیت ہم وطنوں کیلئے غورطلب ہے،" کوشش کروتم دنیا میں رہو ،دنیا تم میں نہ رہے کیونکہ کشتی جب تک پانی میں رہے توخوب تیرتی ہے لیکن جب پانی کشتی میں آجائے تو وہ ڈوب جاتی ہے ۔حضرت سلطان محمودغزنوی ؒ نے جس وقت ہندوستان میں کامیابی کاجھنڈاگاڑدیا توانہیں سومنات نامی مندرمیں ہندو پجاریوں نے وہاں ایک بڑا بت نہ توڑنے کی صورت میں زروجواہر کے تھال پیش کئے توسرفروش حضرت سلطان محمودغزنوی ؒ نے اپنے بھرپورجذبہ ایمانی کے ساتھ فرمایا ،ــــ"میں بت فروش نہیں بت شکن ہوں"اوراس کے بعداپنی تلوار کی ضرب کاری سے اس بت کوپاش پاش کردیا ۔سنا ہے اس بت کے ٹوٹ جانے سے زروجواہر کی صورت میں قیمتی مال غنیمت سلطان محمودغزنوی ؒ کے ہاتھ لگا،لہٰذاء جوقسمت میں ہے وہ ضرورملے گالیکن اس کاحلال اورجائزانداز سے ملنا از بس ضروری ہے۔حکمران یادرکھیں وہ فرانس یایورپ کے ساتھ سفارتی تعلقات اورتجارت بچاتے بچاتے اپنی اوراپنے پیاروں کی عاقبت بربادنہ کربیٹھیں۔ دانا لوگ دنیا میں" مال" نہیں "اعمال"اورٹوٹے ہوئے دل جوڑتے ہیں ۔"عشق "کی شاہراہ پرگامزن انتھک انسان دواوردو چار کی" مشق "نہیں کرتے کیونکہ ان کیلئے دنیا توایک سرائے ہے ۔پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ کیلئے بنایا گیا تھا لہٰذاء تجارت کیلئے اسلامی اقدار کامذاق اورانہیں تختہ مشق نہ بنایاجائے۔جومحسن انسانیت حضرت محمدرسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کادوست نہیں وہ ہمارابدترین دشمن ہے،ملعون فرانس کے ساتھ تجارت بچانے کیلئے ریاست کی سا لمیت کوداؤپرلگانااورقومی حمیت کوروندنا بدترین حماقت ہے ۔
 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90048 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.