خاتونِ اول سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللّہ تعالیٰ عنہا

تحریر: بیگم ناجیہ شعیب احمد(کراچی)
یہ ذکر ہے شریف النسل، اعلیٰ کردار رکھنے والی ایک عظیم خاتون کا جن کی مالداری، بلند کرداری اور حسن و شرافت نے تمام قریشِ مکہ کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ ہر شخص ان سے نکاح کرنے کا شدید خواہشمند تھا۔ لیکن مشیت ایزدی سے ان کا ساتھ محبوب خدا ﷺ کے لیے مخصوص و منتخب کیا جا چکا تھا۔
آپ کا نام خدیجہ‘لقب طاہرہ اور کنیت اُمِ ہند تھی۔ آپ قبیلہ قریش کی ایک معزز شاخ بنی اسد سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپ کے والد کا نام خویلد بن اسد اور والدہ کا نام فاطمہ بنت زاہد تھا۔ آپؓ کے والد عرب کے مشہور تاجر تھے اور ان کے گھر میں دولت کی ریل پیل تھی۔ آپؓ کی ذات مبارک عفت و حیاء‘امانت‘ ایفائے عہد‘ سخاوت‘ غریب پروری اور فراخ دلی جیسی اعلیٰ صفات اور خوبیوں کا منبع تھی۔ آپؓ واقع? فیل سے ۵۱ سال قبل بمطابق ۵۵۵ عیسوی اس دنیا میں تشریف لائیں۔ حضرت خدیجہؓ کی پہلی شادی ابو ہالہ تمیمی کے ساتھ ہوئی اور ان سے دو بیٹے پیدا ہوئے: ہالہ اور ہند۔ ابو ہالہ کے انتقال کے بعد آپؓ کی دوسری شادی عتیق بن عاید مخزومی سے ہوئی اور ان سے ایک بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام بھی ہند تھا۔ کچھ عرصے بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا تو آپؓ نے شادی کا خیال دل سے نکال دیا۔ دو مرتبہ بیوگی کا دکھ اٹھانے اور باپ کے مشفق سائے سے بھی محروم ہونے کے بعد خدیجہ بنت خویلد کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا، ذریع? معاش چونکہ تجارت تھا۔ جس کا کوئی نگران و پاسبان نہ تھا۔ البتہ اپنے اعزہ کو مالِ تجارت دے کر بھیجا کرتی تھیں۔

حضرت خدیجہؓ ظاہری حسن و جمال اور کافی سرمایہ و مالی امکانات اور بہتر اجتماعی حیثیت کی مالک ہونے کے باوجود کبھی اس زمانہ کے معاشرہ کے بظاہر پرکشش حالات کے دھوکہ میں نہیں آئیں اور نہ ہی انسانی فضائل و صفات کا دامن چھوڑا-

حضرت خدیجہؓ اپنا سامانِ تجارت اُجرتِ مقررہ پر دیا کرتی تھیں اور اُنہیں اس مقصد کے لیے امانت دار اور شریف النفس شخص کی تلاش تھی۔ یہ وہ دور تھا جب حضرت محمدﷺ بن عبداﷲ پورے عرب میں’’صادق اور امین‘‘ کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ رسول اللّٰہﷺ کی حسن معاملات، راست بازی، صدق و دیانت اور پاکیزہ اخلاقی کا چرچا مکہ میں عام تھا۔

ایک مرتبہ ابوطالب نے اپنے بھتیجے محمدﷺ بن عبداللّٰہ سے کہا کہ: ''تم کو خدیجہ سے جا کر ملنا چاہیے ان کا مال شام جائے گا مشورہ ہے کہ تم بھی ساتھ چلے جاؤ۔ میرے پاس مال زر نہیں ورنہ میں خود تمہارے لیے سرمایہ کا انتظام کر دیتا۔''

حضرت خدیجہؓ کو اس گفتگو کی خبر ملی تو فوراً پیغام بھیجا کہ ''آپﷺ میرا مال تجارت لے کر شام جائیں، جو معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں آپﷺ کو اس کا مضاعف دوں گی۔'' محمدﷺ نے قبول فرما لیا اور مالِ تجارت لے کر میسرہ (غلام خدیجہ) کے ہمراہ بصرٰی تشریف لے گئے، اس سال کا نفع سال ہائے گزشتہ کے نفع سے مضاعف تھا۔

شام کے اس تجارتی سفر میں حضرت خدیجہؓ کا غلام میسرہ بھی آپﷺ کے ساتھ تھا۔ راستے میں راہب والا واقعہ پیش آیا کہ جس نے آپﷺ کو دیکھتے کہا: ’’بلاشبہ یہ نبی ہیں اور آخری نبی‘‘۔ پھر حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ نے خود بھی نبی اکرمﷺ کے حوالے سے چند حیرت انگیز عادت واقعات دیکھے‘مثلاً اس نے دیکھا کہ دھوپ میں بادل کا ایک ٹکڑا مسلسل آپﷺ پر سایہ کیے ہوئے ہے۔

سفر سے واپسی پر میسرہ نے سفر کی ساری روداد حضرت خدیجہؓ کے گوش گزار کی اور آپﷺ کی صداقت اور امانت کا بھی ذکر کیا۔ اس سے حضرت خدیجہؓ کے دل میں آپﷺ سے نکاح کی خواہش پیدا ہوگئی۔
شرافت اور حسن اخلاق و کردار کے پیکر نے حضرت خدیجہؓ کے دل میں ایسے گھر کر لیا کہ انھوں نے اپنی سہیلی نفیسہ کے ذریعہ نکاح کا پیغام بھیجا جو کہ محمدﷺ بن عبداﷲ اور ابوطالب نے بسر و چشم قبول کیا۔ یوں نکاحِ مقدس منعقد ہوا اور خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا حرم نبوت کی زینت بن کر اُم المؤمنین کے اعزاز سے دونوں عالم میں ممتاز ہوئیں۔ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محمدﷺ نے جب فرضِ نبوت ادا کرنا چاہا تو فضائے عالم سے ایک آواز بھی آپﷺ کی تائید و حمایت میں نہ اٹھی، تمام جزیرۃ العرب آپﷺ کی صدا پر تھا، لیکن اس عالمگیر سناٹے میں صرف ایک آواز تھی جو فضائے مکہ میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی، یہ آواز حضرت خدیجہ طاہرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے قلب مبارک سے اٹھی تھی، جو اس ظلمت کدہ کفر و ضلالت میں نورِ الہی کا دوسرا تجلی گاہ تھا۔ وہ اسلام کے متعلق مُحَمَّد ﷺ کی سچی مشیرکار تھیں۔

حضرت خدیجہؓ سے نکاح کے بعد آپﷺ اُن کے ساتھ اُن کے گھر پر ہی رہنے لگے۔ آپؓ ایک خدمت گزار اور وفا شعار بیوی ثابت ہوئیں۔ آپؓ نے اپنے شریک حیاتﷺ کی ساری ضرورتوں اور آرام کا خاص خیال رکھا اور یہی نہیں آپؓ نے اپنا سارا مال و دولت نبی کریم ﷺ کے حوالے کر دیا۔ حضرت خدیجہؓ جب تک زندہ رہیں آپؓ نے کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کیا جو آپﷺ کو ناگوار گزرا ہو یا آپﷺ کی مرضی کے خلاف ہو۔ آپﷺ جب غار حرا میں تشریف لے جاتے آپﷺ کے لیے خود کھانا لے کر جاتیں، حالاں کہ غار حرا مکہ کی آبادی سے دو تین میل کے فاصلے پر ہے اور اس کی چڑھائی بھی کافی مشکل ہے‘لیکن آپؓ نے یہ سب کام بخوشی کیے۔

تاجدارِ کائناتﷺ کی ملکہ جنہوں نے پچیس سال تک اپنے سرتاج مُحَمَّد رسول اﷲ ﷺ کے قلب و جاں پر راج کیا۔ بلکہ بعد از وصال آپﷺ کے دل میں بدستور مقیم رہیں۔ مکینِ جنت، غم گسارِ رسولﷺ، بہترین رفیق? حیات، دور اندیش، جانِ جاناں رسول اللّٰہﷺ کی چونسٹھ سالہ زندگی تمام خواتین اسلام کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ انہوں نے اپنے خاوند کا دل جیتنے کے لیے کیسے اپنی ہستی کو مٹا کر، اپنا سب کچھ اپنے محبوب شوہر کے قدموں میں نچھاور کر کے خاتونِ اوّل کا خطاب پایا۔ خدیجتہ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے سرتاجﷺ کی رفاقت میں پچیس برس تک حیات رہیں اور گیارہ رمضان سنہ دس نبوی (ہجرت سے تین سال قبل) انتقال فرما گئیں۔ بوقتِ انتقال ان کی عمر چونسٹھ سال چھ ماہ تھی، نمازِ جنازہ اس وقت تک مشروع نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے ان کے جسدِ مبارک کو اسی طرح دفن کر دیا گیا۔ مُحَمَّدﷺ خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غم گسار محبوبہ بیوی کو داعء اجل کے سپرد کیا۔

ام المومنین خدیجتہ الکبریٰ کی وفات کے بعد تاریخِ اسلام میں ایک سخت گیر دور کا آغاز ہوا۔ آپﷺ کو اُن کی جدائی کا حد درجہ افسوس اور دکھ تھا

اسی لیے آپﷺ اس سال کو عام الحزن (غم کا سال) فرمایا کرتے تھے۔ اس لیے کہ اس سال آپﷺ کی دو قابل قدر ہستیاں اس دنیا سے کوچ کرگئیں:ایک آپ ﷺ کے سرپرست چچا ابوطالب اور دوسری آپﷺ کی خدمت گزار اور وفاشعار بیوی حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا۔ جن کے اٹھ جانے کے بعد قریش کو کسی شخص کا کوئی لحاظ یا مروت باقی نہیں رہ گئی تھی اب وہ نہایت بے رحمی و بیباکی سے محمدﷺ کو کھل کر ستاتے تھے، اسی زمانہ میں آپﷺ اہل مکہ سے نا امید ہو کر طائف تشریف لے گئے تھے۔

تمام ازواج مطہرات میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو بڑی اوّلیت اور فضیلت حاصل ہے، جو نبی مکرمﷺ کی پہلی زوجہ اور اس اُمت کی پہلی ’’ماں‘‘ تھیں۔ ان کے بطنِ مبارک سے حضرت قاسمؓ‘حضرت زینبؓ‘حضرت رقیہؓ‘حضرت اُمّ کلثومؓ‘ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عبداﷲ (رضی اﷲ عنھم اجمعین) پیدا ہوئے۔ دونوں صاحب زادے بچپن میں ہی انتقال کر گئے مگر بیٹیاں حیات رہیں، جب کہ حضرت فاطمہؓ آپﷺ کی واحد اولاد ہیں، جو آپﷺ کی رحلت کے بعد کچھ عرصہ زندہ رہیں۔

دوسری طرف حضرت علیؓ،جو اس وقت بچے تھے‘کو بھی نبی کریمﷺ نے اپنے چچا ابوطالب کا مالی بوجھ کم کرنے کے لیے اپنی کفالت میں لے لیا۔ اب نبی کریمﷺ کی چار بیٹیاں‘حضرت علیؓ، حضرت زیدؓ اور پھر حضرت خدیجہؓ کے پہلے خاوند سے دو بیٹے آپؓ کی پرورش میں پلنے لگے۔ آپؓ نے ان کی سب بہت بہترین پرورش کی، جس کا ثبوت ملاحظہ کریں کہ حضرت علیؓ ’’علم کا باب‘‘کہلا کر فصاحت و بلاغت کے ماہر بنے۔ حضرت ہندؓ بھی فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ شاہ کار ہیں۔ نبی کریمﷺ کی بیٹیاں شرم و حیا کا پیکر اور صبر و استقامت کا پہاڑ ثابت ہوئیں۔ یہ سب حضرت خدیجہؓ کی پرورش اور تربیت کا نتیجہ ہے۔

اﷲ سبحانہ تعالیٰ ہمیں سیدہ خدیجتہؓ الکبریٰ کی سیرت طاہرہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ سرکار دو عالمﷺ کے دل میں ہمیشہ راج کرنے والی ناصرۃؓ النبی کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے۔ آمین
 

Rasheed Ahmad Naeem
About the Author: Rasheed Ahmad Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmad Naeem: 47 Articles with 46444 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.