ارشادِ ربانی ہے ’’ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن
نازل کیا گیا‘‘۔ اس مقدس مہینے دس گنا ثواب کی خاطرسبھی تلاوت کرنے لگتے
ہیں ۔ ایسے میں کسی مسلمان قیدی کا قرآن حکیم کے عدم فراہمی کی شکایت کرنا
قابلِ ذکر نہیں ہے لیکن کسی غیر مسلم کی جانب سے یہ مطالبہ حیرت انگیزہے۔
روس میں حزب اختلاف کے رہنما الیکسی ناوالنی نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر
لکھا ’’ وہ میرا قرآن نہیں دے رہے اور میں اس سے عاجز آ چکا ہوں۔‘‘ناوالنی
کا بھوک ہڑتال کے دوران شدید کمر اور ٹانگ میں درد کے باوجود قرآن مجید کی
خاطر سرکار کے خلاف مقدمہ کی دھمکی دینا ایک معجزہ نہیں تو کیا ہے ؟
ناوالنی نے اپنے پیغام میں اس یہ وجہ بتائی کہ:’’قید کے دوران قرآن کا
تفصیلی مطالعہ میرے کئی مقاصد میں سے ایک ہے تاکہ میں خود میں بہتری لا
سکوں۔‘‘دورانِ آزمائش قرآن مجید کو اپنی بہتری کا وسیلہ سمجھنا اس قرآنی
دعویٰ کی دلیل ہےکہ :’’یہ بصیرت کی روشنیاں سب کے لیے ہیں ۰۰۰۰‘‘
قرآن حکیم کے حسانت و صفات کا اعتراف الیکسی سے پہلےبھی ہوتا رہا ہے ۔
انیسویں صدی کے مشہور عیسائی اديب اور کئی عربی کتب کے مصنف ’’ناصف
يازجی‘‘نے اپنے بیٹے ابراہیم کو وصيّت كی تھی : اگر تم سائنس ، ادب اور
تخلق کیشعبوں مںم اپنے ساتھوکںپر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہو تو قرآن مجدك اور
نہج البلاغہ حفظ کرلو۔ اپنے والد کی نصیحت پر عامل حافظ قرآن ابراہیم کا
عرب کی علمی و ادبی اورلغوی ماہرین میں شمار ہوا۔ وہ مجلّہ «الضياء» کے
بانی بھی ہیں۔ عربی استاد سنايس کے مطابق قرآن کے قانون میں کسی طرح کے
باطل کا شائبہ نہیں پایا جاتا ۔وہ ہر زمان و مکان کےموافق ہے ۔ مسلمان
اگراس سے جڑ کرقرآنی تعلیمات و احکام کے مطابق عمل کرتے تو ماضی کی طرح
تمام قوموں پر برتری رکھتے۔علامہ اقبال نے یہی کہا :
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
ان عربی داں غیر مسلم دانشوروں کے علاوہ یوروپ اور مریکہ میں قرآن مجید کا
لوہا تسلیم کیا گیا ہے ۔ برطانوی استاد بوسور سميتھ کا کہنا ہے کہ :’’تاريخ
میں یہ موضوع يگانہ اور بے نظیر ہے كہ محمّدﷺ ایک ایسیكتاب لائے جو آيتِ
بلاغت، دستورِ شریعت اورعبادت و دين ہے‘‘۔فرانس کے ڈاكٹر گوسٹاولوبون
اعتراف کرتے ہیں کہ :’’ قرآن کی اخلاقی تعلیمات دراصل عالی آداب اور
اخلاقی بنیادوں کا خلاصہ ہیں اور یہ انجیل کے آداب سے کئی درجہ بلند
ہے.‘‘۔ ایک مسیحی دانشور کا یہ تبصرہ قرآن حکیم کی حقانیت کا بینّ ثبوت
ہے۔ ایسے بے شمار بیانات ہیں مثلاًريتورت کہتے ہیں: یہ اعتراف واجب ہے کہ
یورپ کے اندر دسویں صدی میں رائج ہونے والے طبیعی علوم،فلکیات،فلسفہ اور
ریاضیات قرآن سے اقتباس ہیں اور یورپ اسلام کا مقروض ہے۔جيبوس تو یہ
اعتراف کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے کہ عالمِ اسلام میں قرآن آئین اور عام
قانون کی بنیاد ہے۔ہر چیز کہ جس پر انسانی زندگی گردش کرتی ہے مثلاًدین و
دنیا، سیاست و اجتماع، جنگ و تجارت اور عدل و عدالت ،ان سب کی رہنمائی
قرآن کےقوانین میں فراہم کیگئی ہے۔
الیکسی ناوالنی کوئی ایسا دانشور نہیں ہے جو جیل کے وقت کا بہتر استعمال
کرکے اپنی کیں تصنیف کو مکمل کرلینا چاہتا ہو۔ وال اسٹریٹ جنرل نامی امریکی
جریدہ کے مطابق اس دلیر سیاسی رہنما سے روسی صدر پوتن سب سے زیادہ خائف ہیں
کیونکہ یوٹیوب پر اس کے ۶۰ لاکھ پیروکار ہیں ۔ پچھلے دس سالوں سے بدعنوانی
کے خلاف برسرِ پیکار ناوالنی کو صدارتی انتخاب سے دور رکھنے کے لیے تین
مرتبہ سزا سنائی گئی۔ پچھلے سال ان پر اعصابی زہر کا حملہ کیا گیا ۔ جرمنی
میں ۶ ماہ علاج کے بعدوہ اپنے وطن لوٹے تو عوام نے خیر مقدم کیا مگر سرکار
نے جیل بھیج دیا ۔ معالجین کے مطابق بھوک ہڑتال کے سبب نوالنی اب چند دنوں
کا مہمان ہے اس کے باوجود قرآن حکمپ سے یہ والہانہ عشق ساری دنیا کو بتا
رہا ہے کہ جس لیلتہ القدر میں قرآن حکیم کے نزول کا آغاز ہوا اس کی قدر و
منزلت ہزار راتوں سے افضل کیوں ہے؟ اس کا حقیقت اعتراف توخوب ہوتا ہے مگر
قرآنی تعلیمات پر عمل کم ہی ہوپاتا ہے۔
|