ناموس رسالت ؐ کا تحفظ اور اس کے لیے کٹ مرنامسلم امہ کے
ایمان کا حصہ ہے ،اس بارے کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں ۔اس حوالے سے بیرونی
ممالک میں بعض ناہنجار لوگ نعوذباﷲ ہمارے پیار ے بنیؐ کے خاکے بنا کر یا
مختلف دیگر طریقوں سے ’’توہین رسالتؐ‘‘کا ارتکاب کرتے ہیں ۔جس کے ردعمل میں
کم ازکم پاکستان کی حد تک احتجاج کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو
جاتا ہے ۔ملک بھر میں دھرنے اور روڈ بلاک کرنے کے ساتھ ساتھ بے گناہ پولیس
ملازمین حتیٰ کہ شہریوں پر تشدد بھی زور پکڑنے لگتا ہے ۔فرانس میں شائع
ہونے والے گستاخانہ خاکوں پرمسلم اُمہ کے شدید ردعمل کے جواب میں فرانسیسی
صدرایمانویل میکخواں Emmanuel Macronنے اُسے ’’انسانی بنیادی حقوق آزادی
رائے‘‘قرار دیا تھا۔یوں کسی کو کوئی سزا دلوانے کی بجائے مسلمانوں کے جذبات
مجروح کئے گئے ۔اس وجہ سے چند ماہ پیشتر تحریک لبیک کے پلیٹ فارم سے احتجاج
کا سلسلہ شروع ہوا تھاجس پر بالآخر حکومت اور تحریک کے قائدین کے مابین ایک
معاہدہ طے پایا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیے جانے کے مطالبہ کا حل
نکالا جائے گا۔اس مطالبے پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے گذشتہ دنوں ایک بار
پھر تحریک لبیک کی طرف سے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا گیا۔جس کے نتیجے میں
کشیدگی بڑھی اور فریقین میں جھڑپوں کا سلسلہ بھی دراز ہونے لگااور بعدازاں
فریقین میں ایک معاہدہ طے پایا جس کے نتیجے میں احتجاج ختم کر دیا گیا ہے ۔
بیشک سفیر بدری کا مطالبہ ان کی نظرمیں درست سہی ،لیکن المیہ یہ ہے کہ
ہماری سوچ و فکر یہ ہے کہ ہم اپنے مطالبے کے مابعد اثرات پر غور کرنے کی
زحمت گوارا نہیں کرتے ۔اصولی بات تو یہ ہے کہ فرانس ہو یا کوئی اور ملک۔۔
اگر کسی ایک فرد نے ’توہین رسالت ؐ ‘‘کا ارتکاب کیا ہے تو اس میں اس ملک کے
سربراہ یا اس ملک کے سفیر کاکیا قصور ہے۔؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا
توہین رسالتؐ کاا رتکاب کرنے والے کو فرانسیسی صدر کی آشیر باد حاصل تھی یا
فرانسیسی سفیر نے اُسے یہ ٹاسک دیا تھا کہ وہ یہ ناپاک حرکت کرے ۔یقیناً
ایسا نہیں ہے،پھر اس مطالبے کا کیا جواز بنتا ہے ۔؟جہاں ہم فرانسیسی سفیر
کی ملک بدری پر زور دے رہے ہیں وہاں ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ فرانس میں
ہمارے ہزاروں لوگ روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں تو کیا ان لوگوں کو بھی
بطور احتجاج اس ملک کا بائیکاٹ کرتے ہوئے واپس پاکستان آ جانا چاہئے ۔جس
ملک میں ہمارے نبی کرم ؐ کی شان میں گستاخی کی جاتی ہو ،وہاں کسی پاکستانی
یا مسلمان کو اس ملک میں رہنا یا رزق کمانا کس طرح گوارا ہو سکتا ہے ،ظاہر
ہے کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے ۔اگر فرانس اپنے سفیر کی ملک بدری کے ردعمل میں
پاکستانیوں کی ’’فرانس بدر ی‘‘ کا اعلان کر دے تو ایسے میں پاکستانیوں اور
ان کے خاندانوں کی کیا حالت ہو گی اس کا ادراک ہم نہیں کر سکتے اس لیے ہمیں
ایسا کوئی مطالبہ زیب نہیں دیتا ،جس پر عمل درآمد مشکل ہو۔
پاکستان کی آبادی 24کروڑ نفوس پر مشتمل ہے ۔یہاں نیک و بد ، مسلم و کافر ہر
رنگ و نسل کے لوگ رہتے ہیں ۔اگر اتنی بڑی آبادی میں کوئی ایک مسلمان یا
کافر ’’توہین‘‘ کا مرتکب ہوجائے تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ حکومت
استعفیٰ دے دے ۔یا کوئی وزیر مشیر اپنے عہدے سے الگ ہو جائے ۔ایسا ممکن
نہیں ہے ۔اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ ہم بحیثیت
مسلمان خودکس حد تک قرانی احکامات اور اپنے پیارے نبیؐ کی تعلیمات اور سیرت
و کردار کو اپنائے ہوئے ہیں ۔حدیث مبارکہ تو یہ ہے کہ’’ مسلمان وہ ہے کہ جس
کی زبان اور ہاتھ سے کسی دوسرے کو ایزا نہ پہنچے ‘‘۔ذرا ایک لمحے کو ہم
سوچیں کہ توہین رسالت ؐپر احتجاج کی تحریک کے دوران ہماری وجہ سے ہمارے
کتنے ہی بہن بھائیوں کو اذیت ناک صورت کا سامنا کرنا پڑا ۔کتنے مریض
ایمرجنسی کی صورت راستے بند ہونے کی وجہ ہسپتال تک نہ پہنچ سکے ،کتنے بچے
ایمولینسز میں پیدا ہوئے اور کتنے لوگ موت کے منہ میں چلے گئے ۔کتنے ہی
راستے بلاک ہونے کی وجہ سے ذہنی اذیت سے دوچار ہوئے یا گھروں میں مقید ہو
کر رہ گئے ۔ کتنے بے گناہ پولیس ملازمین اور عوام کو ان لوگوں کے ہاتھوں
ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔حکومت کے مطابق احتجاج کے دوران پولیس ملازمین
کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی شہید ہوئے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ احتجاج سے نظام
زندگی معطل ہو کر رہ جاتا ہے ۔لیکن ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہماری تحریک زور و
شور سے آگے بڑھتی ہے ۔اور ہمارا یہ عمل ہمارے پیارے نبی کریم صلیٰ اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کی نظر میں پسندیدہ قرار پائے گا اور آپؐ روز محشر ہمارے لیے جنت
کی سفارش فرمائیں گے ۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا ۔ہمیں حقوق اﷲ کے
ساتھ ساتھ حقوق العباد کا حساب دینا ہوگا اور کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی
۔
ہم مسلمانوں خاص طور سے پاکستانیوں کو ایک بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ
یہود ونصاریٰ ہمارے مزاج اور ہماری سوچ و فکر کو اچھی طرح پہچان گئے ہیں
۔ان کا ’’یک نکاتی ایجنڈا‘‘ہے کہ ہمارا ملک ترقی نہ کرے اور ہمارے لوگ کبھی
خوشحال زندگی کے قابل نہ بن سکیں ۔کیونکہ وہ اچھے سے جانتے ہیں کہ اگر
پاکستانی قوم کسی بھی تحقیق و جستجو میں لگ گئی تو وہ ایسے ایسے کام کر
گذرے گی کہ پوری دنیا پر ان کی حکومت ہو گی ۔اسی خوف کی وجہ سے وہ اپنی
سازش کو پروان چڑھانے کے لیے ہر چار چھ ماہ بعد کوئی نہ کوئی ایساگستاخانہ
کام کر جاتے ہیں کہ جس کی بنیاد پر ہم سارے کام کاج چھوڑکر سڑکوں پر آ جاتے
ہیں ۔اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر ظلم ڈھاتے ہیں ۔ملک کا پہیہ جام کردیتے ہیں
۔اس قسم کے احتجاج اور دھرنوں سے ہماری معیشت کو شدید دھچکا لگتا ہے ۔سٹاک
مارکیٹ کریش کر جاتی ہے ۔ڈالر کی پرواز بلند ہونے لگتی ہے اور ہم اس بات پر
خوش ہوتے ہیں کہ ’’ناموس رسالتؐ ‘‘ کے لیے ہماری تحریک ہماری بخشش کا ذریعہ
بنے گی ۔
ہم ناموس رسالت ؐ‘‘کے لیے اپنی تحریک میں انسانی و اخلاقی اقدار کو بھی
بھول جاتے ہیں ۔دھرنا دینے والے گروپوں کو یہ بات بھی نہیں بھولنا چائیں کہ
اوپن احتجاج میں شریک ہر فرد اپنا نہیں ہوتا۔کبھی کبھی مخالفین بھی اس قسم
کی تحریکوں میں شامل ہو کر خرابیاں پیدا کرنے لگتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ مرکزی
قائدین اپنے ہر کارکن سے مکمل طور پر آشنا نہیں ہوتے ۔ایسے میں کوئی بھی
غیر متعلقہ شخص یا اشخاص ان میں شامل ہوکر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کاسبب
بن سکتے ہیں ۔یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ’’توہین رسالت ؐ‘‘کا ارتکاب اگر
کوئی مسلمان کرے تو وہ واجب القتل ہے ،لیکن اگر کوئی کافر توہین کا مرتکب
ہو تو وہ ایسی کسی سزا کا مستحق نہیں ۔ہم کافر سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ
’’توہین رسالتؐ‘‘کا ارتکاب نہ کرے ۔جبکہ حقیقت تویہ ہے کہ کوئی کافرہمارے
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبے و مقام کو کیا جانے ۔یہ مقام و
مرتبہ صرف بحیثیت مسلمان ہم ہی جانتے ہیں ۔اس کے باوجود ہمارے درمیان ایسے
لوگ موجود ہیں جن کا کردار و عمل نبی کریم ؐ کی تعلیمات کے برعکس ہے
۔اورکسی کافر کی طرف سے’’ توہین رسالت ؐ ‘‘پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کی محبت میں اس قدر دیوانے ہوجاتے ہیں کہ اس کے ردعمل میں ’’توہین
انسانیت ‘‘میں تمام حدیں پار کر جاتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا
یہ سارا عمل ہمارے آقا سرکار دودجہاںؐ کی نظر میں پسندیدہ قرار پائے گا یا
نہیں ۔۔؟ موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سیر ت نبویؐ کی روشنی
میں خود کوڈھالیں ۔گو کہ ہم اپنے نبی کریم ؐکے شایان شان تو نہیں بن سکتے
لیکن آپ ؐ کی سیرت و کردار کی کچھ جھلک تو ہم میں نظر آنا چاہئے ۔کہ ہمیں
دیکھ کر کافر بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ جس نبیؐ کا امتی ایسا ہے وہ
نبی کریم ؐ کتنا عظیم ہوگا ۔یہی ایک بات ہمیں اپنی زندگی کاحصہ بنانا ہو گی
کہ ہماری زندگی ،ہمارا طرز عمل اسلامی تعلیمات اور سیرت مصطفےٰ ؐکے تابع
نظر آئے ۔جب ہم خود کو اس سانچے میں ڈھال لیں گے تو جہاں ہمارے لیے یہ دنیا
جنت بن جائے وہاں آخرت میں بھی جنت ہی ہمارا مقدر ہو گی ۔ورنہ دوزخ کی آگ
میں جلنے سے ہمیں کوئی ہستی نہیں بچا پائے گی ۔اور ہمارا یہ عمل کافر کو
بھی ہمارے آقاؐ کی عظمت وتکریم پر مجبور کر دے گا ۔یوں اﷲ اور نبی کریمؐ
بھی ہم سے راضی ہو ں گے ۔
|