تحریک ِ لبیک پاکستان سے ہونے والے معاہدہ کی روشنی میں جمہوری ملک کی
حیثیت سے فرانسیسی سفیر کو نکالنے کی قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کی جاچکی ہے
اس کا فیصلہ قرارداد کی منظوری کے بعد ہی کیا جائے گا یہ بات طے ہے کہ کسی
کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں انبیاء کرام اور
مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرے کیونکہ ناموس رسالت ﷺ پر مسلم امہ کو
مشترکہ موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ حرمت ِ رسول ﷺہمارے ایمان کا بنیادی جزو
ہے اس لئے مسلم امہ کو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ناپاک
سازش کو بے نقاب کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر مغربی ممالک کے
سامنے اس مسئلے کو اجتماعی طور پر اٹھانا ہوگا۔ اس لئے حکومت مذہبی ہم
آہنگی قائم رکھنے اور معاملات کو تدبراور حکمت ِ عملی سے حل کرنے کے لئے
اپنا بھرپور کردار ادا کرناہوگا۔ حکومت مسلم سربراہان مملکت اورعالمی
پارلیمنٹس کے اسپیکرز کو خطوط لکھیں تاکہ توہین رسالت ﷺ اور مسلمانوں کے
مذہبی جذبات کے خلاف اس مہم کو روکا جا سکے دنیا میں اسلامو فوبیہ کے بڑھتے
ہوئے عالمی رحجان کو روکنے کے لیے تمام مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع
ہونا ہوگا اور تمام عالمی فورم پراس حساس مسئلے کو اجاگر کرنے اور مستقل
بنیاد پر اس کا حل تلاش کیا جائے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام مکاتب فکر کے
علماء کرام کو ساتھ مشاورت بھی کرے اور اس سلسلہ میں کئے گئے اقدامات کے
لئے ان کو اعتماد میں لیا جائے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہناہے کہ ہر حکومت
عقل کے فیصلے جذبات سے کرتی آئی ہے پرویز مشرف دور میں لال مسجد اسلام آباد
، نواز شریف دور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اب موجودہ حکومت نے سانحہ لاہور
میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل کر ثابت کیا کہ یہ سب ایک ہی سکے کے دو
رخ ہیں اور پاکستانی حکمران اپنے شہریوں کو گولیاں مار کرلہولہان کرنے سے
گریزنہیں کرتی لیکن مغربی دنیاکو ناراض نہیں کرسکتی اس حوالے سے حکمرانوں
کا سب کا ایک ہی ایجنڈا ہے ۔ کلمے کے نام پر وجود میں آنے والے مملکت
خداداد پر طاغوت کی حکمرانی کو کوئی پاکستانی برداشت نہیں کرسکتا اورجو
آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے غلاموں کیلئے اس زمین کو تنگ کرکے ناموس ِ رسالت ﷺ
کے منافی کام کرکے اپنے تمام تر مذموم ہتھکنڈوں اور ناپاک ارادوں کو پایہ ٔ
تکمیل پہنچانے کی سازش کرے گا اس کو ناکامی نصیب ہوگی اور ان شاء اﷲ
کامیابی محمدﷺ کے غلاموں کو نصیب ہوگی۔ کیونکہ پاکستانیوں نے پاکستان میں
نظام ِ مصطفی ﷺکے نفاذ کیلئے ہر اآمر اور جابر حکمران کا مقابلہ کیا ہے،
اور اب بھی تحریک لبیک پر روا رکھے گئے مظالم کیخلاف عوام نے یکجہتی کا
اظہار کیا ہے۔ مذہبی حلقوں کو ناموس رسالت ﷺ کے حوالے سے پارلیمنٹ میں پیش
کی جانے والی قرارداد پر بھی تحفظات ہیں اگر ایسی کوئی کوشش کی گئی جس سے
عقیدہ ٔ ختم نبوت پر کوئی قدغن لگائی گئی یا گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے
مغربی دنیا کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی تو حکمر انوں کیلئے دنیا اور آخرت
میں رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، رمضان المبارک کا مقدس مہینہ روزہ
رکھنے کے ساتھ جہاد کا درس بھی دیتا ہے۔ ناموس رسالت ہماری ایمان کا حصہ ہے
یورپ سے دوستیاں نبھانے والے قیامت کے دن حوض کوثر پر کیسے حضور ﷺ کا سامنا
کریں گے۔ اب جبکہ تحفظ حرمت رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے لئے وزیر ِ اعظم
عمران خان نے خود فعال کردارادا کرنے فیصلہ کیا ہے جوانتہائی خوش آئندہے ،سندھ
اسمبلی بھی قراردادپاس کرچکی ہے امیدکی جاسکتی ہے کہ ناموس رسالت ﷺ پر کوئی
ٹھوس لائحہ ٔ ترتیب دیا جاسکے گا کیونکہ پاکستان، ایک نظریاتی ملک ہے۔ حرمت
رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کا تحفظ ہمارے ایمان کا مرکز و محور ہے۔ اس کڑے
وقت میں مسلم امہ کی نظریں مسلمان سربراہان اور علماء کی طرف دیکھ رہی ہیں۔
مسلم امہ کے علماء کو، بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے رحجان کی حوصلہ شکنی اور
حرمت رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے تحفظ کیلئے اپنا کردار ادا کرنا
ہوگا یہی تحفظ ناموس رسالت ﷺ کا تقاضاہے اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ
تحریک ِ لبیک پاکستان کے احتجاج کے دوران شہید ہونے والے تمام افرادکی مالی
امدادکی جائے ،زخمیوں کے علاج معالجہ کے خصوصی احکامات جاری کئے جائیں اور
وطن ِ عزیز میں نفرتوں کے خاتمہ اور اتحادبین المسلمین کے فروغ کیلئے مربوط
حکمت ِ عملی تیار کرے۔
|