سومنات مندر کی حقیقت اور انگریزوں کی جھوٹی چال‎


سلطان محمود غزنوی تاریخ میں ایک ایسے مسلمان بادشاہ گزرے ہیں جنہیں ہندوستان پر 17 حملوں کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی ۔سلطان محمود غزنوی کے سومنات کے مندر پر حملے کے حوالے سے بہت سی روایات ملتی ہیں۔ ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے جب سومنات کا بت توڑنا چاہا تو ہندوؤں نے اس کی خدمت میں بیش بہا خزانے پیش کیے اور کہا کہ اس بت کو نہ توڑا جائے، لیکن سلطان نے کہا کہ وہ تاریخ میں بت فروش نہیں بلکہ بت شکن کے طور پر زندہ رہنا چاہتا ہے، اس کے ساتھ ہی اس نے سومنات کے بت کے ٹکڑے کردیے۔

تاریخ میں سومنات بت کے حوالے سے ایک اور واقعہ بھی ملتا ہے، محمود غزنوی جب "سومنات" فتح کرکے مندر کے اندر داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ مندر میں سومنات کا بت ہوا میں معلق ہے، بت کو مندر کے بڑے کمرے میں اس انداز میں معلق دیکھ کر ہر شخص اس کی برتری تسلیم کرلیتا۔اور جو برتری تسلیم نہ کرتا وہ بھی ایک بار سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا کہ یہ وزنی بت کسی زنجیر، کسی نظر نہ آنے والے سہارے کے بغیر کس طرح فضا میں معلق ہے. سطان کے ساتھ اس وقت معروف مسلم دانشور سسائنسدان البیرونی بھی موجود تھے۔ محمود غزنوی نے حیران ہوکر البیرونی سے پوچھا۔۔۔!"یہ کیا ماجرا ہے؟ یہ بت بغیر کسی سہارے کے فضا میں کس طرح معلق ہے‘‘۔البیرونی نے چند لمحے سوچا پھر ادب سے بولا: سلطان معظم! اس مندر کے چھت کے اس طرف سے چند اینٹیں نکلوادیں۔سلطان کے حکم پر چند اینٹیں نکالی گئیں۔جب چھت سے البیرونی کی بتائی ہوئی جگہ سے کچھ اینٹیں نکالی گئیں تو سومنات کے فضا میں معلق بت یکدم ایک طرف جھک گیا... اور زمین سے قریب تر آگیا۔البیرونی نے ادب سے وضاحت کی۔۔۔! سلطان معظم! یہ ان ہندو پروہتوں اور پنڈتوں کی مکاری ہے اور چالاکی ہے. یہ بت لوہے کا بنوایا گیا ہے اور مندر کی چھت پر مخصوص جگہ بہت بڑے مقناطیس نصب کیے گئے ہیں. یہ مقناطیس لوہے کی بت کو اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں اور یوں یہ بت ساکت معلق رہتا ہے. چونکہ یہ بڑے بڑے مقناطیس مضبوطی سے نصب کیے گئے ہیں اپنی جگہ سے نہیں ہلتے اسی لئے یہ بت بھی فضا میں معلق ہے۔جب مندر کی چھت اکھاڑی گئ تو وہ بت بھی دھڑام سے زمین پر گر پڑا! پھر اینٹوں کا معائنہ کیا گیا تو البیرونی کا تجزیہ سوفیصد صحیح نکلا۔

سومنات مندر کے حوالے سے بھارت کی معروف تاریخ دان رومیلہ تھاپر نے 2005 میں ایک کتاب "سومناتا، ایک تاریخ کی کئی آوازیں" لکھی تھی جس میں انہوں نے سلطان محمود غزنوی کے سومنات مندر پر حملے کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ رومیلہ تھاپر کے مطابق سومنات مندر پر حملے اور اس کے بڑے بُت کو توڑنے کے واقعے کو بھارت میں ہندو مسلم تفریق کا ایک کلیدی لمحہ بتایا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں اس زمانے میں اس کی شاید اتنی اہمیت اور حیثیت نہیں تھی۔ برطانوی راج میں سب سے پہلے مکار انگریزوں نے اس واقعے کو ہندو مسلمان تفریق کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس کے بعد سے متضاد نظریات کے لوگ اسے اپنے اپنے معنی پہناتے رہے ہیں۔

رومیلہ تھاپر کے مطابق گیارھویں صدی سے دو تین صدیوں بعد تک اس واقعے کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی اور مقامی ذرائع اور دستاویز میں اس کا معمولی سا ذکر اور حوالہ بھی نہیں ہے۔ ان معلومات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس زمانے میں اور اس ماحول میں مندروں کی تباہی لوٹ مار اور پھر مرمت عام تھی۔

رومیلا تھاپر نے سینکڑوں کتابوں، مقالوں اور قدیم سنگی کتبوں کے حوالے سے یہ حقیقت دریافت کی ہے کہ سومنات جو سومنات پٹن ، سوم شاور پٹن اور دیو پٹن کے نام سے بھی مشہور تھا۔ کبھی بھی محمود نے برباد نہ کیا۔ تھاپر کا کہنا ہے کہ اس زمانوں میں بڑے اور اہم مندروں کی جاگیریں ہوتی تھیں اور ان کے اندر نذرانوں کی صورت میں جمع شدہ بے پناہ دولت ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ جب کوئی ہندو راجہ بھی ان خطوں میں یلغار کرتا تو وہ بھی ان مندروں کو لوٹتا تھا اور اکثر اپنی فتح کی نشانی کے طورپر وہاں ایستادہ بت اپنے ساتھ لے جاتا تھا تو محمود نے بھی وہی کچھ کیا جو اس سے پیشتر ہندو راجے کرتے آئے تھے۔ لیکن سب کچھ ویسا نہیں ہوا جیسا آج توڑ مروڑ کر نفرت سے بیان کیا جارہا ہے۔ اس عہد کے کسی مخطوط یا دریافت ہونے والے پتھر پر یہ نقش نہیں ہے کہ محمود کے حملے کے بعد سومنات اجڑ گیا بلکہ یہ درج ہے کہ اس کی یلغار کے بعد سومنات بدستور آباد رہا اور وہاں پرستش اور پوجا پڑا ہوتی رہی
تاریخ پاک و ہند پر تو گورے نے خاص بلکہ رج کے جھوٹ بول بول کر نفرت پھلائی ہے
اور مسلمانوں کے ہر اس کرِدار کو مسخ کرنے کی کوشش کی جس سے ذراسی مذہبیت جھلکتی تھی۔ یوں بھی ہندوستان مسلمانوں سے پہلے کئی ریاستوں میں بٹا ہوا علاقہ تھا، اس لیے اس کی تاریخ کی گہرائی میں اترنے کے لیے آپ کو ایک ایسی عمر چاہیے جو صرف کتابوں میں ہی بسر ہو۔سول سروس کے امتحان کی تیاری کے دوران میں ایک ایسی مورٔخ سے روشناس ہوا جس میں تعصب نام کی کوئی چیز نہ تھی۔

اس کی کتاب(A History of India) میرے لیے ایک حیران کن تجربہ تھی۔ پینگوئن والوں نے اسے 1966 میں چھاپا تھا۔ اس کی مولف اس زمانے میں دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر تھی۔1931میں پیدا ہونے والی رو میلا تھاپر (Romila Thaper)نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور پھر یونیورسٹی آف لندن سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں وہ پڑھاتی رہی۔

اسے2005ء میں پدمابھوشن ایوارڈ دیا گیا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں اپنے علمی کام پر سرکاری سرپرستی نہیں چاہتی۔ رومیلا تھاپر نے برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں گورے کی بددیانتی اور مکاری کی ایک بہت بڑی مثال اپنی کتاب سومنات: تاریخ کی بہت سی آوازیں (Somantha: the many voices of history) میں پیش کی ہے۔

اس کتاب میں اس نے قدیم سنسکرت اور فارسی کے تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ محمود غزنوی کی سومنات کے عظیم مندر کی تباہی، اس کے بہت بڑے بت کو توڑنا، اس کے اندر سے سونا اور دولت کا نکالنا اور اس دولت کو لوٹ کر غزنی لے جانا، یہ ساری کہانی انگریز دور جھوٹ موٹ کی تراشی گئی۔ انگریز دور میں ہی محمود غزنوی کو بت شکن کا لقب دے کر مسلمانوں کے ہاں اس کے کردار کی عظمت اور ہندوؤں کے ہاں کردار کشی کی گئی۔اس تاریخی بددیانتی کا آغاز برطانوی پارلیمنٹ کی1843کی اس بحث سے ہوتا ہے جسے(The proclamation of gates) یعنی دروازوں کی برآمدگی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

یہ بحث گورنر جنرل لارڈ ایلن برو(Ellen brough) کے اس اعلان کے بعد شروع ہوئی،جس میں اس نے کہا تھا کہ محمود غزنوی کے سومنات کے عظیم مندر سے صندل کی لکڑی کے تاریخی دروازے اکھاڑ کر غزنی میں نصب کیئے گئے تھے، یہ دروازے ہندوستان کا اثاثہ ہیں اور انھیں واپس لایا جائے۔پارلیمنٹ کی بحث کے دوران یہ ثابت کیا گیا کہ سومنات کے مندر کی تباہی دراصل ہندو قوم کی بہت بڑی توہین ہے، اس لیے دروازوں کو واپس لاکر ان کی عزت بحال کی جائے۔

انگریز کا اس بحث سے ایک ہی مقصد تھا کہ ہندو قوم کو افغانستان میں ہونے والی جنگ میں ساتھ ملایا جائے اور پورے ہندوستان پر یہ ثابت کیا جائے کہ انگریز کا افغانستان پر کس قدر کنٹرول ہے۔ یوں ایک مقامی فوجی بھرتی کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا گیا۔غزنی میں موجود دروازوں کو اکھاڑا گیا ۔ جب انھیں ہندوستان لایا گیا تو ان پر کنندہ آیاتِ قرآنی نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ ان کا سومنات تو دور کی بات ہندو مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ دروازے آج بھی آگرہ کے قلعے کے اسٹور روم میں پڑے ہوئے ہیں۔ انگریز نے اپنی مکاری اور جھوٹا انتشار پھیلا کر ہندو کو مسلمانوں کے خلاف کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی

برصغیر کی تقسیم کے بعد اسی انگریز کے جھوٹ کو متعصب ہندوؤں نے اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا اور تقسیم کے فوراً بعد ہی سومنات کا مندر دوبارہ تعمیر کرنے کی تحریک شروع کردی۔ اس کا سرغنہ کے ایم منشی تھا، جس نے گجرات کی تاریخ لکھی جس میں اس نے سومنات کو پورے برصغیر کے ہندو مذہب کی عظیم علامت اور بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں بھارت کی جدوجہد کا استھان قرار دیا۔

تمام ہندو قوم پرستوں کے نزدیک اس کا دوبارہ تعمیر کیا جانا، محمود غزنوی کے حملوں کا منہ توڑ تاریخی جواب ہوگا۔ انگریز کی تحریر کردہ اسی تاریخ کی بنیاد پر جذباتی مسلمانوں نے بھی محمود غزنوی کو بت شکن کا لقب دے کر ایک اس واقعے کے دفاع پر زمین و آسمان کے قلابے ملائے جس کی حیثیت بہت ہی معمولی تھی۔

رومیلا تھاپر کہتی ہے کہ جب میں نے اصل سنسکرت میں لکھے تاریخی مآخذ کا مطالعہ شروع کیا تو میں حیران رہ گئی کہ وہاں سومنات نام کا شہر تو ملتا ہے لیکن وہاں کسی بڑے مندر کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ جب کہ محمود غزنوی کے ہندوستان آنے سے بہت پہلے جین مت کے تاریخی مواد سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے سومنات پر حملہ کیا اور ایک مندرکو تباہ کیا۔

اس مندر کی تباہی کو وہ مہاویرکی شیو کے اوپر فتح کی علامت کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ رومیلا تھا پر حیرانی کے ساتھ تحریر کرتی ہے کہ میں نے جین تاریخ اور سنسکرت کے تاریخی مواد کو بہت تفصیل سے جانچا اور پرکھا اور ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ کہیں محمود غزنوی کے مندر پر حملے اور اس کی لوٹ مار کا تذکرہ ملے، لیکن مجھے اس کا بالکل ذکر تک نہ ملا۔

جب کہ آج کے ہندو اس واقعہ کو اس قدر شدید درد اور کرب سے بیان کرتے ہیں جیسے یہ ان کی تاریخ کی بدترین کہانی ہو۔ محمود غزنوی کی آمد اور لڑائی کو جین اور سنسکرت کے تاریخی مآخذ ایک چھوٹے سے واقعہ کے طور پر لیتے ہیں جب کہ اس واقعہ کے سو سال بعد وہ بالکل خاموش ہو جاتے ہیں، جیسے یہ کوئی واقعہ ہی نہ تھا۔ جب کہ اس مندر کی آرائش اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مسجد کی تعمیر کے بارے میں جین اور سنسکرت کے مورخین بہت کچھ تحریر کرتے ہیں۔

سومنات کا شہر ہندو آبادی اور مسلمان تاجروں کا شہر تھا، جہاں ہندو راجہ نے عرب کے تاجروں کو مسجد بنانے کے لیے زمین بھی دی تھی۔ رومیلا تھا پر کہتی ہے کہ سومنات کے ایک بوہرہ مسلمان تاجر کے بارے میں ایک کتبہ اسے ملا ،جو سومنات شہر کے دفاع میں مارا گیا۔

یہ تاریخی بددیانتی کب شرو ع ہوئی۔1872میں انگریز سرکار کی سرپرستی میں دو مورخیںH.M.Elliotاور Ed.John Dowsonنے ایک تاریخ مرتب کی جس کا نام تھا(History of India as told by its own historians)اِس کتاب کو تحریر کرنے کا بنیادی مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ہندوستان ایک منقسم ملک ہے، یہ لوگ ہر وقت آپس میں دست و گریبان رہتے ہیں، اپنے خلاف ہونے والے حملوں کا دفاع نہیں کر سکتے۔

مسلمان حملہ آور خونخوار ہیں، مذہبی شدت پسند ہیں اور ہندوستان صرف انگریز ہی پر امن اور مستحکم رکھ سکتا ہے۔ برصغیر پاک وہند کے ہر نصاب تعلیم کی کتابوں میں، دانشوروں کی گفتگو میں اور عام لوگوں کی کہانیوں میں اسی کتاب کی جھوٹی داستانیں آج بھی گونجتی رہتی ہیں۔ محمود غزنوی لٹیرا تھا، اورنگ زیب ظالم تھا، مسلمانوں نے ہندوؤں پر ظلم کیا، ان کے مندر تباہ کیئے، انار کلی ایک جیتا جاگتا کردار تھی، اکبر بہت روادار تھا، ایسی کتنی کہانیاں ہیں جو اس برصغیر میں گردش کر رہی ہیں۔

لیکن برصغیر کی تاریخ میں کوئی یہ نہیں پڑھاتا کہ مندروں کو تباہ کرنا اور ان کو لوٹنا ہندوستان کے ہندو راجاؤں کا بھی صدیوں سے دستور رہا ہے۔’’ چھولا ‘‘اور’’ چالوکا‘‘ کا خاندان جو برصغیر کے مختلف علاقوں پر حکمران تھے، ان کی تاریخی روایات(Epigraphic account) بتاتی ہیں کہ وہ حملہ کرتے اور مندروں کو لوٹتے اور تباہ کرتے تا کہ اپنی دھاک قائم کر سکیں۔642عیسوی میں نرسمہاومِن جو ’’پالوا‘‘ بادشاہ تھا اس نے ’’چالو کا‘‘ کے دارالحکومت واپتی کو فتح کیا تو گنیش کے مندر کو تباہ کر کے مورتی وہاں سے لے گیا۔

اس کے پچاس سال بعد’’ چالو کا‘‘ کا بادشاہ ونادتیا نے مختلف علاقوں کو فتح کیا، گنیش کی مورتی بھی واپس لے کر آیا اور دیگر مندروں کو تباہ کر کے گنگا اور جمنا کی بھی کئی مورتیاںدکن لے کر آیا۔ اسی طرح کی تباہی راشترا کوتا کے بادشاہ گوندا نے پھیلائیں کٹر ہندو تھا جس نے نویں صدی عیسوی میں کنچی پورم فتح کیا اور سری لنکا سے تمام مندروں کے بت اٹھا کر شیو کے مندر میں رکھ دیے۔ اجنتا اور الورا کی بدھ عبادت گاہوں کو ختم کیا گیا اور اس میں شیو اور گنگا کی مورتیاں رکھ کر انھیں مندر بنا دیا گیا۔ کوئی نہیں بتاتا کہ تاریخ میں دوسروں کی عبادت گاہ کو تباہ کرنے کا آغاز سکندر اعظم نے ایران میں پرسی پولس کی عبادت گاہ تباہ کر کے کیا تھا۔

سومنات کی تباہی کی کہانی بھی ویسی ہی ہے جیسے انگریز مورخین نے تاریخ میں یہ بددیانتی کی اور تحریر کیا کہ اسکندریہ میں دنیا کی سب سے قدیم لا ئبریری کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں جلایا گیا۔ حالانکہ یہ لائبریری ان کی آمد سے چھ سو سال قبل مسیح میں جلا دی گئی تھی او ر اسے روم کے بادشاہ کے حکم پر جلایا گیا تھا۔

انگریز مورخین نے یہ جھوٹ تحریر کیا اور پھر جس کسی کو بھی حضرت عمر رضی اللہ سے بغض اور کینہ تھا اس نے اس واقعہ کو تاریخ کا حصہ بنا لیا۔ اسی طرح جس کسی کو اسلام سے بغض تھا اس نے محمود غزنوی اور سومنات کے قصے کو ایسا لکھا کہ جھوٹ بھی سچ محسوس ہوا۔ اتنا جھوٹ بولا اتنا جھوٹ بولا کے وہ سچ لگنے لگا۔۔۔

 

Syed Maqsood Ali Hashmi
About the Author: Syed Maqsood Ali Hashmi Read More Articles by Syed Maqsood Ali Hashmi: 171 Articles with 152572 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.