بھیڑ یا شیر؟ یہ ذہانت نہیں ذہنیت کی بات ہے!

بھیڑ کی کوئی آزادی نہیں ہوتی۔
بھیڑ اپنی زندگی کا ہر روز خوف اور بے یقینی میں گزارتی ہے۔
بھیڑ کبھی آگے نہیں چلتی۔
شیر کبھی پیچھے نہیں چلتا۔
ایک شیر کو آپ کبھی نہیں ”ہنکاتے“ کہ کدھر جانا ہے اور کب جانا ہے۔
آپ شیر کو کبھی مذبح خانے نہیں لے جا سکتے۔
ہاں وہ ضرور آپ کو اپنی کچھار میں لے جائے گا۔
آخر کو شیر جنگل کا بادشاہ ہے۔
لیکن یہ بادشاہت اس لئے نہیں کہ شیر جنگل میں سب سے بڑا ہوتا ہے
یا سب سے طاقتور ہوتا ہے، ۔
یا سب سے تیز ہوتا ہے
یا سب سے اونچا ہوتا ہے،
یا سب سے ذہین ہوتا ہے۔
بلکہ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے اپنی ”ذہنیت“ کی وجہ سے۔
جب ایک شیر دوسرے جانوروں کو دیکھتا ہے تو کھانے کا سوچتا ہے۔
لیکن جب کوئی بھی دوسرا جانور شیر کو دیکھتا ہے تو بھاگنے کا سوچتا ہے۔
سو شیر کی ذہنیت کیا ہوتی ہے؟

جانتے ہیں آج کل کا سب بڑا خوف کون سا ہے؟

’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ کا خوف۔

اور اگر آپ حق پر ہوں اور جیسے ہی آپ اس خوف کی پرواہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

تو پھر آپ بھیڑ نہیں رہتے۔

شیر بن جاتے ہیں۔

اور آپ اپنے اندر ایک عظیم دھاڑمحسوس کرتے ہیں۔ آزادی کی صدا۔ شیر کی جیسی دھاڑ جو پانچ میل دور سے بھی سنی جا سکتی ہے۔

بھیڑ کی کوئی آزادی نہیں ہوتی۔

بھیڑ اپنی زندگی کا ہر روزخوف اور بے یقینی میں گزارتی ہے۔

بھیڑ کبھی آگے نہیں چلتی۔

شیر کبھی پیچھے نہیں چلتا۔

ایک شیر کو آپ کبھی نہیں ’’ہنکاتے‘‘ کہ کدھر جانا ہے اور کب جانا ہے۔

آپ شیر کو کبھی مذبح خانے نہیں لے جا سکتے۔

ہاں وہ ضرور آپ کواپنی کچھار میں لے جائے گا۔

آخر کو شیر جنگل کا بادشاہ ہے۔

لیکن یہ بادشاہت اس لئے نہیں کہ شیر جنگل میں سب سے بڑا ہوتا ہے۔ ہاتھی خشکی کا سب سے بڑا جانور ہے۔

یا سب سے طاقتور ہوتا ہے، کیونکہ گینڈے میں شیر سے زیادہ طاقت ہوتی ہے۔

یا سب سے تیز ہوتا ہے کیونکہ بہرحال چیتا تیز ترین جانور ہے۔

یا سب سے اونچا ہوتا ہے،

یا سب سے زہین ہوتا ہے۔

بلکہ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے اپنی ’’زہنیت‘‘ کی وجہ سے۔

جب ایک شیر دوسرے جانوروں کو دیکھتا ہے تو کھانے کا سوچتا ہے۔

لیکن جب کوئی بھی دوسرا جانور شیر کو دیکھتا ہے تو بھاگنے کا سوچتا ہے۔

سو شیر کی ذہنیت کیا ہوتی ہے؟

بے خوف ہمت: بہادری شیر کی پہچان ہے۔ شیر کبھی سرنڈر نہیں کرتا، کبھی ہار نہیں مانتا۔

شیر کبھی بھی لڑائی چھوڑ کر لیٹ کر نہیں مرتا حتیٰ کہ اسے دس جنگلی کتے یا بھینسے بھی گھیر لیں ۔ہاں، لڑتے لڑتے ضرور مر سکتا ہے۔ اور یہ لڑائی اس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک کہ واقعی ختم نہ یو جائے۔ آپ کی زندگی کی بھی جنگ آپ کے تھکنے ہر ختم نہیں ہوتی بلکہ جیتنے یا ہارنے پر ختم ہوتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ نا صرف اپنی کمزوریوں پر کام کریں بلکہ اپنی مضبوطیوں کو بھی مزید ابھاریں۔ کوئی بھی سو فیصد پرفیکٹ نہیں ہوتا لیکن جب آپ کو اپنی شخصیت کی کمزوریوں اور مضبوط پہلووں کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے تو آپ اسی لحاظ اسے اپنے لئے مقصد اور میدان ِعمل چن سکتے ہیں اور کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔ سوچیئے، وہ کون سے کام ہیں جنھیں آپ دوسروں کی نسبت زیادہ آسانی سے انجام دے سکتے ہیں۔ شیر رسک لیتا ہے، درد اورخطرہ مول لیتا ہے لیکن اس کے سامنے ایک مقصد ہوتا ہے۔ ہمیشہ سستی ، شارٹ کٹ اور ٓآرام کو تلاش کرنے والے کبھی مقصد کو نہیں پا سکتے۔ یاد رکھیں، شیر کبھی مردار اور بیمار جانور کا شکار نہیں کرتا۔ اس میں اتنی عزت ِ نفس ہوتی ہے کہ پہلے سے مرتے ہوئے یا ذخمی جانور کو چھوڑ دے۔ سو خود کی ترقی کے لئے ایسے راستے پر چلنے سے نہ کترائیں جس سے آپ کو خوف آتا ہو۔ ، چلینج سے نہ ڈریں۔ کیونکہ کہ بہترین منزل اکثر مشکل ترین راستوں پر چل کر ہی مل پاتی ہے۔

شاید آپ کی زندگی میں آپ کو جنگلی کتوں نے نہیں، قرضوں نے، دوسروں کے طعنوں نے، ڈپریشن نے، مایوسی نے گھیر رکھا ہو۔

شاید کوئی بھی آپ کے خیالات سے ، نظریات سے متفق نہ ہو، بلکہ آپ سے ہمدردی کے دو بول تک کہنے پر تیار نہ ہو۔ ہمت نہ ہاریں۔

شاید آپ سالوں سے کچھ سوچ رہے ہیں لیکن اس کام کے لئے عملی کوشش ابھی تک نہیں کی، ہمت نہ ہاریں بلکہ کر گزریں۔

یا شاید اپنے مقصد کے پیچھے بھاگ بھاگ کر لیکن اپنی کوشش کا کوئی صلہ نہ دیکھ کر آپ تھک چکے ہیں۔

ہمت نہ ہاریں۔ اپنے آپ کو میدان ِ جنگ میں تصور کر کے لڑتے رہیں۔

ہاں، اس بات کی کوئی ’’ضمانت‘‘ نہیں کہ آپ اپنے مقصد کو حاصل بھی کر پائیں گے لیکن اس کا ’’امکان" ضرور موجود ہے لیکن صرف اس وقت تک جب تک آپ میدان ِ عمل میں حاضر ہیں، بر سر ِ پیکار ہیں۔ ضمانت تو صرف اس وقت ہوتی ہے، اوروہ بھی شکست کی، جب آپ میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔

یقین: شیر کو یقین ِمحکم ہوتا ہے۔ وہ کبھی اندازے نہیں لگاتا، تکے نہیں مارتا۔ جب شکار کے پیچھےجاتا ہے تو سو فیصد یقن کے ساتھ جاتا ہے۔ شیر اور نیم دلی کا کوئی جوڑ نہیں۔ خدا کی ودیعت کردہ صلاحیتوں پر یقین ِ محکم آپ کو گرنے نہیں دیتا اور اگر گر بھی جاتے ہیں تو اٹھا کر کھڑا کردیتا ہے۔ خدا پر توکل اور اس کے دیئے ہوئے ٹیلنٹ پر بھروسہ بہت ضروری ہے۔ اپنے نتیجے حاصل کرنے کے لئے آپ دوسروں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ سو آگے بڑھیے، اپنی ذمہ داری خود سنبھالیں۔ جو فیصلہ بھی کریں، جس راستے کا بھی انتخاب کریں، خود پر یقین کے ساتھ کریں، خدا پر توکل کے ساتھ کریں۔

آزادی: شیر شاید جنگل کا آزاد ترین جانور ہے کیونکہ وہ کبھی اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔ آزادی اپنے خیال کے اظہار کی، اپنے جذبے کے اظہار کی۔ جب خدا نے آپ کو آزاد پیدا کیاہے تو پھر اس دنیا میں اپنے جیسے دوسروں کی غلامی کیوں۔ یہاں ازادی کا مطلب مادر پدر آزادی نہیں بلکہ اپنے حق کی ازادی ہے، غلامی سے آزادی ہے، اپنے زندگی کے مقصد کو پانے کی آزادی ہے۔ اور دوسروں کو بھی آزادی کے ساتھ جینے کا حق دینے کی آزادی ہے۔

تحفظ: شیر خود سے جڑی ہر چیز کی حفا ظت کرتا ہے، چاہے وہ اس کا خاندان ہو، اس کا طعام ہو، اس کی بادشاہی ہو یا اس کا شکار۔ آپ کو کس چیز کی حفاظت کرنی ہے؟ ضروری نہیں کہ یہ محض جسمانی حفاظت ہو بلکہ زہنی طور ہر ، جذباتی طور پر آپ اپنے وقت کی قربانی کس چیز کے لئے دے سکتے ہیں۔ کوئی سے تین ایسے رشتوں کے بارے میں سوچیں، دوست، والدین، بہن بھائی، بچے یا بیوی، جو آپ کو ’’موٹیویٹ‘‘ رکھیں، جن کے لئے آپ ترقی کرنا چاہتے ہوں، جن کی زندگی آپ کے آگے بڑھنے سے اور بہتر اور محفوظ ہو جائیگی۔

صلاحیت: شیر عام طور پر ایک دن میں بیس گھنٹے تک سوسکتا ہے لیکن پھر بھی بقیہ چار گھنٹوں میں وہ ان بیس گھنٹوں کے لئےاپنا اور اپنے خاندان کا انتظام کر کے سوتا ہے۔ یعنی اس کے لئےکام کی مقدار سے زیادہ معیار اہم ہے۔ اور ایسا اس کی بے پناہ صلاحیتوں کے بل پر ہی ممکن ہوتا ہے۔ سو ضروری نہیں آپ کتنی دیر تک کوئی کام کریں بلکہ یہ اہم ہے کہ آپ کام کون سا کرتے ہیں اور اس کام کی اپمیت کتنی ہے نا کہ اس کام کا دورانیہ۔

بھوک: پیٹ بھرا شیر شکار نہیں کرتا۔ بھوکا شیر زیادہ خطرناک کیوں ہوتا ہے؟ کیونکہ جب تک وہ اپنا پیٹ نہ بھر لے، آرام سے نہیں بیٹھتا۔ آپ کو بھی اپنے مقصد کی بھوک ہونی چاہیئے۔ اس کے لئے ہوک ہونی چاہیئے۔ فوکس یعنی ارتکاز ہونا چاہیئے۔ بالکل ایسے جیسے شیر کی نظر جب شکار پر ہوتی ہے تو وہ اپنے اطراف کی چیزوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔

خدا مشکل ترین جنگیں اپنے مضبوط ترین سپیاہیوں کو نہیں دیتا بلکہ وہ مشکل ترین جنگوں کے زریعے مضبوط ترین سپاہی پیدا کرتا ہے۔ دوسرے آپ سے زیادہ زہین ہو سکتے ہیں، آپ سے زیادہ مضبوط ہو سکتے ہیں، زیادہ خوش قسمت ہو سکتے ہیں لیکن کیا دوسرے آپ کو شکست دے سکتے ہیں، آپ کو آپ کے مقصد اور اس کی راہ پر چلنے سے روک سکتے ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ دوسروں کے نہیں، خود آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
 

Dr. Syed Ikram
About the Author: Dr. Syed Ikram Read More Articles by Dr. Syed Ikram: 8 Articles with 5369 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.