#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَہِ مریم ، اٰیت 41 ازقلم
مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
و
اذکر فی
الکتٰب ابراہیم
انہ کان صدیقا
نبیا 41
اے ھمارے کریم النفس ھادی ، یقیں پرور عبد اور صادق الوعد رسُول ! ذکرِ
زکریا و یحیٰی اور ذکرِ مریم و مسیح کے بعد اَب آپ اِس کتاب میں اپنے جَدِ
اَمجد ابراہیم کا ذکر بھی کردیں جو ھمارا سچا نبی تھا !
مطلبِ اٰیت و مقصدِ اٰیت !
ابراہیم علیہ السلام کی اُس عملِ سیارہ بینی کا ھم ذکر کرچکے ہیں جس عملِ
سیارہ بینی کے بعد آپ نے کہا تھا کہ میری قوم جن ستاروں کی پرستش کرتی ھے
میں اُن بے اَثر ستاروں کی چال اور اَحوال کا عملی مُشاھدہ کرتے ہوۓ تَھک
کر نَڈھال ہو چکا ہوں اور اِس کے بعد آپ نے یہ اعلان بھی کردیا تھا کہ میں
ایک نہ ایک دن اپنی قوم کے اِن ستاروں کے ناموں پر بناۓ ہوۓ زمینی بتوں کو
ضرور توڑ دوں گا اور پھر ایک روز مُناسب موقع ملتے ہی آپ نے اُن بتوں میں
سے ایک بڑے بُت کو سالم و ثابت چھوڑ دیا لیکن اُس ایک بڑے بُت کے سوا باقی
سارے بتوں کو توڑ پھوڑ دیا ، ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے جب اپنے مَعبد
کے اِن ٹُوٹے پُھوٹے بتوں کو دیکھا تو وہ فورا ہی سمجھ گۓ کہ بُت شکنی کا
یہ کام ابراہیم نے ہی کیا ھے اور پھر جب اُنہوں نے اپنے اِن ٹُوٹے ہوۓ بتوں
کے بارے میں ابراہیم علیہ السلام سے پُوچھا تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا
تُمہارا بڑا بُت جو صحیح سلامت کھڑا ھے اُس سے بظاہر تو یہی لگتا ھے کہ بُت
شکنی کا یہ کارنامہ تُمہارے اسی بڑے بُت نے اَنجام دیا ھے اِس لیۓ بہتر
ہوگا کہ تُم اسی سے پُوچھ لو کہ یہ کام کس نے کیا ھے ، ابراہیم علیہ السلام
کا یہ جواب سُن کر ابراہیم علیہ السلام کے عمائدینِ قوم ایک لَمحے کے لیۓ
تو گڑبڑاگۓ لیکن پھر ایک لَمحے بعد جب اُن کے حواس بحال ہوۓ تو وہ سَنبھل
کر بولے کہ ابراہیم ! یہ بات تو تُم بھی جانتے ہو کہ ھمارے یہ بُت بولتے
نہیں ہیں تو پھر ھمارا یہ بڑا بُت ہمیں کس طرح بتا سکتا ھے کہ اِس کے ساتھی
بتوں کے ساتھ یہ سلُوک کس نے کیا ھے ? ابراہیم علیہ السلام بھی اپنے
عمائدینِ قوم کو ایک ذہنی جَھٹکا لگا کر اسی خاص نُکتے پر لانا چاہتے تھے
کہ تُمہارے پَتھر گارے کے جن معبُودوں کے کان ناک کٹ جائیں ، سینہ و سر
ٹُوٹ جاۓ اور وہ اپنے ہاتھ پاؤں چلا کر خود کو بچاسکتے ہیں اور نہ ہی کسی
کو کُچھ بتا سکتے ہیں تو پھر یہ اَندھے بہرے اور بے جان پَتھر تُمہارے حاجت
روا اور مُشکل کشا معبُود کس طرح ہو سکتے ہیں ، ابراہیم علیہ السلام کا یہی
وہ الزامی جواب { بل فعلہ کبیر ھم } ھے جس کو امام بخاری نے اپنی بخاری
شریف میں ابراہیم علیہ السلام کا تیسرا جُھوٹ قرار دیا ھے ، عُلماۓ کلام
انسان کے جس جواب کو الزامی جواب کہتے ہیں وہ ایک ایسا طاقت ور عقلی جواب
اور ایک ایسا زُود اَثر مَنطقی استدلال ہوتا ھے جو اپنے مُخاطب کو سر تاپا
لَرزا کر رکھ دیتا ھے ، یہ مَنطقی استدلال کرنے والا اپنے اِس زوردار
استدلال کو جس طرح خود بھی سمجھتا ھے اِس کے سُننے والے بھی اِس کو اسی طرح
سمجھتے ہیں ، ابراہیم علیہ السلام نے جس وقت یہ استدلال کیا ھے اور اِس
استدلال کو آپ نے جس طرح خود سمجھا ھے آپ سے آپ کے سُننے والوں نے بھی
بالکُل اسی طرح سمجھا ھے اور کسی بڑے سے بڑے کافر نے بھی اِس کی کبھی تکذین
نہیں کی ھے ، کی ھے تو عھدِ ابراہیم کے دوہزار نو اکتیس برس بعد صرف امام
بخاری نے کی ھے اور پھر امام بخاری نے ہجرتِ ابراہیم و سارہ کے حوالے سے
اپنا جو دروغ بخاری کی کتاب البیوع میں سُنایا ھے اُسی دروغ کو فروغ دینے
کے لیۓ وہ بخاری کی کتاب الاَنبیاء میں بھی اِس فرق کے ساتھ لاۓ ہیں کہ
پہلی حدیث میں اُنہوں نے ابراہیم علیہ السلام پر صرف ایک جُھوٹ بولنے کا
ایک بُہتان لگایا ھے مگر دُوسری حدیث میں مزید دو جُھوٹ بولنے کا بُہتان
بھی دُھرایا ھے ، پہلی حدیث میں وہ ھاجر و آجر اور کافر کے تین قافیۓ لے کر
آۓ ہیں تو دُوسری حدیث میں وہ " فاجر " کا ایک اضافی قافیہ بھی لے کر آۓ
ہیں ، عُلماۓ یہُود نے اسحاق بن ابراہیم کو آزاد ماں کا آزاد فرزند اور
اسماعیل بن ابراہیم کو غلام ماں کا غلام بیٹا ثابت کرنے کے لیۓ توراتِ
مُوسٰی میں تحریف کرکے ابی ملک باشاہ کی بخشی ہوئی ایک لونڈی ھاجرہ کو
ابراہیم علیہ السلام کی بیوی اور اسماعیل علیہ السلام کی والدہ کے طور پر
مُتعارف کرایا ھے اور امام بخاری نے بائبل کی اُس روایتی ھاجرہ کو اپنی
روایتِ حدیث کے ذریعے سارہ کی کنیز بنا کر پہلے ابراہیم علیہ السلام کے گھر
تک پُہنچایا ھے اور اِس روایت کی مُتابعت میں بنائی گئی اپنی دُوسری
روایاتِ حدیث کے ذریعے ھاجرہ کو کمسن اسماعیل کے ہمراہ مکے میں پُہنچایا ھے
، صفا اور مروہ کے درمیان پانی کی تلاش میں بھاگتے دوڑتے ہوۓ دکھایا ھے ،
پھر اُس کی اِس بھاگ دوڑ کو حج کا رکن بنایا ھے اور پھر ھاجرہ کی اِس سُنت
کو زندہ و قائم رکھنے کے لیۓ اَصحابِ اہلِ حج و اَصحابِ اہلِ عُمرہ کو صفا
و مروہ کے درمیان بھاگنے دوڑنے کے کارِ عظیم پر لگایا ھے لیکن قُرآن کی رُو
سے ابراہیم علیہ السلام کی وہی ایک بیوی تھی جس کا تاریخی نام سارہ ھے اور
جس کے بطن سے پہلے اساعیل پیدا ہوۓ تھے اور بعد ازاں سُورہُ ھُود کی اٰیت
71 و 72 کے مطابق جب فرشتے ابراہیم علیہ السلام کو اسماعیل کے بعد اسحاق کی
پیدائش کی خوش خبری دینے کے لیۓ آۓ تھے تو ابراہیم علیہ السلام کی اسی بیوی
نے اُن کی باتیں سُن کر اِس خوش خبری پر تعجب کا اظہار کیا تھا اور سُورَہِ
ابرہیم کی اٰیت 39 کے مطابق ابراہیم علیہ السلام نے بھی بڑھاپے کی عُمر میں
اپنی اسی ایک بیوی سے اسماعیل و اسحاق کی پیدائش پر اللہ تعالٰی کا شُکر
اَدا کیا تھا ، امام بخاری نے قُرآنِ کریم کے اِن سارے بیانات کے علی الرغم
صدقِ ابراہیم پر جُھوٹ کی گرد اُڑانے ، ابراہیم علیہ السلام کے سفرِ ہجرت
کے دوران سارہ کو کافر بادشاہ کی دسترس میں دکھانے ، عطیہِ شاہی کے طور پر
ھاجرہ کو ساتھ لانے اور سارہ کی باندی کو ابراہیم علیہ السلام کی بیوی اور
اسماعیل ماں بنانے کے لیۓ بخاری شریف میں ہجرتِ ابراہیم کی جو روایات جمع
کی ہیں ہجرت کی اُن روایات میں سے ہجرت کی ایک روایت حدیث نمبر 50 84 ھے جو
اُنہوں نے بخاری کتاب النکاح میں درج کی ھے لیکن اِس حدیث پر نظر ڈالنے سے
پہلے کتاب النکاح کی حدیث نمبر 5127 پر نظر ڈالنا مُفید ہو گا جو امام
بخاری نے سیدہ عائشہ صدیقہ کی طرف منسُوب کی ھے اور اُس حدیث میں دورِ
جاہلیت میں ہونے والے نکاح کے جو تین طریقے بیان کیۓ گۓ ہیں اُن تین طریقوں
میں سے نکاح کا دُوسرا طریقہ یہ بیان کیا گیا ھے کہ { کان الرجل یقول
لامراتہ اذا طھرت من طمثھا : ارسلی الٰی فلان فاستبضعی منہ ویعتزلھا زوجھا
ولا یمسھا ابدا حتٰی یتبین حملھا من ذٰلک الرجل الذی تستبضع منہ فاذا تبین
حملھا اصابھا زوجھا اذا احب اانما یفعل ذٰلک رغبة فی نجابة الولد فکان
ھٰذاانکاح الستبضاع } یعنی دورِ جہالت میں نکاح کے جو تین طریقے عربوں میں
رائج تھے اُن میں سے نکاح کا دُوسرا طریقہ یہ تھا کہ شوہر بیوی کو ایام
ماہواری سے فارغ ہونے پر کہتا تھا کہ جا اور فلاں آدمی سے لپٹ جا ، عورت جب
ایسا کرلیتی تو شوہر اِس کا حمل ظاہر ہونے تک اِس سے دُور رہتا تھا اور حمل
ظاہر ہونے کے بعد اِس کی قُربت حاصل کرتا تھا ، خاوند یہ کام اِس لیۓ کرتا
تھا تاکہ اُس سے ایک شریف اور عُمدہ بچہ پیدا ہو اور اِس نکاح کو استبضاع
کہا جاتا تھا ، بخاری کی کتاب النکاح کی اِس حدیث شریف کے بعد اَب ذرا کتاب
النکاح کی اُس حدیث شریف پر بھی ایک نگاہ ڈال لیں جو حدیث امام بخاری
ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں لاۓ ہیں { عن ابی ھریرة : لم یکذب ابراہیم
الّا ثلاث کذبات : بینما ابراھیم مر بجبار ومعہ سارة ، فذکرالحدیث ،
فاعطاھا ھاجر ، قالت : کف اللہ یدالکافر واخدمنی اٰجر } یعنی سید ابو ھریرة
نے بتایا ھے کہ ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین جُھوٹ بولے ہیں ، ایک بار
ایسا ہوا کہ وہ ایک ظالم بادشاہ کے مُلک میں جا پُہنچے ، ان کے ساتھ ان کی
بیوی سارہ بھی تھی ، پھر آپ نے وہ پُورا واقعہ بیان کیا کہ بادشاہ نے سارہ
کو "ھاجرة" عطا کی ، سارہ نے واپس آکر ابراہیم علیہ السلام کو بتایا کہ
اللہ نے اُس کافر کو مُجھ پر دست درازی سے روک لیا اور اُس نے مُجھے خدمت
کا بدلہ و اجر دیا ، کیا ہجرت کی اِس غیر مُتعلقہ حدیث کو کتاب النکاح میں
لانا اِس بات کا مذمُوم اشارہ نہیں ھے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی
عربوں کے قدیم نکاح کے رائج طریقے کے مطابق خود ہی اُس ظالم بادشاہ کے نکاح
میں دے دی تھی { نعوذ باللہ من ذٰلک الخرافات } کتابِ بخاری کے اِس کلام کا
نتیجہِ کلام یہ ھے کہ ابراہیم علیہ السلام کی ذات اور زبان سے منسُوب کیۓ
گۓ تین جُھوٹ کی اِن تین کہانیوں کا مرکزی موضوع اللہ تعالٰی کے اِس عظیم
نبی پر جُھوٹ بولنے کا بُہتان لگانا اور اِس بُہتانِ عظیم کو سَچ کے طور پر
پھیلانا ھے ، اِس موضوع کے ضمنی موضوعات میں ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت ،
سارہ کی اسیری و رہائی اور رہائی کے ساتھ ہدیہِ شاہی کے طور پر آنے والی
ایک خاتون ہاجرہ ھے لیکن امام بخاری کے اِس سلسلہِ کلام کا حیرت ناک پہلُو
یہ ھے کہ امام بخاری نے اپنی کتابِ بخاری میں ابراہیم علیہ السلام سے
منسُوب کیۓ گۓ اِس جُھوٹ کا بارہ بار ، جابر بادشاہ کا چار بار اور بی بی
سارہ کا بھی چار بار ذکر کیا ھے لیکن اسماعیل کی والدہ "ہاجرہ" کا نام
1جابر 2 کافر 3 آجر اور 4 فاجر وغیرہ کے چار قافیوں میں چُھپاکر ہاۓ ھوز کے
بغیر "ھاجر" لاۓ ہیں تاکہ جابر ، آجر اور فاجر وغیرہ کا اَصل مفہوم تقیے کی
چَھتری تلے چُھپ جاۓ ، اگر وہ { فاعطاھا اجرھا ھاجرة فاخدمھا ھاجرة واخدمنی
ھاجرہ } کے الفاظ لاتے تو آجر کا اجر اور تبرٰی کا یہ تَبر ظاہر ہو جاتا ،
اِس لیۓ وہ اِس حقیقت کو تو چُھپا گۓ ہیں لیکن یہ بات بہر حال ظاہر ہوگئی
ھے کہ ہاجرہ کا کوئی حقیقی وجُود سرے سے موجُود ہہ نہیں ھے کیونکہ بخاری کے
اِس پُورے سلسلہِ کلام میں ہاجرہ کا کہیں ایک بار بھی نام نہیں آیا ھے
تاہَم چونکہ ھمارے یہ مُحترم امام محمد بن اسماعیل ، اسماعیل علیہ السلام
کی فرضی ماں ہاجرة کا نام لے کر اسماعیل علیہ السلام پر جو تَبرٰی کرنا
چاہتے تھے وہ بخاری کی کتاب حدیث الاَنبیاء کی حدیث نمبر 3358 اور کتاب
النکاح کی حدیث نمبر 5127 میں ابو ھریرہ کی زبان سے اِس طرح کیا ھے کہ {
قال ابوھریرة : فتلک اُمکم یابنی ماء السماء } یعنی سید ابو ھریرة نے کہا
ھے کہ ، یہ ھے تُمہاری ماں ؟ اے اُوپر سے آۓ ہوۓ پانی کی اَولاد ! یہی وہ
غلیظ زبان و بیان ھے اور یہی وہ مکروہ لب و لَہجہ ھے جس کی بنا پر ھم یہ
سمجھنے پر مجبور ہیں کہ اماموں کی اِن سب خرافات کا سبب انسانی سہو نہیں ھے
بلکہ اُن کی اِن سب خرافات کا سبب اُن کی قُرآن دُشمنی اور اسلام دُشمنی ھے
!!
|