#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ مَریم ، اٰیت 41 ازقلم
مولانا اخترکاشمیری
اٰیت و مفہومِ اٰیت !!
و
اذکر فی
الکتٰب ابراہیم
انہ کان صد یقا
نبیا 41
اے ھمارے کریم النفس ھادی ، ھمارے یقیں پرور عبد اور ھمارے صادق الوعد
رسُول ! ذکرِ زکریا و یحیٰ اور ذکرِ مَریم و مسیح کے بعد اَب اِس کتاب میں
اپنے جَدِ اَمجد ابراہیم کا ذکر بھی کردے جو ھمارا سچا نبی تھا !
مطالبِ اٰیت و مقاصدِ اٰیت !
موجُودہ اٰیت کے موجُودہ مضمون سے پہلے مضمون میں صدقِ ابراہیم علیہ السلام
کے خلاف کتابِ بائبل اور کتابِ بخاری کی جن دو معروف روایات کے دو معروف
حوالہ جات ھم نے نقل کیۓ ہیں اُن دو روایات میں سے بائبل کی روایت تو ھمارے
موضوع سے اِس لیۓ خارج ہو چکی ھے کہ بائبل کی وہ ایک روایت بائبل کے اُس
ایک مفہوم کے ساتھ بائبل کے اُس ایک مقام کے علاوہ بائبل کے کسی دُوسرے
مقام پر موجُود نہیں ھے لیکن جہاں تک بخاری کی مُحوّلہ بالا روایت کا تعلق
ھے تو امام بخاری نے اپنی وہ روایت اپنی بخاری کی کتاب البیوع و کتاب الھبہ
، کتاب حدیث الاَنبیاء و کتاب النکاح اور کتاب الاِکراہ میں بھی درج کی ھے
حالانکہ اُس روایت کے اَوّل و آخر تَنہا راوی سید ابو ھریرہ ہیں اور عقلِ
عام کے اصولِ عام کے مطابق ہر مُنفرد روایت کے مُنفرد راوی کے اَلفاظِ
روایت بھی مُنفرد ہی ہوتے ہیں مُختلف نہیں ہوتے ہیں اور اگر مُختلف و متضاد
ہوتے ہیں تو ثقاہت کے حامل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ثقاہت سے خارج ہوتے ہیں ،
کتابِ بخاری کی اِس معروف حدیث کا نفسِ موضوع "لم یکذب ابراہیم الّا ثلاث
کذبات " ھے جس میں آخر سے تیسرا لفظ حرفِ اِستثنا "اِلّا" ھے جس کے مطابق
بخاری کی اِس حدیث کا ظاہری مفہوم تو یہ ھے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی
ساری زندگی میں صرف تین بار تین جُھوٹ بولے ہیں تین سے زیادہ جُھوٹ نہیں
بولے ہیں لیکن حرفِ "اِلّا" کے اِس استثنا کے مطابق اِس حدیث کا باطنی
مفہوم یہ ھے کہ ویسے تو ابراہیم علیہ السلام کی ذات کے ساتھ بہت سارے جُھوٹ
منسُوب ہوۓ ہیں اور بہت سارے جُھوٹ منسُوب کیۓ گئے ہیں لیکن وہ سارے جُھوٹ
نبی علیہ السلام کی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہیں بلکہ نبی علیہ السلام کی
حدیث سے اُن کے وہی تین جُھوٹ ثابت ہوۓ ہیں جن کو امام بخاری نے اپنی کتابِ
بخاری میں بیان کر دیا ھے اور امام بخاری نے اپنی کتابِ بخاری میں ابراہیم
علیہ السلام کے تین بار جُھوٹ بولنے کا جن تین مقامات پر ذکر کیا ھے اُن
میں سے پہلا مقام وہی حدیث ھے جس حدیث کا سید ابو ھریرہ کے حوالے سے ذکر
کیا جاچکا ھے ، اِس توجہ طلب تمہید کے بعد ھم جس توجہ طلب اصول کا ذکر کرنا
چاہتے ہیں وہ یہ ھے کہ ہر کلام کی غرض و غایت اُس کلام کے موضوع و اَجزاۓ
موضوع سے ظاہر ہوتی ھے اِس لیۓ امام بخاری نے ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت
، سیدہ سارہ کی شاہی دربار میں پیشی اور پیشی کے بعد ایک کمسن کنیز کے
ہَمراہ واپسی کی کہانی کو بخاری کی کتاب البیوع میں شامل کیا ھے جس سے یہ
ظاہر کرنا مقصود ھے کہ یہ کوئی اغوابالجبر کا معاملہ نہیں تھا بلکہ معاشرتی
لین دین کا ایک معاشرتی معاملہ تھا جو بائع اور مُشتری کی باہمی رضامندی سے
مُمتد ہوا تھا اور بائع و مُشتری کی باہمی رضامندی پر ہی مُنتج بھی ہوا تھا
اور جو اُس حدیثِ عائشہ کے مطابق اُس زمانے کا ایک قومی راج و رواج تھا جس
حدیث کا ذکر اِس مضمون میں آگے آۓ گا لیکن امام بخاری چونکہ اپنے خیال میں
قائم کیۓ گۓ بائع اور مُشتری کے اِس معاشرتی معاھدے کی بات سیدھے سبھاؤ
نہیں کہہ سکتے تھے اِس لیۓ اُنہوں نے مُحوّلہ بالا حدیث میں "سَجعِ
مُتوازن" کا سہارا لیا ھے اور اِس سَجعِ مُتوازن کا سہارا لے کر اِس حدیث
کے متنِ حدیث کی دُوسری سطر کا آخری لفظ "ھاجر" چوبیسویں سطر کا پہلا لفظ
"آجر" اور پچیسویں سطر کا آخر سے پہلا لفظ "کافر" لاۓ ہیں جس میں ھاجر سے
مُراد ابراہیم علیہ السلام ہیں ، کافر سے مُراد بادشاہ ھے جس کی صفت آجر ھے
اور شاید یہ بتانے کی ضروت نہیں ھے کہ "آجر" اُس شخص کو کہا جاتا ھے جو ایک
طے شُدہ ایک معاھدے کے تحت کسی سے ایک طے شُدہ کام لیتا ھے اور اُس طے شُدہ
کام کا اُس شخص کو ایک طے شُدہ معاوضہ دیتا ھے ، امام بخاری اسی لفظ کو
نسبتاً اختصار کے ساتھ اپنی کتابِ بخاری کی کتاب الھبہ میں بھی لاۓ ہیں جس
میں اُنہوں نے اپنے خیال میں چُھپے ہوۓ اِس مفہوم کو اِن الفاظ میں بیان
کیا ھے کہ { عن ابی ھریرة ، ان رسول اللہ ، قال : ھاجر ابراہیم بسارة
فاعطوھا اٰجر فرجعت ، فقالت : اشعرت ان اللہ کبت الکافر واخدم ولیدہ ، یعنی
ابو ھریرہ سے مروی ھے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ ابراہیم نے سارہ کے
ہمراہ ہجرت کی ، ھاجرہ کو بادشاہ سے اُجرت ملی اور اُنہوں نے واپس آکر
ابراہیم علیہ السلام سے کہا ، سمجھ لیں کہ اللہ تعالٰی نے کافر کو مُنہ کے
بل گرا دیا ھے اور ہمیں خدمت کے لیۓ ایک بچی دے بھی دی ھے ، بخاری کی اِس
حدیث کے بارے میں ھم نے جو تین باتیں کہنی ہیں اُن میں پہلی بات اِس اَمر
کی یاد دھانی ھے کہ امام بخاری پہلی حدیث میں"سَجعِ مُتوازن" کے طور پر
ھاجر ، آجر اور کافر کے جو الفاظ دُور دُور رکھ کر لاۓ تھے اِس حدیث میں وہ
اِن سارے الفاظ کو قریب تر کرکے لاۓ ہیں اور اِس کے بعد جیسے جیسے دُوسرے
مقامات پر اُن کی درج کی گئی دیگر احادیث سامنے آئیں گی ویسے ہی ویسے اِن
الفاظ کا معمہ بھی حل ہوتا چلاۓ گا ، دُوسری بات ھم نے یہ کہنی ھے کہ امام
بخاری نے اپنی جس حدیثِ مُفصل کو دُوسرے مقام کے لیۓ ایک مُجمل حدیث بنایا
ھے اِس مقام پر اِس مُجمل حدیث کو ایک نۓ معنی اور ایک نۓ اُفق کا حامل
بنادیا ھے ، ھاجر واحد مذکر غائب کا صیغہ ھے جس کا معنٰی جُدا ہونا ھے ،
ہجرت کرکے اپنے وطن سے جُدا ہونے والے کو بھی اسی معنوی مُناسبت سے مُھاجر
کہا جاتا ھے کہ وہ اِس ہجرت کے باعث اپنے وطن سے دُور ہو جاتا ھے ، اِس
حدیث میں دُوسرا حرف "ب" ھے جو "مع" کا معنٰی حاصل کرنے کے لیۓ اسمِ سارہ
کے ساتھ جوڑ کر "ھاجرابراہیم مع سارہ" کے بجاۓ "ھاجرابراہیم بسارہ" بنیایا
گیا ھے جو غیر فصیح ھے لیکن "مع" کو ترک اِس لیۓ کیا گیا ھے کہ "مع" میں
معیت کا معنٰی متعین ھے اور "ب" کو اِس لیۓ "مع" کی جگہ پر لایا گیا ھے کہ
"ب" حرفِ عَن ، حرف مِن اور حرفِ الٰی کی جگہ بھی لے لیتا ھے اور اِن کی
جگہ لے کر وہ "ساتھ" کے بجاۓ "سے" کا معنٰی دیتا ھے ، اسی حدیث میں ایسا ہی
ایک لفظ "اَجر" ھے جس کی جمع "اُجور" ھے جس کو قُرآنِ کریم نے طلاق یافتہ
عورت کے حق مہر کے لیۓ استعمال کیا ھے اور جس سے اِس کا معنٰی طلاق مُتعین
ہو گیا ھے اور قُرآن کے اِس مُتعین مفہوم کے مطابق اِس حدیث کے درجِ ذیل
الفاظ کا ترجمہ درجِ ذیل ھے { ھاجر ابراہیم بسارة فاعطوھا اٰجر فرجعت ،
فقالت : اشعرت ان اللہ کبت الکافر واخدم ولیدة } ابراہیم سارہ سے جُدا ہو
گیا اور اِس کا حق اُس کو دے دیا ، پھر جب وہ لوٹ کر ابراہیم کے پاس آئی تو
اُس نے کہا آپ یوں سمجھیں کہ کافر کو اللہ نے مُنہ کے بل گرادیا ھے اور
ہمیں خدمت کے لیۓ یہ بچی بھی مل گئی ھے اور اِس حدیث کے بارے میں ھم نے
تیسری بات یہ کہنی ھے کہ امام بخاری نے اِس حدیث کو ارادتاً اِس مفہوم و
معنی کا حامل بنایا ھے اور اِس مقام پر اِس مہفہوم سے ابتدائی طور پر وہ جو
مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ حاصل کر چکے ہیں اور اُس مقصد کی تفصیل آگے
آۓ گی ، امام بخاری { لم یکذب ابراھیم الا ثلاث کذبات } والی یہی حدیث
بخاری کی کتاب "حدیث الاَنبیاء" میں بھی لاۓ ہیں ، حدیث الاَنبیاء کا معنٰی
ھے "اَنبیاء کی باتیں" اور اِس عنوان کے تحت آنے والی کسی بات کے بارے میں
کوئی انسان جُھوٹ کا تصور بھی نہیں کر سکتا لیکن اِس عنوان کے تحت جب کسی
نبی پر جُھوٹ کا کوئی بُہتان باندھا جاتا ھے تو وہ محض ایک بُہتان نہیں
ہوتا بلکہ ایک گہرا طنز بھی ہوتا ھے جس میں کہنے والا یہ کہہ رہا ہوتا ھے
کہ یہ ہیں تُمہارے نبی ، یہ ہیں تُمہارے نبیوں کی جُھوٹی باتیں اور یہ ھے
تُمھارے نبیوں کا جُھوٹا کردار { نعوذ باللہ من ذٰلک } امام بخاری نے حدیث
الاَنبیاء کے اِس ایمان افروز عنوان کے زیرِ عنوان ابراھیم علیہ السلام کے
پہلے ایک نام نہاد جُھوٹ کے بعد اَب جو مزید دو جُھوٹ آپ کی ذات سے منسُوب
کیۓ ہیں اُن پر وہ قُرآنِ کریم کی دو اٰیات بھی لاۓ ہیں اور اِس دعوے اور
اِس عنوان کے ساتھ لاۓ ہیں کہ { ثنتین منھن فی ذات اللہ عز و جل } یعنی
ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کی عظیم ذات کے بارے میں دو جُھوٹ بولے
ہیں اور اِس دعوے اور اِس عنوان سے اُنہوں نے یہ پیغام دیا ھے کہ اللہ
تعالٰی کے نبی اور تو اور خود اللہ تعالٰی کے بارے میں بھی بیدریغ جُھوٹ
بولتے ہیں ، اِس لیۓ یا تو کسی نبی کا نبوت کا دعوٰی اِس کے سچے ہونے کی
دلیل نہ سمجھا جاۓ اور یا پھر یہ بات درست نہ سمجھی جاۓ کہ نبی جُھوٹ نہیں
بولتے ، امام بخاری کے ابراھیم علیہ السلام پر لگاۓ ہوۓ پہلے جُھوٹے بُہتان
کا پہلا حوالہ ھم پہلے نقل کر چکے ہیں اور دُوسرے جُھوٹ کے بارے میں وہ
ابراھیم علیہ السلام کا جو قول { انی سقیم } لاۓ ہیں وہ قُرآنِ کریم میں
محفوظ ھے لیکن "سقیم" کے اس قُرآنی لفظ سے ابراہیم علیہ السلام پر لگاۓ گۓ
اپنے جُھوٹ کے بُہتانِ عظیم کو سچ ثابت کرنے کے لیۓ پہلے تو اُنہوں نے
"سقیم" کا معنٰی بیمار مُتعین کیا ھے اور پھر اِس کی یہ بیمار تفسیر وضع کی
ھے کہ ابراھیم علیہ السلام کی قوم نے ابراھیم علیہ السلام کو اپنے قومی
تہوار کے دن قومی تہوار میں شرکت کی دعوت دی تھی اور اُنہوں نے کہا تھا کہ
میں بیمار ہوں حالانکہ وہ بیمار نہیں تھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ قُرآنِ کریم
نے سُورةالصٰفٰت کی اٰیت 88 و 89 میں اِس "سقیم" کی جو تفصیل بیان کی ھے وہ
یہ ھے کہ ایک روز ابراھیم علیہ السلام اپنی قوم کے اُن تاروں کا اِس غرض سے
جائزہ لے رھے تھے کہ آخر اِن تاروں میں اِس احمق قوم کو ایسا کیا نظر آتا
ھے کہ وہ اُن کی پرستش کرتے ہیں اور ابراھیم علیہ السلام دیر تک اِن تاروں
کا جائزہ لینے کے بعد بولے کہ میں تو اِن تاروں کو دیکھتے ہوۓ اَب تھک کر
نڈھال ہو گیا ہوں اور قُرآنِ کریم نے قصہِ یُونس علیہ السلام کے ضمن میں
سُورةُالصٰفٰت کی اٰیت 145 میں "سقیم" کا معنٰی نڈھال یہ بتا کر خود مُتعین
کیا ھے کہ { فنبذنٰہ بالعراء وھو سقیم } یعنی جب یُونس مَچھلی کے پیٹ سے
باہر آیا تو ھم نے اُس کو ایک چٹیل میدان میں ڈال دیا ، اِس حال میں کہ وہ
نڈھال و ناتواں ہو چکا تھا ، مقصد یہ ھے کہ قُرآنِ کریم کی قُرآنی لُغت کی
رُو سے "سقیم" کا معنٰی تھکا ہونا ، ناتواں ہونا اور نڈھال ہونا ھے ، بیمار
ہونا نہیں ھے ، اِس کا معنٰی بیمار ہونا وہی بیمار ذہن انسان کر سکتا ھے جس
کا دل اَنبیاۓ کرام کے بُغض سے بالعموم اور ابراھیم علیہ السلام کے بُغض سے
بالخصوص بھرا ہوا ہو !!
|