نئی دہلی سے ایران تک کا سفر

امام خمینیؒ کی ذات اور ان کی شخصیت پر اب تک جو کچھ لکھا گیا اور آئندہ جو کچھ لکھا جائے گا کم ہے اس لیے کہ دین و ملّت کے لیے ان کی خدمات ان کی قربانیاں لافانی ہیں جو قیامت تک کے لیے اہلِ اسلام کے لیے مشعل راہ ہیں۔

امام محترم نے اپنے کاز اپنے مقصد کے لیے اپنی جلا وطنی کے ابتدائی گیارہ مہینے ترکی میں بسر کیے۔ ا س کے بعد ایران کی شاہی حکومت نے آپ کو عراق جانے پر مجبور کردیا۔ آپ نجف اشرف میں قیام کے دوران ایران میں انقلابی سرگرمیوں کی مسلسل رہنمائی فرماتے رہے، لیکن عراقی حکومت کی طرف سے عاید پابندیوں کی وجہ سے آپ نے فرانس جانے کا فیصلہ کیا اور پیرس سے اسلامی انقلاب کی بھرپور قیادت کے فرائض انجام دیے۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی آگیا جب ایران میں آپ کی آمد کے ساتھ ڈھائی ہزار سالہ شاہی حکومت کا کام تمام ہوگیا۔آپ کی ایران واپسی پر لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر فرشِ راہ بنا ہوا تھا۔ دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کسی قائد کا ایسا استقبال ہوا ہو۔ مستند ذرائع کے مطابق کم از کم تیس لاکھ افراد اپنے محبوب لیڈر کے استقبال کے لیے جمع ہوئے تھے۔ آج بھی ایرانی عوام اسی جذبے اور احساس کے ساتھ اپنے قائد کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ ذیل کی عبارت ایڈیٹر’سائبان‘ اردو کا ایران کے سات روزہ دورے پر مبنی ہے جسے قارئین کے استفادے کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔

1979 میں عظیم الشان انقلاب اسلامی ایران نے رہبر عظیم الشان امام خمینی ؒ کی مثالی قیادت و رہنمائی میں کامیابی کی نہ صرف منزلیں ہی طے کرلیں بلکہ وہاں کے مظلوم و ستم رسیدہ ایرانی عوام، مکمل آزادی و استقلال کے ماحول میں ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں سرگرم بھی ہوگئے اور خداوند عالم کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ اب اسلام کے سایہ میں ایران نے عالمی سامراجی طاقتوں کی مہلک پابندیوں اور سازشوں کے باوجود نمایاں کامیابیاں حاصل کرلی ہیں جنھیں دیکھ کر ساری دنیا حیرت زدہ ہے اور اس حقیقت سے ناآشنا ہے کہ آخر اس بے بہا اور گراں قدر سرمایہ افتخار کی اصل وجہ کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے پیچھے ایران کے اولوالعزم عوام اور قائد عظیم المرتبت کی ناقابل فراموش قربانیاں ہیں جسے شاہی حکومت انقلاب کے ابتدائی دنوں میں ہی ملیا میٹ کردینا چاہتی تھی، اس کے لیے شاہی حکمراں وہ سب کچھ کر گزرنے پر آمادہ تھے جس سے شیطان بھی شرما جاتا ہے۔ اس نے 1963 میں قائد انقلاب کی گرفتاری کے بعد ا یرانی عوام کے وحشیانہ قتل عام کا بازار گرم کردیا اور دوسری طرف امام خمینیؒ کو جلا وطن کردیا تاکہ ایرانی عوام اصل قیادت و رہنمائی سے محروم ہوجائیں اور اس طرح اسلامی انقلاب کا قصہ ہی تمام ہوجائے لیکن باطل کایہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا اور دور جلا وطنی میں بھی امام خمینیؒ ایرانی عوام کی رہنمائی کرتے رہے اور انھوں نے ملک و ملت کی ایسی رہنمائی کی کہ آج دنیا کا ہر صاحب علم و شعور انسان ان کی قیادت کا لوہا ماننے پر مجبور ہے۔

ایران ہندوستان کے مقابلے میں بہت چھوٹا ملک ہے اور77,891,220 آبادی پر مشتمل یہ ملک معاشی اعتبار سے کئی دیگر ممالک سے کافی مضبوط ہے۔ یہاں پر حجاب کو عورتوں کے لیے لازم قرار دے دیا گیا ہے۔ نیز موجودہ صدر کے دور میں ایران نے ترقی کی بلندیاں چھورہی ہیں۔ یہاں پر اہل تشیع اور اہل سنت میں اختلاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور یہ دونوں مل کر بڑے بڑے پروگرام مجمع بین المذہب اور آپسی اتحاد کے تحت کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اہل سنت کے مدارس تہران اور دیگر شہروں میں موجود ہیں تقریباً 35 فیصد اہل سنت ایران کے اندر ہیں اور آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ 20 سے زائد ارکان پارلیمنٹ بھی اہل سنت ہی ہیں جو صرف ایران کی ترقی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایران مسلم ممالک میں ایک مضبوط ملک بن کر اُبھررہا ہے ، معاشی حالات بھی کافی بہتر ہوئے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ آج امریکہ کا چین و سکون اور نیند اڑانے والا اگر کوئی ملک ہے تو وہ صرف اور صرف ایران کا نام ہی اول اور آخر کے طور پر لیا جائے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل جو امریکہ کی ناجائز اولادہے اسے مستقل خطرہ ایران سے ہی رہتا ہے ۔ اس لیے یہ دونوں ایران کو دھمکیاں دے کر ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایران کو دیکھے بغیرصحیح طریقے سے اس کی طاقت اور اسلام کا صحیح معنوں میں بنیادی concept کیا ہے سمجھ پانا بہت مشکل ہے، علاوہ ازیں اس پر چلنے والے اگر صحیح و ثابت قدمی سے اسلام کے ضابطہ حیات کو بروئے کار بنائیں تو کتنی ترقی ہوسکتی ہے اور کتنا سرخرو ہو سکتا ہے۔ اس کا نظارہ ایران کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد ہی میں نے محسوس کیا ہے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ سعادت مجھے میسر ہوپائی ۔ اس سال ہندوستان سے جو ڈیلی گیشن ایرانی حکومت کی خصوصی دعوت پر یعنی انقلاب رہنما آیت اللہ خمینیؒ مرحوم کی 22 ویں برسی کے موقع پر ایران کی راجدھانی تہران میں ایک خاص پروگرام میں شرکت کے لیے گیا تھا ان خوش نصیبوں میں راقم بھی شامل تھا۔

پروگرام چوں کہ 2 جون 2011 سے ہی شروع ہوجاتا ہے لیکن یہاں سے ہم لوگوں کی فلائٹ ڈائریکٹ دہلی سے تہران نہ ہونے کی وجہ سے ممبئی ہوکر جانا پڑا ۔ یوں بھی دہلی سے ہفتے میں صرف ایک دن ہی فلائٹ ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو ایران کلچرل ہاﺅس سے جو ٹکٹ دیا گیا وہ ممبئی سے ایران ایئر لائنز کا تھا جو 3جون 2011 کو صبح گیارہ بجے کی تھی۔ ہندوستان سے جو ڈیلی گیشن جارہا تھا ان میں دہلی کے چار افراد تھے جن میں سینئر صحافی محمد احمد کاظمی، سید یوسف علی نقوی، سید افتخار احسن حسینی اور میں(جاوید رحمانی) ۔ ہم سب کو ممبئی انٹر نیشنل ایئرپورٹ پر صبح 9 بجے تک ہر حال میںپہنچنا تھا۔ لہٰذا سب نے اپنی اپنی سہولت کے حساب سے جس کو جس ڈومیسٹک ایئرلائنز کا ٹکٹ دستیاب ہوسکا وہ اپنے اپنے طریقے سے گئے ۔ مجھے جیٹ ایئرویز کا ٹکٹ مل گیا جو دہلی بین الاقوامی ہوائی اڈے سے صبح 6:55 منٹ پر جاتی ہے۔ لہٰذا میں وقت پر ممبئی پہنچ گیا اوروہاں تمام ساتھیوں سے ایئرپورٹ پر ملاقات ہوگئی۔ اس طرح سے یہ ہمارے ایران کے سفر کا گویا پہلا پڑاﺅ تھا لیکن میری زندگی کا یہ پہلا بیرونی سفر تھا جو نہایت ہی پرجوش اور پر امیدرہا۔میرے ذہن میں نہ جانے کتنے خیالات رونما ہوتے رہے اور میں خوش بھی تھا کم ا ز کم مجھے ایران جیسے انقلابی اسلامی جمہوری ملک کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع نصیب ہوا یہ میرے لیے نہایت خوشی کا مقام ہے۔ ممبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے تہران کا سفر تقریباً 4 گھنٹے پر مشتمل ہے گویا اس طرح سے ہم لوگ امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ تہران میں وہاں کے وقت کے مطابق 5 بجے پہنچے۔ باہر نکلتے ہی وہاں میزبان کے طور پرحکومت کے ذمے داران ہمارا استقبال کرنے کے لیے موجود تھے۔ وہیں ایئرپورٹ پر ہمارے کچھ ساتھیوں نے تصویر یں لی اس کے بعد ہمارے لیے باہر لگژری بسوں کا انتظام تھا ہوٹل تک لے جانے کے لیے ۔ ہم لوگ ہوٹل کا سفر طے کرنے لگے غالباً ایئرپورٹ سے پرشین انقلاب ہوٹل جہاں ہم لوگوں کو ٹھہرایا گیا تھا جو کہ 60 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس فاصلے کو ایک گھنٹہ 15 منٹ میں کیا۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل کے درمیان سڑکوں پر بہت ہی خوبصورت اور دلکش نظارہ تھا جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ نہایت خوبصورت اور سلیقے سے اس طرح پیڑ پودے سجے ہوئے تھے کہ جیسے کسی خاص موقع کے لیے شہر کو سجایا گیا ہو ہمارے ساتھی محمد احمد کاظمی صاحب نے بتایا کہ یہ منظر کوئی خاص موقع کے لیے نہیں ہے بلکہ آپ کو یہ مناظر ہمیشہ ہی دیکھنے کو ملیں گے اور آپ تہران میں کہیں بھی جائیں ہر جانب اسی طرح کے دلکش اور دل آویز مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ کاظمی صاحب کا غالباً ایران کا یہ دورہ 25واں تھا اس لیے جتنا قریب سے انھوں نے دیکھا اور محسوس کیا ہے وہ ہم میں سب سے بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ پرشین انقلاب ہوٹل پہنچنے کے بعد وہاں ہم لوگوں کو دو دو آدمی پر مشتمل ہوٹل میں کمرے کی چابی دی گئی اور کہا گیا کہ آپ لوگ طے کرلیں کہ آپ کے ساتھ دوسرے ساتھی آپ کے کون ہوں گے۔ میرے ساتھ گجرات کے یوسف گوہری صاحب تھے وہ وہاں اسلامک آرٹ پر کام کررہے ہیں اور اسلامی آرٹ گیلری پر اچھا خاصا ذخیرہ بھی جمع کرلیا ہے وہ ہمارے روم پارٹنر ہوگئے۔ اس دن ہم لوگوں نے سفر کی تھکان ہونے کی وجہ سے صرف آرام کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ پرشین انقلاب ہوٹل چار اسٹار سہولیات پر محیط ہے۔ لہٰذا کھانے کا نظم بھی بہتر تھا۔4 جون 2011 کو تہران کے جنوب میں واقع آیت اللہ خمینیؒ کے مقبرے پر ایران کے مختلف شہروں اور قصبوں سے لاکھوں کی تعداد میں افراد جمع تھے۔ اس تاریخی موقع پر غیر ملکی مہمانان بھی ہزاروں کی تعداد میں آئے تھے۔ مقامی لوگ بڑی تعداد میں پیدل سفر کرکے شہر کے دور دراز علاقے سے مرحوم رہنما کو خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے۔ کئی میل کے دائرے میں دور تک مردو خواتین ، بوڑھے، جوان اور بچے نظر آرہے تھے۔ اس موقع پر سب سے اہم تقریر اسلامی انقلاب کے مذہبی رہنما آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی تھی۔قابل غور بات یہ ہے کہ اس موقع پر غیر معمولی تعداد میں نوجوان موجود تھے اور اپنے رہنما کی تقریر کو بڑی خاموشی و یکسوئی سے سن رہے تھے۔ لاکھوں کے مجمع میں ایسا لگ رہا تھا Pin drop silent جیسا ماحول ہو۔ کم از کم میں نے اتنا بڑا مجمع اپنی آنکھوں سے زندگی میں پہلی بار دیکھا ہوگا۔ اس مجمع کی بڑی خوبی یہ تھی کہ کہیں سے بھی کسی بدنظمی یا ہنگامے کا منظر دیکھنے کو نہیں ملا۔ اپنے مذہبی رہنما کی آواز میں لبیک کے ساتھ زوردار ان کی تقریر کی تائید کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔ درمیان میں کئی بار امریکہ بدبخت، اسرائیل بدبخت کے نعرے بھی سنے گئے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنی تقریر میں کہا کہ خداوند عالم کا ارادہ یہ ہے کہ ایسی صدی میں جہاں جملہ عوامل، اسلام دشمنی میں ہمہ تن سرگرم ہیں، اسلام کی حاکمیت کو ایک عظیم تحفہ الٰہی کی حیثیت سے محفوظ رکھے اور لوگوں کو اسلامی رسالت کے سرمایہ سے پوری طرح مالا مال کردے اور یہ ثابت کردے کہ جملہ وسائل و امکانات مثلاً دولت، طاقت، اسلحہ ، سیاست اور جاسوسی کے جدید ترین آلات سے آراستہ ہوتے ہوئے بھی، اسلامی تحریک کے سا منے دشمن کا مکرو فریب پوری طرح کمزور اور ناتواں ہے۔وہاں موجود مجمع میں تو مجھے ہر شخص ہی غیر معمولی انقلابی حوصلے سے مالا مال دکھائی دے رہاتھا۔ بڑے شہروں اور دور افتادہ دیہاتی علاقے کے لوگوں کے حوصلے و احساس میں غیر معمولی یکسانیت بھی دیکھنے کو ملی ۔

واضح رہے کہ آیت اللہ خامنہ ای ایران کے صدر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے کہا امام خمینیؒ نے ہمیشہ سماج کے کمزور اور پسماندہ لوگوں کی طرف زیادہ توجہ دیا کیوں کہ خداوند عالم نے انھیں مسند اقتدار عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے دنیا کے دیگر ماہرین سیاست کی راہ وروش کے برعکس امام خمینی نے اپنے قول و عمل سے یہ ثابت کردیا کہ نہ صرف یہ کہ وہ اس طبقے کو بے حد عزیز رکھتے تھے بلکہ انھیں لوگوں کی طرح سادہ زندگی بھی بسر کرنے میں خود کو پیش پیش رکھا۔

آگے پروگرام کے بارے میں ایک روز پہلے ہی تمام مندوبین سے کہہ دیا گیاتھا کہ 5جون کو صبح 9 بجے ڈومیسٹک ایئرپورٹ سے مشہد جہاز سے جانا ہے۔ وہاں آٹھویں امام کا روضہ ہے ۔ گویا ہم لوگوں کو ہوٹل سے چارٹرڈ بسوں میں مع پولس قافلے کے ساتھ ایئرپورٹ صبح 8 بجے پہنچا یا گیا جہاں مقررہ وقت پر یعنی فلائٹ پرواز کے بعد لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے بعد مشہد پہنچنے کے لیے مہرآباد ایئرپورٹ میں ہم لوگ 10.30 بجے پہنچ گئے۔ وہاں سے 8ویں امام کے روضے کی زیارت کے لیے بھی اسی طرح چارٹرڈ بسوں کا انتظام کیا گیا تھا اور تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہم لوگ امام کے روضے پر پہنچ گئے اور وہاں پہنچتے ہی فوراً ہم لوگوں نے وضو کیا۔ اس کے بعد ہلکا ناشتہ اور کولڈ ڈرنک پینے کے بعد ہم لوگوں سے کہا گیا کہ 2.30بجے ظہر کی نماز ہوگی اس سے قبل آپ کے کھانے کا نظم کیاگیا ہے جو 1.30 بجے کھانے کا وقت بتایا گیا۔ ہم لوگوں کو اسی روضے کی چہار دیواری سے متصل عمارت میں لے جایا گیا اور وہاں نہایت ہی سلیقے سے تمام مہمانوں کے کھانے کے میزیں لگی ہوئی تھیں جہاں اس کا لحاظ رکھا گیا تھا کہ خواتین ومرد دونوں ہی کا علیحدہ علیحدہ انتظام تھا۔ اس کھانے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ کھانا صرف اور صرف باہر سے آنے والے مہمانوں کو ہی نصیب ہوتا ہے جس کے لیے شرط ہے پاسپورٹ ہولڈر ہونا۔ لہٰذا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنا اہم اورکتنا متبرک کھانا ہوتا ہے جو صرف اور صرف بیرونی ملکوں کے مہمانوں کے لیے ہی ہوتا ہے۔ جب ہم لوگوں کو کھانے کے لیے لے جایا گیا تو وہاں راستے میں دونوں جانب بڑی تعداد میں مقامی افراد کی بھیڑ جمع تھی جب ہم نے وہاں کسی سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو یہ امید لگائے ہوئے ہوتے ہیں کہ مہمانوں کے کھانے کے بعد بچا ہوا کھانا تبرکاً وہاں حاصل کرنے کے لیے قطار میں ہوتے ہیں۔یقیناً اس کھانے کی برکت اتنی ہے کہ کوئی بھی شخص پورا کھانا نہیں کھاسکتا ہے لہٰذا میرے ساتھ بھی وہی ہوا ۔ پوری طرح شکم سیر ہونے کے بعد بھی کھانا بچ گیا ، اس کھانے کو ہم نے تقریباً تین پلاتھن میں تین جگہ کرنے کے بعد باہر نکلے، قطار میں موجود افراد جو پہلے سے ہی منتظر تھے انھوںنے لپکتے ہوئے کھانا لے لیا۔ یہ منظر واقعی دیکھنے کا تھا۔

آٹھویں امام علی رضا ہیں ان کا روضہ ہزاروں میل میں پھیلا ہوا ہے۔ اس درمیان تمام مندوبین کو ایک کاغذ کا سلپ دیاگیا کہ راستہ بھولنے کی حالت میں یہ سلپ دکھائیں گے تو آپ کو صحیح مقام پر پہنچا دیاجائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روضے میں جتنے دروازے ہیں سبھی ایک ہی ڈیزائن کے ہیں اس لیے یہ پہچان پانا کہ کون سے دروازے سے داخل ہوا تھا یا کس دروازے سے باہر جانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اس طرح ہم لوگ امام کے روضے کی زیارت کے لیے پہنچے تو وہاں زائرین کی بڑی تعداد پہلے سے ہی موجود ہوتی ہے ۔ ہم لوگوں کے لیے اس جگہ تک پہنچنا بڑا ہی مشکل مرحلہ سے گزرنا تھا ۔ پھر بھی کافی تگ و دو اور محنت و مشقت کے بعد اس روضے کو ہاتھوں سے چومنے کی سعادت نصیب ہوگئی۔ اس طرح وہاں سے پھر تمام مہمانوں کو مشہد شہر میں ہی قریب کسی ہوٹل میں آرام کے لیے جانا تھا۔ گویا تمام لوگوں کو بس کے لیے ساڑھے تین بجے یکجا ہونا تھا پھر ہم لوگوں کے آٹھویں امام کے روضے سے تقریباً 20 کلومیٹر کی دوری کے بعد ایک ہوٹل میں اسی طرح سے تمام افراد دو دو افراد پر مشتمل کمرے کی چابی دی گئی کہ آپ یہاں ایک دو گھنٹے آرام کرلیں تاکہ سفر میں جو تھکان ہوئی ہے اس سے نجات مل سکے۔ مشہد سے واپسی بھی یعنی مہرآباد ایئرپورٹ سے فلائٹ کا وقت رات کے 9 بجے کا تھا لہٰذا ہم لوگوں کو ہوٹل سے پھر ایئرپورٹ تک معینہ وقت سے قبل لے جایا گیا جہاں سے ہم لوگ واپس تہران یعنی پرشین انقلاب ہوٹل رات کے 11 بجے پہنچ گئے۔ پھر ہم لوگوں نے کھانا کھایااور سب اپنے اپنے کمرے میں سونے چلے گئے۔ اس کے بعد اگلے دن ہم لوگوں کو قُم جانا تھا وہاں ساتویں امام کا روضہ ہے اس کی زیارت کے لیے ہم لوگ ذاتی طور پر فرداً فرداً اپنی سہولت کے حساب سے پہنچے۔ قُم کی اپنی تاریخی حیثیت ہے۔ تہران جائیں اور قُم نہیں جائیں تو سمجھئے آپ کا سفر ادھورا رہا۔گویا قُم کے لیے بھی پورا ایک دن درکار ہوتا ہے وہ بھی اس لیے جہاں ہم لوگ ٹھہرے ہوئے تھے وہ جگہ ولی عصر کہلاتا ہے اور وہاں طالغانی اسٹیشن ہے جہاں سے انڈرگراﺅنڈ میٹرو کی سہولیات ہے اس لیے طالغانی میٹرواسٹیشن پر ہم لوگ ترمنل جنوب اسٹیشن پر اتر کر پھر وہاں ٹیکسی لے کر یعنی ترمنل جنوبی سے قُم کی دوری 120 کلومیٹر کی ہے ۔ ٹیکسی والوں نے ہم لوگوں سے ایرانی کرنسی پانچ ہزار تومان فی کس آدمی چارج کیا ۔ واضح رہے کہ ہندوستان کا ایک روپیہ ایران کے پچیس روپئے کے برابر ہے۔ اس لیے پورا دن ہم لوگوں کا یہیں صرف ہوگیا اور واپسی رات کے آٹھ بجے ہوئی۔اس کے بعد ہمارے کچھ ساتھیوں نے شاہ پیلیس جانے کی خواہش کا اظہار کیا شاہ یعنی رضا شاہ پہلوی جو انقلاب اسلامی سے قبل وہاں کا بادشاہ تھا جس کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ اسے دنیا کا بڑا مکاّر عوامی دشمن اور عیش پرست بادشاہ کا لقب دیا جاچکا ہے۔ انقلاب کے بعد ایرانی حکومت نے اس کے محل کو میوزیم کی شکل بنادی ہے لیکن محل دیکھنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ رضا شاہ پہلوی کتنا جابرو مغرورو دنیا پرست بادشاہ تھا۔ زندگی کے وہ تمام عیش و عشرت اور جبرو تشدد کے اسلحہ جات محل میں موجود تھے اور بہ بانگ دہل کہہ رہے تھے کہ دیکھے مجھے وہ جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ شاہ اپنی رعایا کی دیکھ بھال کے بجائے صرف اپنی شاہانہ زندگی پر ہی دھیان دیتا تھا۔ شاہ کا محل دیکھنے کا اتفاق دودفعہ ہوا ایک بار ہمارے ساتھ محترمہ کنیز فاطمہ، زاہد منظر اور کشمیر کے سجاد حسین ساتھ تھے ۔ عین دو دن بعد ہمارے ساتھی محمد احمد کاظمی صاحب جنھیں ایران کا شاید ہی کوئی سرکاری افسرہو جو نہ جانتا ہو، اس طرح یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد تہران میں پائی جاتی ہے۔ ان کے کسی قریبی دوست نے دو دن کے لیے ڈرائیور کے ساتھ ان کے پاس اس لیے بھیج دی کہ آپ کے دیگر ساتھیوں نے ابھی تہران کی بہت سی تاریخی جگہوں کی زیارت نہیں کی ہے اس لیے ان کو اپنے ساتھ آپ زیارت کرادیں۔ دو دن تک الگ الگ ڈرائیور اور کار ہمہ وقت ہمارے ساتھ موجود تھے۔ مجھے معلوم ہوا کہ وہ ڈرائیور نہیں بلکہ بڑے آفیسر تھے جو کار کو چلا رہے تھے یہ صرف محمد احمد کاظمی کے دیرینہ مراسم کی وجہ سے ہی ہماری خاطر داری میں لگے ہوئے تھے۔ آخری دنوں میں کئی اور اہم مقامات کا دیدار نصیب ہوا۔ جس میں امام خمینیؓ کی آخری آرام گاہ جو اب میوزیم کی شکل میں ہے۔ آیت اللہ خمینیؒ بانی انقلاب تھے، بڑے متواضع حسن اخلاق کے پیکر اور ملنسار تھے ان کا مسکن تہران ہی میں موجود ہے جو تکلفات سے خالی بالکل سادہ ہے ان کا اہل ایران پر بہت بڑا احسان ہے۔ اکثر مساجد یا چوراہوں پر مزار کی دیواروں پر حکومت نے حضرت علامہ آیت اللہ خمینی کی اصلاح آمیز اقوال آویزاں اور تحریر کرائے ہیں، اس لیے اہل ایران حضرت والا کا بے حد عقیدت کے ساتھ احترام کرتے ہیں اور ان کے اقوال پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ امام خمینی کی آخری آرام گاہ کے دیدار کے بعدہم لوگ تجریش کے لیے روانہ ہوگئے۔ وہاں امام زادے صالح کا روضہ ہے۔

محمد احمد کاظمی صاحب کے ساتھ ہونے کی وجہ سے کم از کم جو ہمارے ساتھ زبان کی پریشانی یعنی فارسی سے کوسوں دور رہنے کی مجبوری تھی وہ کاظمی صاحب زبان کی ترجمانی کا کام بخوبی انجام دیتے رہے ، میں نے انھیں فارسی میں ایسے گفتگو کرتے ہوئے دیکھا کہ شاید ہی کوئی پہچان سکے کہ جناب ہندوستان سے تشریف لائے ہیں۔ بالکل فراٹّے کی زبان میں گفتگو کرتے تھے میں تو صرف شکل دیکھتا تھا چوں کہ یہ اندازِ گفتگو ہی ہمارے سروں سے اوپر گزر رہا تھا اس لیے موصوف بار بار اردو میں ترجمہ کر کرکے ہماری کسی بھی طرح کی بوریت سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہم سب بالخصوص میں محترم کاظمی صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں۔
Jawaid Rahmani
About the Author: Jawaid Rahmani Read More Articles by Jawaid Rahmani: 2 Articles with 1259 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.