شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت
میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک گدھ نے چیل سے کہا کہ دنیا میں مجھ سے زیادہ کسی
کی نظر تیز نہیں ہوگی ۔چیل نے کہا کہ ایسی ڈینگیں نہیں مارنی چاہئیں مجھے
تو یقین نہیں آتا کہ تیری نظر مجھ سے بھی زیادہ تیز ہوگی گدھ اترا کر بولا
کہ دیکھو گندم کا ایک دانہ زمین پر پڑا ہے کیاتو اسے دیکھ سکتی ہے ۔چیل
حیران ہوکر اس کامنہ تکنے لگی اور پھر کہنے لگی کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ تو
سچ کہہ رہاہے گدھ نے جھلا کر کہا کہ اس کا ثبوت پیش کرنا بھلا کون سا مشکل
کام ہے یہ کہہ کر اس نے اڑان بھری اور نظر کی تیزی کے گھمنڈ میں گندم کے
دانے پر جھپٹا وہاں کسی شکاری نے جال بچھا رکھا تھا گدھ اس میں پھنس کررہ
گیا اور اس کی ساری شیخی کرکری ہوگئی چیل نے اب چلا کر کہا کہ کم بخت گندم
کے اس دانے کو دیکھنے سے کیا فائدہ جب تجھے اتنا بڑا جال نظر نہ آیا اس پر
گدھ رو کر کہنے لگا کہ تقدیر کے آگے کوئی تدبیر کارگرنہیں ہوتی ۔۔
قارئین امریکہ بہادر اپنی پانچ آزادیوں او ر دنیا کی حکمرانی کیلئے تشکیل
دیئے جانے والے نیو ورلڈ آرڈر کے ذعم میں افغانستان آیا اس کیلئے اس نے
9/11کا بہانہ بنا کر اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے ساتھ طالبان کا ایک ہوا
کھڑا کیا یہ ہوا کھڑ ا کرنے کے بعد اس نے اپنی گدھ جیسی نگاہ سے افغانستان
کے قدرتی وسائل اور جغرافیائی اہمیت کو دیکھا لیکن اس جال کو دیکھنے سے
قاصر رہا کہ جو قدرت نے اس کیلئے یہاں بچھا رکھا تھا آج نیٹو میں شامل تمام
ممالک کی افواج انکل سام سمیت بری طرح پھنس چکی ہیں اور افغانستان سے انخلا
کیلئے بہانے تلاش کیے جارہے ہیں ان بہانوں میں سے ایک بہانہ اسامہ بن لادن
کی ایبٹ آباد آپریشن میں بقول امریکہ ہلاکت کے بعد پیدا ہوچکا ہے ایبٹ آباد
آپریشن دنیا بھر کے آزادمیڈیا کی نظر میں ہالی وڈ کی کسی فلم کے سٹنٹ کی
طرح پراسراراور نظر کا دھوکا قرارپایا ہے کیونکہ نہ تو میڈیا کے سامنے
اسامہ بن لادن کی لاش پیش کی گئی اور نہ ہی اس کی تصویریں ایشو کی گئیں حتی
ٰ کہ ایسا بھی ہوا کہ میڈیا کے اصرار کرنے پر یہ بیان جاری کردیا گیا کہ
اسامہ بن لادن کے جسد خاکی کو ”اسلامی اصولوں “کے مطابق رسومات اداکرنے کے
بعد سمندر کے حوالے کردیا گیا ہے ۔۔۔!
امریکہ بہادر کی یہ تمام کاروائیاں دراصل دام میں پھنسنے کے بعد شکنجے سے
نکلنے کی کوششوں کے مترادف ہے ۔
قارئین موضوع کے اگلے حصے کی طرف جب ہم آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جنرل
پرویز مشرف جو پاکستان کے آئین کو توڑ کر ملک میں غیر قانونی حکومت قائم
کیے بیٹھے تھے انہوںنے بقول میڈیا ایک امریکی دھمکی کے بعد گھٹنے ٹیک دیئے
اور پاکستان کے قومی مفاد اور غیرت کو امریکہ کے سامنے سرنڈر کردیا حالات
اس وقت سے لے اب تک اس درجہ خراب ہوچکے ہیں کہ کوئی دن ایسا خالی نہیں
جاتاکہ جب پاکستان کے کسی نہ کسی شہر میں خود کش دھماکے ،فائرنگ اور دہشت
گردی کی وار داد نہ ہوتی ہو اب تک چالیس ہزار کے غریب پاکستانی شہری اور
پانچ ہزار پاکستانی فوجی امریکہ کے مفاد کیلئے چھیڑی جانے والی ایک بے مقصد
جنگ کی نظر ہوچکے ہیں جنرل پرویز مشرف نے ڈالزر کے لالچ میں سینکڑوں نہیں
بلکہ ہزاروں پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا بلوچستان میں نواب اکبر
بگٹی کے ماورا ئے عدالت قتل سے لے کر سینکڑوں بلوچی نوجوانوں کی گمشدگی سے
وہ آگ بھڑکی ہے کہ اس وقت پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ آگ
میں جل رہا ہے اور اس تمام کا ذمہ دار جنرل مشرف کی غلط پالیسیاں بنیں ۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ملک میں جمہوریت بحال ہونے کے بعد نئی حکومت ان
پالیسیوں کو تبدیل کرتی اور معصوم پاکستانیوں کے خون سے رنگین ان تمام
معاہدوں کو پھاڑ کر پھینک دیتی جو جنرل مشرف نے گدھ کی خصلت رکھنے والے
امریکہ کے ساتھ کیے لیکن بصد افسوس ایسا نہ ہوا بلکہ ”کیری لوگر بل “کے نام
پر امریکہ سے امداد حاصل کرنے کا ڈرامہ رچا کر امریکی ”ڈومور “کی خواہشات
پر پتلی تماشے کے ایک کردار کی طرح مسخرانہ رقص تیز سے تیز کردیا گیا آج
پاکستان کے قبائلی علاقے امریکی ڈرون حملوں کی زد میں ہیں ان حملوں میں
امریکہ غیر ملکی دہشت گردوں ،القاعدہ اور طالبان کو نشانہ بنانے کا دعوی ٰ
کرتا ہے لیکن آزادمیڈیا کی رپورٹس نے اس بات کا کھل کراظہار کردیا ہے کہ ان
حملوں میں مارے جانے والے 90فیصد سے زائد لوگ معصوم شہری ہیں جن میں بوڑھے
،بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں اس کے باوجود نہ تو ہماری ”جمہوری حکومت “ کے
کان پر کوئی جوں رینگ رہی ہے اور نہ ہی پانچ آزادیوں کاعلم اُٹھائے انسان
دوستی او ردنیا کے امن کی خاطر قسمیں کھانے والا باز آرہاہے رہی غریب
پاکستانی عوام تو وہ غالب کی زبان میں کہہ رہی ہے کہ
سادگی پر اُس کی مرجانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے باایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
رنجِ رہ کیوں کھینچئے ؟ واماندگی سے عشق ہے
اُٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منز ل میں ہے
جلوہ زارِ آتش ِ دوزخ ہمارا دل سہی
فتنہ ءشورِ قیامت کس کی آب وگل میں ہے
ہے دل ِ شوریدہ ءغالب طلسم ِ پیچ وتاب
رحم کر اپنی تمنا ّ پر ،کہ کس مشکل میں ہے
قارئین حسرتیں اور آرزوئیں اپنی جگہ پر اور حقائق اپنی جگہ پر ۔
اگر ہم موضوع کے اگلے حصے کی طرف چلیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کشمیر کہ جس کی
وجہ سے پاکستان دنیا کی ساتویں جوہری طاقت بنا ،آٹھویں بڑی فوج گزشتہ
63سالوں سے کھڑی کرکے ایک غریب ملک کے بجٹ کا بہت بڑا حصہ اُس کیلئے مختص
کیا اور جس کی وجہ سے دنیا کے ہر فورم پر اپنا کیس اخلاقی فتح کے ساتھ پیش
کیا اس کشمیر کو سابق ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے دور سے وہ بیک گیئر لگایا گیا کہ
پیچھے ہٹتے ہٹتے آج ہم کھائی کے کنارے پر کھڑے ہیں 26جون کو آزادکشمیر میں
ہونے والے الیکشن کے بعد برسراقتدار آنے والی حکومت آئندہ پانچ برسوں کے
دوران شنید ہے کہ بین الاقوامی کھلاڑیوں او ردنیا کی قیادت کا دعویٰ رکھنے
والوں کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا ”مستقل حل “کرنے والی ہے
آج افواج پاکستان بھارت کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر شدید ترین خطرات سے
دوچار ہیں اور اس کی وجہ امریکہ بہادر کی طرف سے افغانستان کے ساتھ ملنے
والے بارڈ ر پر اپنے ہی قبائلی بھائیوں کے ساتھ بے مقصد جنگ میں ملوث ہونا
ہے ہماری دعا ہے کہ ہمارے پالیسی ساز ان بین الاقوامی سازشوں کو سمجھیں اور
اس جال سے نکلنے کی کوشش کریں کیونکہ امریکہ کسی کا دوست نہیں ا س کی رفاقت
اور دوستی کامعیار اپنے مفادات سے شروع ہوتا ہے اور اپنے مفادات پر ختم
ہوتا ہے کشمیر پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے پاکستان ان نظروں کو نظرانداز نہ
کرے ۔۔۔
آخرمیں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک شرابی شراب خانے میں آکر ویٹر سے پوچھنے لگا کہ کیا میں کل یہاں پر
آیاتھا ؟
ویٹر نے کہا جی جناب آپ آئے تھے ۔
شرابی نے پوچھا کہ میں نے کل یہاں پر کتنی رقم خرچ کی تھی ۔
ویٹر نے کہا کہ جناب تقریباً چالیس ہزار روپے ۔
اس پر شرابی خوش ہوکر بولا شکریہ ،میں پریشان تھا کہ کہیں میں نے زیادہ رقم
تو خرچ نہیں کردی ۔۔۔
قارئین امریکہ سمجھ چکا ہے کہ اس نے افغانستان میں کافی زیادہ رقم خرچ کردی
ہے اب پاکستان کو چاہیے کہ عقل پر ہاتھ مارے اور سمجھنے کی کوشش کرے کہ ایک
بے وفا دشمن نما دوست یا دوست نما دشمن کی خاطر اس نے کیا کیا نقصانات
اٹھالیے ہیں اور اگر غلامی نما یہ دوستی جاری رکھی گئی تو مزید کیا کیا
قیمتیں اداکرنی پڑیں گی ۔۔۔؟ |