تنازعہ کشمیر کا فوری حل

شری کشن چندر کا قول ہے میں اس بھگت سے پیار کرتا ہوں جو کسی کی دل آزاری نہیں کرتا جو حسد ہٹ دھرمی انا اور تکبر سے پاک ہو۔پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی تقسیم برصغیر کی طبعی زندگی ہے۔ دونوں ہمسائیوں کے مابین جنگوں کشت و قتال اور باہمی رنجشوں کا عرصہ 64 سالوں پر محیط ہے۔ بھارت نے تقسیم ہند کے ابتدائی سالوں میں کشمیری کمیونٹی کی خواہشات کے برعکس وادی نظیر پر فوجی چڑھائی کردی۔یواین او نے ایک یادگار مگر بیکار اور ردی کی ٹوکری کی زینت بن جانیوالی قرارداد منظور کی اور بھارت کو پابند کیا کہ کشمیریوں کو انکا حق خود ارادیت واپس کیا جائے اور اہل کشمیر اپنی مرضی سے رائے شماری کے زریعے پاک و ہند کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے مگر وائے حسرت بھارت نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف جموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہہ کر کشمیریوں کی آزادی سلب کرلی اور جس نے آزادی کشمیر کا نعرہ لگایا وہ یا تو انڈین فورسز کے ہاتھوں مارا گیا یا پھر طویل عرصے کے لئے جیل کے وحشت ناک جبڑوں نے اسے نگل لیا۔ تحریک آزادی کشمیر میں ایک لاکھ کشمیری وطن کی آزادی کے لئے اسکی حرمت پر قربان ہوگئے۔تحریک آزادی کشمیر پوری جولانیوں سے جاری و ساری ہے۔پاکستان اور بھارت ابتدائے آفرینش سے ہی مسئلہ کشمیر کے کارن ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔دونوں نے چار مرتبہ جنگ کرنے کا شوق بھی پورا کرلیا ۔پاکستان اور بھارت میں آج تک ڈائیلاگ کے جو درجنوں راؤنڈ کھیلے گئے ان میں سے شملہ ایگری منٹ ایسا ڈائیلاگ تھا جس میں بھٹو نے اندرا گاندھی سے بغیر معافی تلافی 90 ہزار جنگی قیدیوں اور مغربی پاکستان کا 5 ہزار کلومیٹر کا مقبوضہ علاقہ واگزار کروایا۔پچھلی چار دہائیوں سے پاک بھارت مذاکرات کے درجنوں ادوار بانجھ پن کا نشانہ بنے رہے۔ایک درویش کا کہنا ہے کہ پاک بھارت ڈائیلاگ چوہے بلی کا کھیل بن چکا ہے اور کھیل بھی روکھا اور سوکھا ہوا جو کھیلنے کی حد تک تو بوریت کا خاتمہ کرسکتا ہو مگر ایسے کسی ڈائیلاگ سے بہتری اور آزادی کشمیر کے خواب دیکھنا دیوانے کی بڑ ہوگی۔پچھلے جمعہ کو پاک بھارت خارجہ سیکریٹریوں کے درمیان اسلام آباد میں دوروزہ مذاکراتی راؤنڈ ہوا۔ مذاکرات کے خاتمے پر مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا جو الفاظ کی جادو گری کے تناظر میں تو امید افزا ہوسکتا ہے تاہم حقیقی پیش رفت ناممکنات کا حصہ بن چکی ہے۔ فریقین نے تنازعہ کشمیر پر بامقصد بحث و تنقیص جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ ممبئی بم دھماکوں میں168 افراد کی ہلاکت کے بعد بھارت نے پاکستان کو دوشی ٹھرایا اور ہر قسمی تعلقات کا بوریا بستر گول کرڈالا۔ حالیہ مذاکرات سے یہ خوش فہمی قابل دید نظر آتی ہے کہ متنازعہ معاملات کی سلجھن کی خاطرprocess of peace کے سفر کا آغاز کیا جارہا ہو تاہم ایسی خوش گمانیوں سے زیادہ امیدیں رکھنا بذات خود خام خیالی کے زمرے میں آتا ہے۔پاک و ہند کے خارجہ سیکریٹریوں سلیمان بشیر اور نرپما راؤ نے میڈیا کو بتایا کہ ہم نے دو طرفہ تعلقات کی بحالی امن و سلامتی اور دہشت گردی کے موضوعات پر سیر حاصل بحث کی۔ مہمان وفد کے سربراہ نرپما راؤ نے بتایا کہ مذاکرات دوستانہ خوشگوار اور بے تکلف انداز میں شروع ہوئے مگر بھارتی سفارتکاروں کے طرز عمل اور انداز و اطوار نے اسکی نفی کردی۔نرپما راؤ نے کہا کہ وہ تنازع کشمیر پر بھی پاکستان کے ساتھ گفتگو کرنے کے لئے تیار ہیں مگر بندوق کا سایہ ہٹالیا جائے۔نرپما راؤ کا اشارہ بمبئی دہشت گردی کی جانب تھا جس میں168 لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس سانحہ دلخراش کے بعد نیو دہلی نے اسلام آباد کے ساتھ ہونے والے تمام مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیا۔پاکستان کی دو سالہ سفارتی کوششوں سے بھارتی رویوں میں لچک پیدا ہوئی اور یوں مذاکرات کا آغاز وہیں سے ہوا جہاں اسکی تان ٹوٹی تھی۔طرفین نے باوقار شائستہ اور دوستانہ طرز عمل سے ڈائیلاگ کے دوران یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ کس طرح پڑوسیوں کے ساتھ عقیدت رکھتے ہیں۔پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔جنوبی ایشیا پر ایٹمی جنگ کے سفاک بادل ہر وقت منڈلاتے رہتے ہیں۔ مذاکرات کے نام پر تنازعہ کشمیر کو سالہا سال سے معلق رکھنا دونوں کے لئے خطرات کا سبب ہے۔بھارتی حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ زندگی کی وافر سہولتوں و نعمتوں سے بہرہ ور کشمیری نوجوان بندوق کیوں اٹھاتا ہے؟ نوجوان غاصب اور استعماری دھنتروں سے مایوس ہوچکے ہیں انکے نزدیک دنیا میں عالمی ضمیر نام کی کوئی شے نہیں۔ بھارتی سرکار کو کشمیری نوجوانوں کے جذبہ آزادی کی قدر کرنی چاہیے۔ریاستی فورسز کی بربریت یا سیاسی داؤ پیچ سے نصف صدی پر محیط تحریک کو ختم کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں۔کشمیریوں نے مسلم لیگ اور کانگرس کے ساتھ ملکر ہندوستان کو آفرنگ کی استبدادیت سے رہا کروانے کی خاطر قربانیاں دیں مگر صد افسوس کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ عدل و معقولیت کا تقاضا ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے۔انکے غصب شدہ حقوق بحال کئے جائیں۔پاکستان اور بھارت میں ترقی کا دور اس وقت شروع نہیں ہوسکتا جب تک مسئلہ کشمیر کو یو این او کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا۔یہ سچ اظہر من التمش ہے کہ پاک و ہند کے درمیان کشمیر وجہ نزاع ہے اسے حل کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ مذاکرات سیکریٹری کریں یا وزرائے خارجہ ڈائیلاگ چاہے من موہن سنگھ اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان ہوں انکا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ وقت کا ضیاع اور خطے کے اربوں امن پسند مسلمانوں و ہندوؤں کو سبز باغ دکھانے کا ناٹک ہیں۔ بھارتی حکمرانوں کو شری کشن چندر کے محولہ بالہ جملے کی روشنی میں اٹوٹ انگ کی ضد انا اور ہٹ دھرمی سے بالاتر ہوکر اہل کشمیر کو حق خود ارادیت سے فیض یاب کرے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے چہرے پر کشمیری جوانوں لڑکوں اور ماوؤں بہنووں کے خون کی لالی ہر وقت موجود ہے۔اس لالی کے داغ کو دھونے کی خاطر مسئلہ کشمیر کا فوری حل ناگزیر ہے۔ اگر بھارت لالی کا خراج دینے پر آمادہ نہیں تو یاد رہے کہ پھر کسی ایسے جارحانہ معاشرے کو دنیا ئے جمہور کا بڑا مبلغ تسلیم نہیں کیا جاتا۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140747 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.