کورونا ڈوبتی انسانیت کے نام کھلا خط!

سماوی آفات جن پر انسان کوکوئی اختیار نہیں ہوتا اور نہ ہی ان پر کوئی بس چلتا ہے۔ اِن آفات کے نزول کے سامنے سارے سائنسی اور انتظامی اقدامات اور حربے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ جب انسان ان آفات کے سامنے بے بس ہوجائے تو پھر دعا‘ التجااور استغفار کے علاوہ اور کوئی طریقہ کار گر باقی نہیں رہتا کیونکہ آسمانی آفات اوپر سے ہی آتی ہیں اور اوپر والے کے حکم سے ہی ٹلتی ہیں۔ 2019ء میں نمودار ہونے والے مہلک وائرس کورونا‘ جو بظاہر نظر سے بھی اوجھل ہے‘ انسانی جدید ترین ٹیکنالوجی‘ساری جہت‘ انسانی غرور‘ اجیادات کو زمین بوس کر گیا‘ اور انسانی سارے تجربات‘ انسانیت بے بس ہو کر رہ گئی‘ اس چھوٹے سے وائرس نے پوری دُنیا منجمند کر دی‘ معاشی اعتبار سے دُنیا زوال کا شکار ہو رہی‘تو وہاں ہی یہ وائرس لاکھوں انسانی جانیں بھی نگل گیا‘بھارت میں کورونا کا ریکارڈ اضافہ‘پوری دُنیا کورونا کے خوف میں مبتلا ہو چکی ہے۔

اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود کہ یہ ایک قدرتی آفات ہے۔ سائنس اور Technologiesجیسے آلات کے باوجود کورونا انسانی بساط سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ جب قدرتی طور پر کوئی آفات آتی ہے تو اُس وقت نہ تو سائنسی دلیل اور نہ ہی کوئی Technologies کام آتی ہے۔ اگر کوئی چیز کام آتی ہے۔اس آفت کو آنے سے کوئی انسان روک نہیں سکتا۔ اس پر کسی کو عبور حاصل ہے تو وہ ہے خدا کی قدرت‘ جو پوری کائنات کا خالق ومالک ہے۔ اللہ رب العزت اپنے بندوں سے اتنا محبت کرتے ہیں جتنا کہ اس کے والدین نہیں کر سکتے۔ اللہ کے ربوبیت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ آخر وہ اپنی تخلیق کردہ کائنات اور اپنے بندے کو اس طرح فنا کرنا کیوں چاہتا ہے؟ جب ہم قرآن وسنت کی روشنی میں تلاش کریں گے تو پتہ چلے گا کہ ہمارے اعمال درست نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے مختلف شکلوں میں آفات آتے ہیں۔ جب زمین پر ظلم وبربریت‘حرام وحلال میں تیزی آتی ہے تو اللہ رب العزت کو جاہ وجلال آتا ہے۔ پھر وہ انسانوں کی عبرت کے طور پر عذاب نازل کرتا ہے‘یا پھر انسان اقتدار پاکر اس کے نشے میں چور ہو کر حد بندگی سے نکل جاتا ہے‘ تو پھر عذاب الٰہی نازل ہوتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ زمین‘آسمان‘ سورج‘ چاند‘ ستارے ساری کائنات اللہ رب العزت کی ہی تخلیق کردہ ہیں۔ وہی اس کائنات کا خالق ومالک ہے۔ انسان کو قوت واقتدار اسی کی عطا کردہ ہے جسے امن وسکون برقرار رکھنے کے لیے دیا گیا ہے‘تاکہ بندگان خدا خوش رہ سکیں‘ ان کے حقوق کی حفاظت ہو سکے۔ ظلم وبربریت‘ لاقانونیت کا خاتمہ کر کے عدل وانصاف قائم کیا جا سکے۔ لیکن جب انسان اللہ کی عطا کردہ چیزوں کو اپنی ملکیت سمجھنے لگتا ہے‘اپنے اقتدار کے نشے میں مدمست ہو کر بندگانِ خدا پر ظلم وستم کرنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ عذاب نازل کر کے ظالموں سے انتقام لیتا ہے۔ قدرتی آفات کو ٹالنا کسی کے دائرے اختیار میں نہیں ہے۔ لیکن اس کے بعد جو بھی تباہی ہوتی ہے‘ اس کو کم کیا جا سکتا ہے۔ دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی تقریباً ہر سال کسی نہ کسی صورت میں کسی نہ کسی علاقے میں وہاں کے لوگوں کو زلزلہ‘سیلاب‘قحط‘ ٹڈی دل‘لینڈ سلائنڈنگ اور سمندری طوفان جیسے آفات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ جب بھارتی بھی مسلمانوں سے اللہ کریم کے آگے دُعا کرنے کی درخواست کر رہے‘ ریلی نکال کر کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے‘ تو ایسے میں ہم کورونا سے لڑنے کی سوچ ہی کیوں رہے‘کورونا انسانی تمام تدابیر کو ناکام کر کے کوئی پیغام دینا چاہتا ہے‘ ایسی وبائیں‘ آفات سماوی پہلے بھی ہوتی رہی ہیں‘ ان سے کیسے نجات ملی؛خلیفہ ہارون الرشید عباسی خاندان کا پانچواں خلیفہ تھا‘عباسیوں نے طویل عرصے تک اسلامی دُنیا پر حکومت کی لیکن ان میں سے شہرت صرف ہارون الرشید کو نصیب ہوئی۔ ہارون الرشید کے دور میں ایک بار بہت بڑا قحط پڑ گیا۔ اس قحط کے اثرات سمرقند سے لے کر بغداد تک اور کوفہ سے لے کر مراکش تک ظاہر ہونے لگے۔

ہارون الرشید نے اس قحط سے نمٹنے کیلئے تمام تدبیریں آزما لیں‘اس نے غلے کے گودام کھول دئیے‘ ٹیکس معاف کر دئیے‘ پوری سلطنت میں سرکاری لنگر خانے قائم کر دئیے اور تمام امرائاور تاجروں کو متاثرین کی مدد کیلئے موبلائز کر دیا‘لیکن اس کے باوجود عوام کے حالات ٹھیک نہ ہوئے۔ ایک رات ہارون الرشید شدید پریشانی میں تھا‘ اسے نیند نہیں آ رہی تھی‘ ٹینشن کے اس عالم میں اس نے اپنے وزیراعظم یحییٰ بن خالد کو طلب کیا‘ یحییٰ بن خالد ہارون الرشید کااستاد بھی تھا۔اس نے بچپن سے بادشاہ کی تربیت کی تھی۔ ہارون الرشید نے یحییٰ خالد سے کہا ”استادمحترم آپ مجھے کوئی ایسی کہانی‘ کوئی ایسی داستان سنائیں جسے سن کر مجھے قرار آ جائے“ یحییٰ بن خالدمسکرایا اور عرض کیا ”بادشاہ سلامت میں نے اللہ کے کسی نبی کی حیات طیبہ میں ایک داستان پڑھی تھی‘ یہ داستان مقدر‘ قسمت اور اللہ کی رضا کی سب سے بڑی اور شاندار تشریح ہے۔ آپ اگراجازت دیں تو میں وہ داستان آپ کے سامنے دہرا دوں“ بادشاہ نے بے چینی سے فرمایا ”یا استاد فوراً فرمائیے۔ میری جان حلق میں اٹک رہی ہے“ یحییٰ خالد نے عرض کیا ”کسی جنگل میں ایک بندریا سفر کیلئے روانہ ہونے لگی‘ اس کا ایک بچہ تھا‘ وہ بچے کو ساتھ نہیں لے جا سکتی تھی چنانچہ وہ شیر کے پاس گئی اور اس سے عرض کیا ”جناب آپ جنگل کے بادشاہ ہیں‘ میں سفر پر روانہ ہونے لگی ہوں‘ میری خواہش ہے آپ میرے بچے کی حفاظت اپنے ذمے لے لیں“ شیر نے حامی بھر لی‘ بندریا نے اپنا بچہ شیر کے حوالے کر دیا‘ شیر نے بچہ اپنے کندھے پر بٹھا لیا‘ بندریا سفر پر روانہ ہوگئی‘ اب شیر روزانہ بندر کے بچے کو کندھے پر بٹھاتا اور جنگل میں اپنے روزمرہ کے کام کرتا رہتا۔ ایک دن وہ جنگل میں گھوم رہا تھا کہ اچانک آسمان سے ایک چیل نے ڈائی لگائی‘ شیر کے قریب پہنچی‘ بندریا کا بچہ اٹھایا اور آسمان میں گم ہو گئی‘ شیر جنگل میں بھاگا دوڑا لیکن وہ چیل کو نہ پکڑ سکا“ یحییٰ خالدرکا‘ اس نے سانس لیا اور خلیفہ ہارون الرشید سے عرض کیا ”بادشاہ سلامت چند دن بعد بندریا واپس آئی اور شیر سے اپنے بچے کا مطالبہ کر دیا۔ شیر نے شرمندگی سے جواب دیا‘تمہارا بچہ تو چیل لے گئی ہے‘ بندریا کو غصہ آگیا اور اس نے چلا کر کہا ”تم کیسے بادشاہ ہو‘ تم ایک امانت کی حفاظت نہیں کر سکے‘ تم اس سارے جنگل کا نظام کیسے چلاو گے“ شیر نے افسوس سے سر ہلایا اور بولا ”میں زمین کا بادشاہ ہوں‘ اگر زمین سے کوئی آفت تمہارے بچے کی طرف بڑھتی تو میں اسے روک لیتا لیکن یہ آفت آسمان سے اتری تھی اور آسمان کی آفتیں صرف اور صرف آسمان والا روک سکتا ہے“۔

یہ کہانی سنانے کے بعد یحییٰ بن خالد نے ہارون الرشید سے عرض کیا ”بادشاہ سلامت قحط کی یہ آفت بھی اگر زمین سے نکلی ہوتی تو آپ اسے روک لیتے‘ یہ آسمان کا عذاب ہے‘ اسے صرف اللہ تعالیٰ روک سکتا ہے چنانچہ آپ اسے رکوانے کیلئے بادشاہ نہ بنیں‘ فقیر بنیں‘ یہ آفت رک جائے گی“۔ دُنیا میں آفتیں دو قسم کی ہوتی ہیں‘ آسمانی مصیبتیں اور زمینی آفتیں۔ آسمانی آفت سے بچے کیلئے اللہ تعالیٰ کا راضی ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ زمینی آفت سے بچاوکیلئے انسانوں کامتحد ہونا‘ وسائل کا بھر پور استعمال اور حکمرانوں کا اخلاص درکار ہوتا ہے۔یحییٰ بن خالد نے ہارون الرشید کو کہا تھا ”بادشاہ سلامت آسمانی آفتیں اس وقت تک ختم نہیں ہوتیں جب تک انسان اپنے رب کو راضی نہیں کر لیتا‘ آپ اس آفت کامقابلہ بادشاہ بن کر نہیں کر سکیں گے چنانچہ آپ فقیر بن جائیے۔ اللہ کے حضور گر جائیے‘ اس سے توبہ کیجئے‘ اس سے مدد مانگیے“۔ دُنیا کے تمام مسائل کا حل ہمارے پاس م،وجود ہے‘ لیکن ہماری روایتی بے حسی‘ ایس او پیز سے لے کر کورونا وباء سے نجات کی اصل غذا تک میں کہیں ہمیں کسی بڑے امتحان میں نہ ڈال دے۔ کوشش‘حیلہ اور دُنیاوی اقدامات نہایت ضروری بلکہ ناگزیر ہیں کیونکہ اسلام میں عمل پر جتنا زوردیا گیا ہے اتنا شاید دوسرے مذاہب میں نہیں۔آج بھی کورونا سے نجات چاہیے تو لڑنا نہیں‘ فقیر بننا ہوگا‘ یہ کورونا کا انسانوں کے نام کھلا خط ہے‘ جو پڑھ کر عمل کا متقاضی ہے‘ اس سے پہلے کہ کہیں دیر ہو جائے!


 

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 192 Articles with 170339 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.