انسان کی زَمینِ جنت و زَمینِ جہنم

علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !! 🌹🌹🌹
#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ مَریم ، اٰیت 59 تا 65 ازقلم مولانا اخترکاشمیری


اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فخلف من
بعدھم خلف اضاع
الصلٰوة واتبع الشھوٰت فسوف
یلقون غیا 59 الّا من تاب واٰمن وعمل
صالحا فاولٰئک یدخلون الجنة ولا یظلمون شیئا
60 جنٰت عدن الّتی وعد الرحمٰن عبادہ بالغیب انہ کان
وعدہ ماتیا 61 لایسمعون فیھا لغواالّا سلٰما ولھم فیھا رزقھم
فیھا بکرة وعشیا 62 تلک الجنة التی نورث من عبادنا من کان تقیا
63 ومانتنزل الّا بامرِ ربک لہ مابین ایدینا وما خلفنا ومابین ذٰلک نسیا
64 رب السمٰوٰت والرض وما بینھما فاعبدہ واصطبر لعباتہ ھل تعلم لہ سمیا 65
پھر اِن اَنبیاۓ کرام کے بعد زمین پر اِن اَنبیاۓ کرام کے قائم کیۓ ہوۓ اِلٰہی نظام کے وہ مُنکر و مُنحرف لوگ آگۓ جنہوں نے جلد ہی لَذاتِ جسم اور شہواتِ نفس میں ڈُوب کر اِن اَنبیاۓ کرام کے قائم کیۓ ہوۓ اُس اِلٰہی نظام کی بساط اُلٹ دی جس کے باعث وہ جلد ہی ایک اُسی گُم راہی کا شکار ہو گۓ جس گُم راہی سے اِن اَنبیاۓ کرام نے اِن کو بچایا تھا اور اِس کے بعد اِس گُم راہی سے وہی معدودے چند اَفراد ہی بَچ سکے جنہوں نے اُس گُم راہی سے رجوع کیا اور پھر اپنی علمی و عملی صلاحیت کے مطابق مُنکرینِ دین کی اُس بیدین تحریک کے خلاف سینہ سپر ہوگۓ اور جن جن لوگوں نے رجوع الی الحق کا یہ اہتمام کیا ھم نے اُن کی وہ زمینِ جہنم اُن کے لیۓ زمینِ جنت بنادی اور اُن کو اُن کے اِس عمل کا یہ بدلہ دیا گیا کہ وہ موت کے بعد اِس حاضر جنت سے گزر کر عالَمِ غیب کی اُس جنت میں داخل ہوگۓ جس کا ہر عملِ خیر کرنے والے انسان کے ساتھ اللہ نے وعدہ کیا ہوا ھے اور انسان کو ملنے والی یہ وہ جنتِ دُنیا و عُقبٰی ھے جس میں کبھی بھی کوئی فتنہ و فساد دیکھنے یا سُننے میں نہیں آتا کیونکہ اِس جنتِ دُنیا و عُقبٰی میں صُبح و شام حاصل ہونے والی ایک دائمی سلامتی ، ایک دائمی مُسرت اور ایک دائمی شادمانی موجُود ہوتی ھے لیکن ھماری اِن حاضر و غائب جنتوں کے وارث وہی لوگ ہوتے ہیں جو اللہ تعالٰی کے قانونِ نازلہ کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں سرکش نہیں ہوتے اور اے ھمارے رسُول ! آپ ھمارے اہلِ جہان کو ھمارے اِس اَمر سے بھی آگاہ کردیں کہ جو کُچھ ھمارے اِس زمان و مکان کے آگے ھے ، جو کُچھ ھمارے اِس زمان کے پیچھے ھے اور جو کُچھ ھمارے اِس زمان و مکان کے درمیان میں ھے اِس میں ھمارے وہ نادیدہ مددگار ھمارے حُکم کے بغیر کبھی بھی نہیں اُترتے جن کے اُترنے کی ہر انسان ہمیشہ ہی آرزُو کرتا ھے لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ھے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے جہان و اہلِ جہان کو فراموش کردیا ھے بلکہ اِس کا مطلب صرف یہ ھے کہ اللہ تعالٰی جب جب چاہتا ھے ، جس جس مقام پر چاہتا ھے اور اپنی جس جس مخلُوق کو اپنی مدد پُہنچانا چاہتا ھے وہ اُس کو اُس وقت اور اُس مقام پر اپنی مدد پُہنچاتا ھے اِس لیۓ آپ اُسی کی عبدیت میں رہیں اور اہلِ جہان کو بھی اُسی کی عبدیت میں آنے اور رہنے کے لیۓ کہیں کیونکہ زمان و مکان اور زمان و مکان کی ہر چیز اُسی کی عبدیت میں ھے اور اِس اَمر کی دلیل یہ ھے کہ زمان و مکان کی کسی مخلُوق نے تَخلیق و پرورش کے حوالے سے کبھی بھی کسی اور ہستی کا نام نہیں سُنا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورَہِ مَریم اپنے خاتمہِ کلام کے قریب ھے اور اِس سُورت کے خاتمہِ کلام سے پہلے ایک تو ھم اپنی اُس ابتدائی بات کا اعادہ کریں گے کہ اسمِ "مریم" اپنی لفظی ترکیب کے اعتبار سے ایک معروف تاریخی ہستی کا ایک اسمِ معروف ہی نہیں ھے بلکہ یہی اسمِ معروف " مَفعل" کے وزن پر ایک ظرفِ زمان و مکان بھی ھے اور ظرفِ زمان و مکان ہونے کے اِس خاص حوالے سے اُس خاص زمان و مکان کی ایک علامت بھی ھے جس خاص زمان و مکان میں اہلِ زمین پر فکری و نظری بَدحالی کا کوئی دور نہیں آتا بلکہ فکری و نظری اعتبار سے اُس پر ایک خوش حالی و آسُودہ حالی کا دور ہی قائم رہتا ھے اور اِس ابتدائی اعادہِ کلام کے بعد ھم جو دُوسری بات عرض کریں گے وہ یہ ھے کہ قُرآنِ کریم کی ہر ایک سُورت کی طرح قُرآنِ کی یہ سُورت بھی اپنی بندش و ترکیب میں اپنے نازل کرنے والے حاکمِ عالَم و عادل کی اُن ہی بہت سی پوشیدہ حکمتوں کی حامل ھے جن پوشیدہ حکمتوں کی حامل اِس کتاب کی دُوسری سُورتیں ہیں اور قُرآنِ کریم کی اِن سُورتوں اور اٰیتوں کی یہ پوشیدہ اور نادیدہ حکمتیں ہر زمان و مکان کی ضرورت کے مطابق ہر زمان و مکان میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں جو کبھی انسان کو نظر آتی ہیں اور کبھی انسان کی نظر فراموشی کی نذر ہو جاتی ہیں ، اللہ تعالٰی کی اُن ہی پوشیدہ حکمتوں میں سے اِس سُورت کی اِن اٰیات کی ایک حکمت یہ ھے کہ اِس سُورت میں ایک طرف اٰدم و ادریس ، اسحاق و اسماعیل ، نُوح و زکریا اور مُوسٰی و عیسٰی کے آٹھ نام آۓ ہیں تو دُوسری طرف ابراہیم و یعقوب اور ھارُون و یحیٰ کے چار نام بھی ایک حُسنِ تکرار کے ساتھ آٹھ ہی کی تعداد میں آۓ ہیں اور تیسری طرف اِس سُورت میں اِن سولہ اَنبیاۓ کرام کی تعداد کے عین برابر اللہ تعالٰی کا اسمِ "الرحمٰن" بھی 16 بار ہی آیا ھے جو اللہ تعالٰی کی طرف سے اِس اَمر کی ایک علامت ھے کہ اَہلِ زمین کی طرف اللہ تعالٰی کی طرف سے آنے والا ہر ھادی اہلِ زمین کے لیۓ اللہ تعالٰی کی ایک رحمت ہوتا ھے اور جب تک وہ ھادی زمین پر موجُود رہتا ھے تَب تک زمین و اہلِ زمین پر اللہ تعالٰی کی وہ خاص رحمت بھی موجُود رہتی ھے جو نبی یا رسُول کی اُس خاص ہستی کے ساتھ خاص ہوتی ھے اور جس کی مثال وہ صدقِ ابراہیم و صدقِ اسماعیل اور صدقِ ادریس اور وہ اِخلاصِ مُوسٰی ھے جس کا گزشتہ اٰیات میں ذکر ہوا ھے اور جس کا مقصد یہ ھے کہ جس زمین پر جس زمانے میں جن دینی و اَخلاقی قدروں کی جتنی کمی رہی ھے اُس زمانے کا نبی اور رسول اُس زمانے میں اُن قدروں کا اتنی ہی شدت کے ساتھ ذکر کرتا رہا ھے اور چونکہ زمین پر سَچ کی ہمیشہ کمی رہی ھے اِس لیۓ اللہ تعالٰی کے نبی ابراہیم و اسماعیل اور ادریس علیھم السلام اپنے زمانے میں سَچ کو اسی کثرت کے ساتھ فروغ دیتے رھے ہیں اور عھدِ مُوسٰی میں سب سے زیادہ اِخلاص دل کی کمی رہی ھے اِس لیۓ مُوسٰی علیہ السلام نے اخلاصِ دل کے اعمال و معاملات پر خصوصی توجہ دی ھے ، اللہ تعالٰی کی زمین پر چونکہ اللہ تعالٰی کا ہر ایک نبی اور ہر ایک رسُول اللہ تعالٰی کا ایک سفارت کار ہوتا ھے اِس لیۓ زمین پر جب تب وہ نبی اور وہ رسُول اپنے علمِ سفارت اور تعلیمِ سفارت کے ساتھ موجُود رہتا ھے تَب تک اہلِ زمین پر اللہ تعالٰی کی وہ خاص راحت و رحمت ایک قلبی و رُوحانی صورت میں موجُود رہتی ھے جس خاص قلبی و رُوحانی راحت و رحمت کا انسان مُتمنی ہوتا ھے اور جب وہ نبی اور وہ رسُول زمین پر اپنی مُدتِ حیات اور اپنی تعلیمِ حیات پُوری کر کے زمین سے رُخصت ہوجاتا ھے تو زمین پر صرف اُس کی تعلیمِ ھدایت موجُود رہ جاتی ھے ، زمین پر جو لوگ جب تک اُس نبی اور اُس رسُول کے بعد اُس نبی اور اُس رسُول کی تعلیم پر عمل کرتے رہتے ہیں تب تک اہلِ زمین کے لیۓ وہ آسُودہ حالی موجُودہ رہتی ھے جو آسُودہ حالی اُس نبی و رسُول کی اُس تعلیم پر عمل کا ایک لازمی نتیجہ ہوتی ھے اور اُس نتیجے کے ایک مَنطقی نتیجے کے طور پر اللہ تعالٰی کی زمین اہلِ زمین کے لیۓ زمینِ جنت بنی رہتی ھے اور اُس جنت میں اُن اہلِ زمین کو اُن راحتوں اور رحمتوں کا احساس ہوتا رہتا ھے جو جنت سے آنے والی جنت کی راحتیں اور رحمتیں ہوتی ہیں اور جب اہلِ زمین اپنے اُس نبی اور اپنے اُس رسُول کی تعلم کو فراموش کردیتے ہیں تو اللہ تعالٰی کی زمین اُن اہلِ زمین کے لیۓ جہنم بنادی جاتی ھے اور اُس جہنم میں اُن اذیتوں کا بار بار ظہور ہوتا رہتا ھے جو اذیتیں اُن کی بَد عملی کی جہنم سے اُبھر کر اُن کی زندگی آتی رہتی ہیں ، انسان کی یہی وہ جنت یا جہنم ھے جو اُس کو دُنیا میں دی جاتی ھے اور یہی وہ جنت و جہنم ھے جو دُنیا سے آخرت تک اُس کے ساتھ جاتی ھے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558536 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More