رَحمان کی تخلیق اور انسان کی تَجعیل !!
(Babar Alyas , Chichawatni)
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !! 🌹🌹🌹 |
|
#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ مَریم ، اٰیت 66 تا 72
ازقلم مولانا اخترکاشمیری
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
یقول
الانسان
ءاذاما مت
لسوف اخرج
حیا 66 اولا یذکر
الانسانی انا خلقنا
من قبل ولم یک شیئا
67 فوربک لنحشرنھم
والشیٰطین ثم لنحضرنھم
حول جھنم جثیا 68 ثم لننزعن
من کل شیعة ایہم اشد علی الرحمٰن
عتیا 69 ثم لنحن اعلم بالذین ھم اولٰی
بھا صلیا 70 وان منکم الّا واردھا کان علی
ربک حتما مقضیا 71 ثم ننجی الذین اتقواونذر
الظٰلمین فیھا جثیا 72
اے ھمارے رسُول ! انسان جو موت کے بعد ملنے والی ایک یقنی حیات کے بارے میں
بے یقین ہوکر کہتا ھے کہ آخر یہ کس طرح پر مُمکن ہو جاۓ گا کہ مرنے کے بعد
جب انسان مِٹی میں مل کر مٹی ہوجاۓ گا تو اُس کو اُس مِٹی سے دوبارہ زندہ
کر کے باہر نکال لیا جاۓ گا تو کیا انسان یہ بات بالکُل ہی بُھول چکا ھے کہ
اِس سے پہلے پہلی بار جب ھم نے اِس کو پیدا کیا تھا تو اُس وقت وہ کُچھ بھی
نہیں تھا ، آپ کا پروردگار اپنی اِس وحی میں آپ کو یقین دلاتا ھے اور آپ پر
نازل ہونے والی اِس وحی کے ذریعے ہر انسان کو یقین دلاتا ھے کہ جب ھمارا
مُقرر کیا ہوا مُقررہ وقت آجاۓ گا تو ھم شیطان کے بگاڑے ہوۓ ایک ایک انسان
کو اور شیطان سے بگڑے ہوۓ ایک ایک نسان کو اُس کے ایک ایک شیطان کے ساتھ
اِس طرح اپنے سامنے حاضر کریں گے کہ انسان کی ران اور پنڈلی کے جوڑ کو توڑ
کر جھنم کے آتشیں حلقے کے گِردا گرد اِس طرح گرا دیا جاۓ گا کہ اُس لَمحے
اِس کے اُن اَکڑ باز باغیوں کا کوئی اَکڑ باز گروہ ایک بول بھی نہیں بول
سکے گا ، یہ سب کے سب لوگ وہی لوگ ہوں گے جن کے بارے میں اُس وقت یہ اَمر
مُتحقق ہو چکا ہو گا کہ یہ سب اسی سلُوک کے مُستحق ہیں اور کوئی انسان اِس
خیال میں بھی نہ رھے کہ اللہ تعالٰی کا یہ وعدہ ٹل جاۓ گا کیونکہ یہ تو
اللہ تعالٰی کا وہ اَٹل وعدہ ھے جس نے بہرحال ایک نہ ایک دن پُورا ہونا ہی
ہونا ھے تاہَم جب وعدہِ حساب کا وہ مُقررہ وقت آجاۓ گا تو ھم اُن انسانوں
کو اُس وقت کی اُن مُشکلات سے ضرور بچالیں گے جو دُنیا میں اللہ تعالٰی کے
اَحکامِ نازلہ کو مانتے تھے لیکن جو انسان دُنیا میں اللہ تعالٰی کے اَحکامِ
نازلہ کے مُنکر و مُکذب تھے وہ تاحُکمِ ثانی جہنم کے اُسی شُعلہ بار کنارے
پر پڑے رہیں گے جہاں پر زندہ کرنے کے بعد وہ لاۓ اور گراۓ گۓ ہوں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا کے حوالے سے وضاحت طلب بات صرف یہ ھے کہ اللہ
تعالٰی عالَم کا تَخلیق کار ھے اور انسان اللہ تعالٰی کے اِس عالَمِ تَخلیق
میں ایک تجعیل کار ھے جو اللہ تعالٰی کے عملِ "تَخلیق" میں اُس کی مشیت و
مرضی سے ایک عملِ "تجعیل" کر رہا ھے ، انسان کے اَب تک کے ثابت شُدہ علم کے
مطابق علمی اعتبار سے تَخلیق سے مُراد وہ چیز ہوتی ھے جو اپنی تخلیق کے
اَجزاۓ لازمہ کے بغیر بنائی جاتی ھے اور تجعیل سے مُراد وہ چیز ہوتی جو
پہلے سے بنی بنائی ہوئی ایک چیز سے بنائی جاتی ھے اور ایک دُوسری چیز کے
طور پر بنائی جاتی ھے ، قُرآنِ کریم کے انسان کو عطا کیۓ ہوۓ ایمان و
اعتقاد اور قُرآنِ کریم سے انسان کے لیۓ ہوۓ ایمان و اعتقاد کی رُو سے
عالَم اور عالَم کی ہر چیز اللہ تعالٰی نے پیدا کی ھے اور کسی سابقہ چیز کی
شکل و صورت اور کسی سابقہ چیز کے اَجزاۓ جسمی و اسمی کے بغیر مُطلقاً اپنے
ارادہ و خیال سے پیدا کی ھے ، اللہ تعالٰی کے اسی مُطلق عمل کا نام تَخلیق
ھے اور اللہ تعالٰی اپنی اسی مُطلق تَخلیق کے حوالے سے { احسن الخٰلقین }
ھے ، قُرآنِ کریم کے انسان کو عطا کیۓ ہوۓ اِس ایمان و اعتقاد کی رُو سے
اِس عالَمِ موجُود میں اِس عالَمِ موجُود کی اِس اِلٰہی تَخلیق میں اَزل سے
اَب تک جو کُچھ بنا ھے اور اَب سے اَبد تک جو کُچھ بنے گا وہ تَخلیق کے
نقشِ اَوّل کا وہ نقشِ ثانی یا وہ نقلِ ثانی ھے جس کے لیۓ "تجعیل" کا لفظ
ہمیں موزوں نظر آیا ھے ، اِس لیۓ اِس عالَم میں ایک مُجرد بیج سے جو دُوسرا
مزید بیج بن رہا ھے ، ایک مُفرد درخت سے جو دُوسرا مُرکب درخت بن رہا ھے ،
ایک واحد حیوان سے جو دُوسرا واحد حیوان جنم لے رہا ھے اور ایک مُتحرک
انسان سے جو دُوسرا مُتحرک انسان بن کر عالَم میں ظاہر ہو رہا ھے وہ
"تَخلیق" کا عمل نہیں ھے بلکہ "تَجعیل" کا ایک عمل ھے جو اُس وقت سے عالَم
میں موجُود ھے جب سے یہ عالَم موجُود ھے ، انسان چونکہ زمین پر اپنی طرح کے
مرد و زَن کو پیدا ہوتے ہوۓ اور پھر پیدا ہو کر مرتے ہوۓ دیکھتا رہتا ھے
اِس لیۓ وہ اپنی محدُود عقل کے مطابق اپنی اسی پیدائش و موت کو اپنی آخری
پیدائش و موت سمجھتا ھے اور اِس کو جب اِس حیات کے بعد ایک دُوسری حیات کی
خبر دی جاتی ھے تو وہ حیران و پریشان ہو کر اِس کا انکار کر دیتا ھے ، اسی
لیۓ اللہ تعالٰی نے انسان کو تاریخ کے مُختلف اَدوار میں اپنے مُختلف
اَنبیاء و رُسل کے ذریعے بار بار یہ بتایا اور سَمجھایا ھے کہ عالَم میں
حیات کا عمل ایک مُستقل عمل ھے اور اِس مُستقل عمل کا لازمی تقاضا یہ ھے کہ
انسان کی موت کے بعد بھی عالَم میں اُس کی حیات کا یہ عمل اسی طرح جاری رھے
جس طرح انسان کی موجُودہ حیات سے پہلے اُس کی حیات یہ عمل عالَم میں جاری
رہا ھے ، قُرآنِ کریم انسان پر اِس حقیقتِ ثابت کو واضح کرنے کے لیے یہ
دلیل دیتا ھے کہ جس طرح ایک زندہ انسان و حیوان ایک زندہ انسان و حیوان کے
زندہ جسم کے ایک زندہ سیل کو ایک زندہ انسان جسم کے ایک خاص ماحول میں ایک
خاص مُدت تک رکھ کر اپنے جیسا ایک زندہ انسان و حیوان تیار کر کے سامنے لے
آتا ھے اگر اللہ تعالٰی بھی اسی طرح تخلیق کرتا اور اسی طرح کی تخلیق کرتا
تو اللہ تعالٰی کی اور انسان و حیوان کے عملِ تخلیق میں کوئی فرق نہ ہوتا
اور اگر کوئی فرق نہ ہوتا تو انسان کا اعتراض درست ہوتا لیکن اللہ تعالٰی
کی تخلیق پر انسان کا اعتراض درست نہیں ھے کیونکہ اللہ تعالٰی انسان و
حیوان کی طرح ایک جسم سے دُوسرا جسم نہیں بناتا ھے بلکہ وہ جو جسم بناتا ھے
وہ اپنے ارادہ و عمل سے بناتا ھے اور کسی سابقہ نمونے کے بغیر اِس طرح
بناتا ھے جس طرح اُس نے تُمہارا پہلا جسم بنایا ھے اور اُس نے جس طرح پہلی
بار تُمہارا پہلا جسم بنایا ھے اسی طرح وہ دُوسری بار تُمہارا ایک دُوسرا
جسم بھی بنا کر کھڑا کر دے گا اور چونکہ اللہ تعالٰی کی اُس قُدرت و قُوت
پر ایمان لانا لازم ھے اِس لیۓ جو انسان اِس دُنیا میں اُس کی اِس قُدرت و
قُوت پر ایمان لاۓ گا وہ موت کے بعد ملنے والی حیات میں حیات افروزی کا حق
دار ہو جاۓ گا اور جو انسان اِس دُنیا میں اُس کی اِس قُدرت و قُوت پر
ایمان نہیں لاۓ گا وہ موت کے بعد ملنے والی حیات میں اپنی اِس بے یقینی کے
باعث حیات افروزی کے عمل سے محرُوم ہو جاۓ گا !!
|
|