آج تہذیب کا نوحہ لکھنا پڑگیا ہے۔یہ معاشرتی اقدار، یہ
قومیت کی بنیادیں ہماری کبھی نہیں ہیں ۔ اقبال نے کہا !
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبہ ءِ باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علیؒ جناح نے اسی شعر کی تائید میں دو قومی
نظریہ پیش کیا۔ ہمارے پیارے نبی خاتم النبین ﷺ کی تعلیمات اور احکامات
الٰہیہ بھی معاشرتی ،معاشی اور سماجی اقدار میں ہر تعصب و منافرت اور
ثقافتوں کو مٹا کر جن روایات کی بنیادڈالتی ہے اس کا ماخذ برابر ی ، ایثار،
احساس ، ہم آہنگی ، محبت اور بھائی چارے سے نکلتا ہے ۔ اسلام کے ابتدائی
دور کی ہجرت میں ہمارے لئے ایثاروجذبے اور بھائی چارے کی انتہائی عمدہ مثال
موجود ہے ۔ کس قدر انصار نے مہاجر بھائیوں کے ساتھ اپنے گھر ، زمین ، کھیتی
، اناج حتی کہ رشتہ دار یاں بھی بانٹیں ۔ ایسی عظیم مثال روئے زمین پر
تاریخ نے کبھی نہیں دیکھی اور پھر اس عظیم قربانی اور بھائی چارے نے ایسی
ریاست کی داغ بیل ڈالی جو تا قیامت قائم رہنے والی ہے ۔ اورپھر صدیوں بعد
تاریخ نے خود کو دوہرایا اور ایک عظیم الشان ہجرت انہیں بنیادوں پر وقوع
پذیرہوئی ، اسی طرح عظیم الشان قربانیوں اور بھائی چارے کی کہانیا ں تاریخ
کے اوراق پر رقم ہیں ۔یہی لوگ تھے جنہوں نے تمام لسانی ، باطنی ، ظاہری
اورقبائلی عصبیتوں کو جب پس پشت ڈال کر ایک مسلمانیت اور اسلامیت کو اپنی
قوم بنایا توبڑے سے بڑے مقاصد حاصل کرتے گئے ۔ اور آج وہی لوگ ہیں جو دولت
، عہدوں ، حسد ، حرص ، لسانیت ، نفرت ، مرتبوں،بغض اور لالچ کی وجہ سے
مختلف زبانوں ، فرقوں اور قبائلی تعصبات میں لتھڑ کر دنیا بھر میں ذلیل و
خوار ہو رہے ہیں ۔ اگر یہ قوم اپنی شان و شوکت اور مقام مرتبہ جان لے تو یہ
اپنی کھوئی ہوء عظمت اور وقار پھر سے حاصل کر سکتی ہے ۔ اقبال نے پھر پیغام
دیا تھا کہ :
کوئی قابل ہوتو ہم شان کٰئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
بنی اسرائیل کے بعد یہ وہ واحد امت ہے جسے امت وسط کا مقام دیا گیا ہے ۔
امت وسط سے مراد ایسی امت کہ جس کے ذمے پیغمبروں والا کام ہو ۔ ایسی شان تو
نصیب والی امتوں کو ملتی ہے ۔ مگر ہماری بدبختی کہ ہم اپنے اعمال کے سبب
ذلت کا شکا ر ہیں اور اس سے بڑھ کریہ کہ ہم نے ہر طرح کی ثقافتوں اور
روایات میں ہاتھ مارا مگرکسی ایک کو بھی پوری طرح نہ اپنا پائے ہیں ۔ ہم نے
اسلامیت کے ساتھ پاکستانیت کا نعرہ لگایا ۔ لیکن اسی کے غدار ٹھہرے ۔ جن
لوگوں کے خلاف جنگ کی اور لاکھوں قربانیوں کے بعد عظیم مقصد کو حاصل کرنے
میں کامیاب ہوئے انہی لو گوں کی باقیات کے ہاتھوں اس عظیم مقصد کو پروان
چڑھانے کی غرض سے سونپ دیا ۔ اس سے تنگ آکر ، ہم نے یورپ اوراغیار کے
فلسفوں اور نامراد پراپیگنٖڈوں کو راہ نجات سمجھا مگر دوغلے پن کے سوا کچھ
نہ حاصل کر سکے ۔ اور اب ہم انسانیت کے ٹھکیدار بن کر کھڑے ہوئے ہیں اور
انسانیت کے معیارات بھی ہم نے اپنی اختراعات اوربے سود عقلی دلیلوں پر
استوار کیئے ہیں ۔ اس طرح سے حکومتوں کے مراکز بدل گئے ہیں ۔ معاشرت بکھر
چکی ہے ۔ خاندانی نظام تباہ کن صورتحال سے دو چار ہے ۔ ہر شخص نے اپنی ڈیڑھ
اینٹ کی ریاست بنا رکھی ہے ۔ ریاست کے اندر ریاستیں بنانا ریاست کے ساتھ
بغاوت کرنے جیسا سنگین جرم ہوتا ہے مگر اب نہ تو قوانین کی پاسداری کا کو
ئی خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی اس سنگین جرم کواب سنجیدہ سمجھاجاتا ہے
۔یاد رہے! کسی بھی ریاست کے انتشار اور بربادی کی سب سے بڑی وجہ قوانین کی
پاسداری اور اداروں کی سلامتی کو نشانہ بنانا ہے ۔سارے انسانی فلسفوں اور
نعروں کی اصلیت کھل کر سامنے آچکی ہے ۔ انسانیت کے دعویدار، مذاہب کے
ٹھیکیداراور عوامی مسیحاؤں کا روپ دیکھ کر دل کانپ اٹھا ہے ۔ کئی دفعہ
امتحانات بہت سود مند ثابت ہوتے ہیں ۔ بس مشاہدہ کرنے والی تیز آنکھ اور
ایک حساس دل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کورونا وبا کے امتحان نے سب کو بہت کچھ
سمجھا یااور سکھلادیا ہے۔ کمی صرف سمت کی رہ گئی ہے ۔سمت نہ ہونے کی وجہ سے
پر اپیگنڈوں اور سازشوں کو ہوا مل رہی ہے ۔ اس ملک نے اسلام کا پر چم تھا م
کر لشکر اسلام کا سپہ سالار بننا تھا مگر وہی ملک آج کمزور اور اغیار کے
چہیتے حکمرانوں کے بوئے ہوئے بیجوں کی وجہ سے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے ۔
خود مختار ممالک کا حال اس قدر سنگین ہے تو کشمیر ، فلسطین کا کیا حال ہوگا
۔ وہاں کے لوگ تو پہلے ہی حالت جنگ میں ہیں، ان پر کرفیونافذہے ، وہ گھروں
میں قید ہیں ۔ سالوں سے لاک ڈاؤن کے عذاب سے دو چار اور اب کورونا نے نے
مزید زندگی دوبھر کردی ہے۔ پہلے دووقت کا کھانا نصیب ہوجاتا تھا اب انہیں
ہفتوں بھوکا رہنا پڑتا ہے ۔بنیادی ضروریات زندگی میسر نہیں ہیں۔ فلسطین میں
بمباری کرنے کے لیے اور وہاں خون بہانے کیلئے امریکہ ، ایران ، اسرائیل ،
سعودی عرب اور دیگر مما لک کی رسائی ہو جاتی ہے مگر وہاں بھوک سے بلکتے
بچوں کو کھانا کھلانے ،ان کے زخموں کی مرہم پٹی کے لیے اور انہیں شیلٹر ہوم
فراہم کرنے کے لیے ایسی مما لک سے انسانیت کا نعرہ اٹھانے والوں کی رسائی
نہیں ہوتی ، بھارت جس نے سارک کانفرنس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر
پاکستان مخالف ریفرنسز جمع کرواکر پاکستا ن پر پا بندیاں لگوائیں مگر اب اس
کی انسانیت کہاں ہے کہ اس کے زیر انتظام کشمیر اور دیگر ریاستوں میں کورونا
کی وجہ سے جولوگوں کا معاشی ، معاشرتی اور اخلاقی قتل ہورہا ہے ، کتنا
اندوہ ناک ہے۔اب ان کی انسانیت کی دعویدار حکومت کیوں کچھ نہیں کرپارہی۔اور
وطن عزیز کے مذہبی ، سماجی اور سیاسی قائد ین نے توحد پار کر رکھی ہے ۔
اپنی ذات میں اگر کوئی بیماری ہوتو لندن اور برطانیہ سے پہلے علاج نہیں
کرواتے اور آج انہیں جماعتوں کے کارکنان جو ان کی ایک آواز پر لبیک کہتے
ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں، کورونا جیسی
آفت کے ساتھ معاشی بد حالی سے بھی نبرد آزما ہیں ان کے لیے یہ اپنی تجوریوں
کا منہ کیوں نہیں کھولتے ۔ پاکستان میں سیاسی ومذہبی جماعتوں کے سر براہان
اور لیڈران جس قدر پیسے والے ہیں اگروہ صرف اپنے رجسٹر ڈ کارکنان کی مالی
معاونت کرنے لگ جائیں تو اس ملک میں نہ تو قحط آئے گا اور نہ ہی معاشی
تنزلی کا شکا ر ہوں گے ۔ جو نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں مختلف
پراپیگنڈوں کو تقویت دینے کے لیے فنڈز خرچ کرتی ہیں ،اگر وہ بھوکوں اور
یتیموں کو کھلانے لگ جائیں تو کوئی غریب بھوکا نہ سوئے ۔ مگر زہے نصیب کہ
یہ سب محض خوابیدہ اور تصوراتی باتیں ہو سکتی ہیں عملی نہیں!یہ تہذیب
کانوحہ ہوسکتاہے احساس نہیں ! اقبال نے کیا خوب کہا ہے !
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
|