ٍ زمانۂ جاہلیت میں عربوں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ خود
روزہ رکھنے کے بجائے اپنے گھوڑوں کو رکھواکراسے صوم کہتے تھے ۔ .اللہ تبارک
و تعالیٰ نے جب یہ آیت نازل فرمائی کہ :’’ اے اہل ایمان! تم پر روزہ فرض
کیا گیا۰۰۰‘‘ تو سب سمجھ گئے کہ صیام کیا ہے ؟ اور کیوں ہے؟ مال برداری کی
خاطرگھوڑے سے بہتر متبادل اونٹ ہےلیکن عرب گھوڑوں کا استعمال جنگوں اور لوٹ
مار کے لیے کیا کرتے تھے کیونکہ میدان جنگ میں جس تیزی اور پھرتی کے ساتھ
گھوڑا کام کرتاہے اونٹ نہیں کرسکتا ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اونٹ کے برعکس
گھوڑا چونکہ تنک مزاج بلکہ نازک مزاج جانور اس لیے جنگ سے قبل اس کی تربیت
کرنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحرا کی سخت گرمی میں بھوکا پیاسا رہنے کی
تربیت سے گزرنے والے کو صائم کہا جاتا تھا ۔
نفس انسانی اور گھوڑے میں کمال کی مشابہت ہے۔ وہ بھی گھوڑے کی مانند تنک
مزاج اور خود سر سواری ہے۔ اس کی اگر تربیت نہ کی جائے اوراسے قابو میں نہ
رکھا جائے تو وہ سوار پر اپنی مرضی چلانے لگتا ہے اور انسان اپنے نفس کا
بندہ بن جاتا ہے۔ نفس انسانی کے سب سے زیادہ زور آور داعیات جبلی شہوات،
خواہشات اور جذبات ہیں۔ ان کی فطرت میں پائے جانے والے اشتعال، ہیجان اور
جوش کے آگے انسان جب خود کو بے بس پاتا ہے تو انہیں بزور قوت کچل دینے میں
عافیت محسوس کرتا ہے اور یہی نیک جذبہ رہبانیت کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ دین
اسلام نفس کے منہ زور گھوڑے کوروندنے کے بجائے روزے کے ذریعہ سدھانے کا
اہتمام کرتا ہے۔ وہ نفس انسانی کے سرکش رجحانات کو حدود الٰہی کا پابند
بناکر مفید بنا دیتا ہے۔
نفسِ انسانی کو خواہشات کےاس بے لگام گھوڑے سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کسی
خواہش کے حصول تک اس کے پیچھےسر پٹ بھاگتا ہے لیکن حصولیابی کے بعد نئی
خواہش کی جانب دوڑ جاتا ہے۔ اس کو قابو میں لے کر کارِ خیر میں لگانے کی
خاطر سال میں ایک مرتبہ ماہ رمضان کے ذریعہ تزکیہ کا عمل لازمی ہے۔ نبیٔ
کریم ﷺ نے فرمایا :’’گھوڑا پالنا تین مقاصد سے ہوسکتا ہے۔ ایک آدمی کے لیے
وہ اجر ہے، دوسرے کے لیے پردہ ہے، تیسرے کے لیے گناہ ہے‘‘۔ اس اختصار کے
بعد آپ ﷺ نے خود اس کی وضاحت بھی فرمادی :’’گھوڑا پالنا اس کے لیے اجر ہے
جو اس کو اللہ کے لیے یعنی (جہاد کے لیے )باندھے، چرائے، صحرا میں کھونٹے
سے باندھ دےتاکہ دور تک چرتا رہے ۔ وہ گھوڑا جو لید کرے گا اس (کی صفائی
میں ) کا اجر ملے گا، راستے میں نہر سے پانی پلانے کا بھی ثواب ملے
گا۔دوسرا وہ شخص ہے جو اپنی غربت کو دور کرنے کے لیے گھوڑا پالے ۔ اس سے
خود بھی فائدہ اٹھائے اور اللہ کا حق بھی پہچانے( یہ عمل اس کی پردہ داری
کرے گا) ۔ تیسرا وہ شخص جو فخرو ریاکاری اور مسلم دشمنی کے لیے گھوڑا پالے
وہ گناہ گار ہوگا۔
روزے اور جہاد کا گہرا تعلق ہے یہی وجہ ہے کہ یوم الفرقان یعنی پہلی اسلامی
جنگ بھی اسی ماہ کے اندر ہے اور فتح مبین یعنی مکہ کی فتح سے بھی ماہِ
رمضان میں نوازہ گیا ۔ اس تناظر میں ہم اپنے صیام و قیام کا جائزہ لیں کہ
آیا کہیں یہ ہمارے لیے محض فخرو ریاکاری کا موجب تو نہیں ہے ۔ یا رمضان
میں ہم صرف رسماً روایات کی پاسداری کرکے اپنی پردہ داری کررہے ہیں۔ یا اس
سے آگے بڑھ رمضان کے روزوں کے ذریعہ ہم اپنے نفس کو اللہ کی راہ میں جہاد
کرنے کے لیے تیار کررہے ہیں ۔ مذکورہ حدیث کے مطابق اس ماہ مبارک کا اصل
اجر تو اسی وقت حاصل ہوگا جب ہم تیسرا مقصد حاصل کریں گے ورنہ ایک رسم کی
ادائیگی تو ہو جائے مگر وہ تقویٰ حاصل نہیں ہوگا جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی
نافرمانی سے روکے اور مالک حقیقی کی خوشنودی کی خاطر باطل قوتوں سے برسرِ
پیکار رکھے ۔ اس کے لیے اپنے نفس کا تزکیہ اسی نہج پر کرنا ہوگا جس کی
تلقین نبیٔ کریم ﷺ نےمذکورہ حدیث میں فرمائی ہے ۔
|