نبی کریم ﷺ کے رمضان
(shabbir Ibne Adil, Karachi)
تحریر: شبیر ابن عادل مدینہ منورہ میں رسول اکرم ﷺ کی ہجرت کے دوسال بعد یعنی سن 2ہجری کے شعبان کے آخر میں روزوں کی فرضیت کا حکم آیا، اس کے بعد آپﷺ کے وصال مبارک یعنی ربیع الاول 11 ہجری تک نو (9) رمضان حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں آئے۔ مگر ان میں سے زیادہ تر غزوات ہی میں گزرے۔ سن 2 ہجری میں روزے فرض ہوئے تو صحابہ کرام ؓ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ انہوں نے بہت ذوق وشوق سے عبادات کا اہتمام کیا۔ لیکن نوزائیدہ اسلامی مملکت کے خلاف سازشوں کا دور دورہ تھا۔ مکہ کے قریش چین سے نہیں بیٹھے تھے۔ حضور اکرمﷺ رمضان المبارک کے دوسرے ہفتے میں تین سو تیرہ (313) جانثاروں کو لے کر نہایت قلیل تیاری کے ساتھ قریش کے قافلے کا راستہ روکنے کے ارادے سے مدینہ سے روانہ ہوئے۔ بد ر کے میدان میں حق وباطل کا پہلا معرکہ ۷۱/رمضان کو ہوا، جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی قلیل تعداد کو اپنے سے تین گنا بڑے لشکر پرفتح عطا فرمائی اور قریش کے تمام بڑے سردار مارے گئے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کا پہلا رمضان المبارک غزوہ بدر اور اس کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے میں گزرا۔ مسلمانوں کی پہلی عید، غزوہئ بدر کی شاند ار کامیابی، سورہئ روم میں یہود ونصاریٰ کی فتح کی خوش خبری کا مدینہ پہنچنے اور بدر کی فتح پر اطراف کے علاقوں سے تہنیتی وفود کے جلومیں گزری۔ حضور اکرم ﷺ کے عہد کا دوسر ا رمضان المبار ک سن 3ہجری غزوہ احد کی تیاریوں میں گزرا۔ یوں تو مسلمانوں نے پورے ایمان واحتساب کے ساتھ روزے رکھے۔ حضور اکرمﷺ اور دیگر صحابہؓ نے اعتکاف فرمایا۔ مگر اس دوران قریش کی سال بھر کی جنگی تیاریوں کی تکمیل کی اطلاعات آتی رہیں۔ رمضان کے اواخر میں ایک قاصد کے ڈریعے مکہ سے تین ہزار کا لشکر روانہ ہونے کی اطلاع ملی، جو بھر پور تیاریوں کے ساتھ روانہ ہوا تھا۔ حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے مشورے کئے اور دفاعی اور جنگی منصوبہ بندی فرمائی۔ عیدالفطر اسی منصوبہ بندی میں گزاری۔ قریش کا لشکر6 شوال کو جبل احد کے نواح میں پہنچااور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کے ساتھ باہر نکل کر رات گزاری، 7 شوال سن 3ہجری کو غزوہ احد کا معرکہ ہوا۔ جس میں حضور پرنورﷺ زخمی ہوئے اور آپؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ اس جنگ میں 70مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ جن میں حضور ﷺ کے پیارے چچا سیدا لشہداء حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ، حضرت مصعب بن عمیر ؓ اور حضرت حنظلہ ؓ بھی شامل تھے۔ حضور ﷺ کی حیات مبارک کا تیسرا رمضان المبارک سن 4 ہجری میں آیا، اس سال شعبان میں کفار کے ساتھ معرکہ پیش آیا، جسے غزوہ بدر دوم کہتے ہیں۔ اس میں رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس تشریف لے گئے۔ واپسی پر ماہ رمضان آیا، جو آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں گزارا۔ حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کا چوتھا رمضان المبارک سن 5 ہجری میں آیا، اُس سال غزوہ احزاب یا غزوہ خندق پیش آیا۔ دوتین ماہ پہلے ہی سے قریش کی جنگی تیاریوں کی اطلاعات مدینہ پہنچ رہی تھیں، عرب بھر سے قریش کے حلیف قبائل کے لشکر تیاریوں میں مصروف تھے۔ مدینے کے دو طرف پہاڑ تھے، چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے ایک جانب خندق کھودنے کا حکم دیا، وہ خندق تقریباً نو کلومیٹر طویل تھی۔ مسلمانوں نے نہایت جانفشانی سے اس کی کھدائی میں شرکت کی، رسول اللہ ﷺ خود بھی اس میں شریک رہے، سردی کا موسم تھا۔ ماہ رجب، شعبان اور رمضان کا ایک حصہ اسی خندق کی کھدائی میں گزرگیا۔جبکہ باقی رمضان اور شوال کا مہینہ لشکر کی آمد اور حملے کے خطرے میں گزرگیا۔ شوال میں اٹھائیس دن تک یہ محاصرہ رہا، تاہم کفار کا لشکر ناکام ونامراد لوٹ گیا۔ یہ مسلمانوں کیلئے بڑی کامیابی تھی۔ وہ رمضان المبارک بھی تلواروں کی چھاؤں میں گزرا۔ حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کا پانچواں رمضان المبارک سن 6 ہجری میں آیا، رمضان سے پہلے۲/ شعبان کو غزوہ بنی المصطلق کیلئے روانگی ہوئی اور آخر شعبان میں واپسی، اسی غزوہ میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے ساتھ افک کا واقعہ پیش آیا، جس میں منافقین نے خوب کیچڑ اچھالی۔ اور آپﷺکے گھریلو معاملات چالیس روز تک سنگین کیفیت سے دوچار رہے۔ پورا رمضان المبارک ظاہری طور پر ایک طرح کی بے سکونی میں گزرا۔ حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کا چھٹا رمضان المبارک سن 7ہجری میں آیا، صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان عمرہ نہیں کرپائے تھے، اس لئے قضائے عمرہ کیلئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ صلح کے بعد امن کا زمانہ رہا اور ہمارے آقا ﷺ نے مدینہ تشریف آوری کے بعد وہ پہلا رمضان بہت سکون سے گزارا اور صحابہ ؓ کو روزے کی برکات اور احکام سکھائے اور 130صحابہ کو ایک مہم کیلئے مقام میفعہ روانہ فرمایا۔ حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کا ساتواں رمضان المبارک سن 8 ہجری میں آیا، جس میں فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا۔ سن 8 ہجری میں رمضان کی آمد سے قبل ہی حدیبیہ کا معاہدہ قریش کی بدعہدی کی وجہ سے ٹوٹ چکا تھا۔ ابوسفیان اس کی تجدید کے لئے مدینہ حاضر ہوئے۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے ابوسفیان سے ملاقات نہیں فرمائی۔ ابوسفیان کی واپسی کے بعد آپﷺ نے جنگی تیاریوں کا حکم دے دیااور تیاری کے بعد سفر کا آغاز فرمایا، اس دوران رمضان تھے۔ لیکن آپ ؐ کے حکم پر صحابہ کرام ؓ نے روزے قضا فرمائے۔ نبی کریم ﷺ نے دس ہزار کے عظیم لشکر کے ساتھ مکہ سے باہر پڑاؤ ڈالا، جہاں ابوسفیان رضی اللہ عنہ ایمان لے آئے۔اگلے روز نبی کریم ﷺ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے، مکہ مکرمہ بغیر جنگ کے فتح ہوگیاتھا۔ یہ واقعہ 20رمضان سن 8ہجری کا ہے۔ مکہ میں آپ ؐ کا پندرہ دن قیام رہا۔ جبکہ اوائل رمضان المبار ک سے ہی مکہ روانگی ہوگئی تھی۔ وہ رمضان بھی جہاد اور جنگ کے دوران بسر ہوا۔ حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کا آٹھواں رمضان المبارک سن 9ہجری میں آیا، اور سفر تبوک میں صرف ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے پہلے اس جنگ کی تیاری فرمائی اور پھر تیس ہزار کا لشکر جرار لے کر مقام تبوک روانہ ہوئے۔ ایک ماہ وہا ں جانے میں صرف ہوا، ایک ماہ کے قریب وہاں قیام رہا، قیصر روم مقابلے پر نہیں آیا۔ واپسی کا سفر رمضان المبارک میں ہوا اور شوال کے اوائل میں مدینہ میں تشریف آوری ہوئی۔ وہ پورا ماہِ صیام سفر جہاد میں گزرا۔ حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کا نواں اور آخری رمضان المبارک سن 10ہجری میں آیا، جو آپﷺ کے وصال سے تقریباً چھ ماہ قبل آیا۔ اسے آپؐ نے مدینہ میں گزارا۔ چونکہ ۸ اور ۹ ہجری کے ماہ صیام میں آپ ﷺ مدینہ میں مقیم نہ ہونے کی وجہ سے اعتکا ف نہیں کرسکے تھے، اس لئے آپؐ نے پورے ماہ کا اعتکا ف فرمایا۔ ان تمام مہمات کے باوجود نبی کریم ﷺ نے روزے بھی رکھے، اعتکاف بھی کئے اور مسلمانوں کی تربیت بھی فرمائی۔ جب آپ ﷺ سفر میں نہیں ہوتے تو اس مبارک مہینے میں بہت زیادہ عبادات کا اہتمام فرماتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو بنی کریم ﷺ کا رنگ بدل جاتا تھا اور نماز میں اضافہ ہوجاتا تھا اور دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف غالب ہوجاتا تھا۔ دوسری روایت میں یوں فرماتی ہیں کہ رمضان المبارک کے ختم ہونے تک حضور ﷺ اپنے بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے (بلکہ سارا دن اور ساری رات اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہتے تھے)۔ اس ماہ مقدس میں ہمیں سیرت النبی ﷺ کے اس پہلو پر خاص طور پر غور کرکے اس سے رہنمائی حاصل کرنا چاہئے۔ وہ رمضان میں بھی غزوات اور مہمات میں شرکت فرماتے تھے۔اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجاآوری میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ ====================
|