افطار کے اعلان کے طریقے


تحریر: شبیر ابن عادل
سحر اور افطار کے اوقات سے لوگوں کو آگاہ کرنے کیلئے مختلف زمانوں میں مختلف طریقے اختیار کئے گئے۔ دنیا کی پہلی اسلامی ریاست مدینہ منورہ میں حضور اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں افطار کا وقت ہوتا تو لوگ مساجد سے مغر ب کی اذان کا انتظار کرتے۔ پھر زمانہ بدلا اور آبادیاں دور دور تک پھیل گئیں تو اذان کے ساتھ مسجد کے میناروں ں یا بلند مقامات پر لالٹینیں روشن کردی جاتی تھیں تاکہ جہاں اذان کی آواز نہیں پہنچ سکے، وہاں لوگ دور سے روشنی دیکھ کر افطار کرسکیں۔
فاطمیوں کے دور میں جب ان کے دارالحکومت قاہرہ میں پہلی مرتبہ ان کو ایک توپ تحفے میں دی گئی تو اس کا پہلا آزمائشی فائر رمضان کی پہلی تاریخ کو غروب آفتاب کے وقت کیا گیا، اس کی آواز دور دور تک سنی گئی، اور اہل مصرکو افطار کے اعلان کا یہ طریقہ اتنا پسند آیا کہ بس اسی روز سے افطار کے وقت توپ کے گولے کو داغنے کی روایت شروع ہوگئی جو آج تک نہ صرف برقرار ہے بلکہ یہ روایت قاہرہ سے نکل کر عرب کے دوسرے ملکوں تک پہنچ گئی۔
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ساتھ ساتھ جدہ میں بھی افطار کے وقت کا اعلان کرنے کے لئے توپ کے گولے داغے جانے لگے۔ لیکن بیسویں صدی کے اوائل میں لاوڈاسپیکر، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی ایجادات کے بعد اس کی اہمیت قدرے کم ہوگئی اور مدینہ اور جدہ میں یہ روایت ختم ہوگئی، مگر مکہ مکرمہ میں یہ روایت آج بھی جاری وساری ہے۔ رمضان کے آغاز سے ایک دن قبل ایک توپ مکہ کے سب سے اونچے پہاڑ پر رکھ دی جاتی ہے اور اس پر ایک نگراں مقرر کردیا جاتا ہے جو چوبیس گھنٹے اس کی نگرانی کرتا ہے۔ اس توپ میں ایسا مواد گولے کی شکل میں داغا جاتا ہے کہ اس کی آواز کی گونج مکہ میں دور دور تک سنی جاتی ہے۔
مسجد الحرام میں افطار کے انتظار میں بیٹھے زائرین اگر غور سے سنیں تو مسجد حرام کے لاؤڈاسپیکروں سے مغرب کی اذان کی آواز ابھرتے ہی اس توپ کے گولے کی بھی زور دار آواز سنائی دے گی۔ افطار کے آغاز پر تو اس توپ سے گولہ چھوڑا ہی جاتا ہے لیکن پورے رمضان کے مہینے میں ہر روز دو اور اوقات میں بھی اس توپ سے گولے داغے جاتے ہیں۔ایک سحری کے آغاز اور دوسرے سحری کے اختتام کے وقت۔ گویا رمضان میں ہر روز تین گولے داغے جاتے ہیں۔ ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ سحری کے اختتام کے وقت گولہ داغا جائے، لیکن سحری کے آغاز پر گولہ داغاجائے، یہ بات کچھ عجیب سی ہے۔ مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ حرم شریف میں لوگ ہر وقت بیت اللہ کے طواف میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے علاوہ نوافل اور قیام اللیل کی نمازیں بھی جاری رہتی ہیں، کچھ لوگ قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف ہوتے ہیں۔ لہٰذا لوگوں کو سحر ی کے وقت کی یاددہانی کیلئے گولہ داغنا ضروری ہوتا ہے۔اس لئے سحری کے اختتام سے دو ڈھائی گھنٹے قبل ایک گولہ داغاجاتا ہے، جس سے لوگ سحری کے انتظامات میں لگ جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ رمضان اور عید کے چاند ہونے کے موقع پر سات سات گولے یکے بعد دیگرے داغے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نماز عید سے قبل بھی کچھ گولے داغے جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر اس ماہ مبارک میں ایک سو پچاس گولے فائر کئے جاتے ہیں۔
عید کے چاند کے بعد یہ توپ پہاڑ سے اتار کر واپس اسلحہ خانے میں رکھ دی جاتی ہے، اگلے سال تک کیلئے۔ جس پہاڑ پر یہ توپ رکھی جاتی ہے، ا س پہاڑ کا نام جبل مدافع ہے۔ اس پہاڑ کا نام جبل مدافع بھی اسی لئے پڑا کہ یہاں رمضان کی یہ توپ رکھی جاتی ہے کیونکہ عربی میں توپ کو مدافع کہتے ہیں۔
ہندوستان میں بھی صدیوں سے توپ سے افطار کے وقت کا اعلان کرنے کا سلسلہ جاری ہے، بعد میں سائرن بجانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ وطن عزیز پاکستان میں بھی سائرن بجانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں افطار کے وقت کا اعلان سائرن بجاکر کیا جاتاہے۔ جبکہ بڑے شہروں کے بہت سے علاقوں میں الگ الگ سائرن بجائے جاتے ہیں، مگر ایک ہی وقت میں۔ ٹیلی ویژن آنے کے بعد لوگ سحر و افطار ٹی وی نشریات دیکھ کر کرنے لگے۔ لیکن اب بھی سائرن کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
====================

shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 111181 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.