#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ طٰہٰ اٰیت 1 تا 8
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیت و مفہومِ اٰیات !!
طٰہٰ 1
ماانزلنا
علیک القُرآن
لتشقٰی 2 الّا تذکرة
لمن یخشٰی 3 تنزیلا ممن
خلق الارض والسمٰوٰت العلٰی 4
الرحمٰن علی العرش استوٰی 5 لہ ما فی
السمٰوٰت والارض و ما بینھما وما تحت الثرٰی 6
وان تجھر بالقول فانہ یعلم السر واخفٰی 7 اللہ لاالٰہ
الّا ھو لہ الاسمٰاء الحسنٰی 8
اے ھمارے پاکزہ سیرت و ھدایت یافتہ رسُول ! ھم نے آپ پر یہ قُرآن بارِ جان
بنا کر نازل نہیں کیا ھے بلکہ ایک گُفتارِ جان و متاعِ ایمان بنا کر نازل
کیا ھے جس کا مقصدِ نزُول اُن لوگوں کے لیۓ ایک یاد دھانی ھے جن لوگوں کے
دل خُدا خوفی سے خالی ہو چکے ہیں ، آپ کے دل پر یہ تَنزیل اُس رَحمٰن کی
طرف سے کی گئی ھے جس نے اپنی قُوت و قُدرت سے پہلے زمین کو ہَموار کیا ،
پھر اِس پر آسمانوں کو بلند کیا اور پھر وہ عرشِ مُعلٰی کی طرف مُتوجہ ہوا
، آسمانوں کی بنلدی میں جو جو کُچھ ھے ، زمین کی پَستی میں جو جو کُچھ ھے
اور زمین کی مِٹی کے نیچے جو جو کُچھ ھے وہ سب کُچھ اُسی کی تَخلیق ھے ، آپ
چاہیں تو بلند آواز میں اُس کی توجہ طلب کریں یا دھیمی آواز میں ، وہ ارض و
سما کی بُلندی و پَستی سے ہر بُلند و پست کی ہر بُلند و پَست آواز کو سُنتا
ھے ، وہی عالَم و اہلِ عالَم کا ایک مُفرد و مُجرد اِلٰہ ھے ، اُس کے سوا
یا اُس کے علاوہ عالَم و اہلِ عالَم کا کوئی اور نہیں ھے اُس کے سارے نام
اُُس کے بہترین نام ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورَہِ مَریم کی آخری سے پہلی اٰیت میں اللہ تعالٰی نے یہ فرمان جاری کیا
تھا کہ { فانما یسرنٰہ بلسانک لتبشر بہ المتقین وتنذربہ قوما لدا } یعنی ھم
نے اِس بات کو یقینی بنا دیا ھے کہ تَنزیلِ قُرآن کے اَلفاظ کی اَدائگی آپ
کی زبان کے لیۓ سَہل سے سَہل تر ہو تاکہ آپ اِس تنزیل کے ذریعے اہلَ اَمن
کو اُن کے اَنجامِ خیر کی خوش خبری سُنائیں اور اہلِ فساد کو اُن کے
اَنجامِ شَر کا خوف دلائیں اور اَب اِس سُورت کی دُوسری اٰیت میں اللہ
تعالٰی نے یہ فرمان جاری کیا ھے کہ ھم نے آپ پر قُرآن بارِ جان بنا کر نازل
نہیں کیا ھے بلکہ ایک گُفتارِ جان و متاعِ ایمان بنا کر نازل کیا ھے ، اللہ
تعالٰی کا یہ فرمانِ مُکرر پہلی سُورت کا دُوسری سُورت کے ساتھ ایک رَبطِ
باہَم بھی ھے اور دُوسری سُورت کا وہ موضوعِ سُخن بھی ھے جس موضوعِ سُخن نے
یہ اَمر اِس تعین کے ساتھ مُتعین کردیا ھے کہ جس نبی یا رسُول پر اللہ
تعالٰی کی جب جب اور جو جو وحی نازل کی جاتی رہی ھے وہ اُس نبی اور رسُول
کے لیۓ تسکینِ جان و ایمان بنا کر نازل کی جاتی رہی ھے اور اللہ تعالٰی نے
اپنی اِس بات کے تاریخی استشہاد کے لیۓ ایک تو اپنے ایک صاحبِ شریعت و
حاملِ کتاب نبی مُوسٰی علیہ السلام کا نام پیش کیا ھے کہ اُن پر جب وحی
نازل کی گئی تو اتنے آسان اَنداز میں نازل کی گئی کہ اُن پر اِس کی کوئی
گرانی ہونا تو بہت دُور کی بات ھے اُن کو تو اِس کے اِس کے لطیف سے اِحساس
کے سوا کوئی دُوسرا اَجنبی احساس تک نہیں ہوا کیونکہ جس انسانی ہستی کو
اللہ تعالٰی نے نبوت کے اِس عظیم منصب کے لیۓ مُنتخب کیا ہوتا تھا اُس کی
تربیت بھی ایسی ہی ہوتی تھی کہ جس اُس ہستی پر یہ وحی نازل ہوتی تھی تو اُس
ہستی کی رُوح اُس وحی کو اپنی رُوحانی غذا کے طور پر اَخذ و قبُول کر کے
اپنے وجُودِ ذات میں جَذب کر لیتی تھی اور اِس اَمر کے دُوسرے تاریخی
استشہاد کے لیۓ اللہ تعالٰی نے اِس سُورت میں اپنے پہلے نبی اٰدم علیہ
السلام کا یہ تذکرہ کیا ھے کہ جب اٰدم کو منصبِ نبوت پر فائز کیا گیا تھا
تو اُن پر بھی اللہ تعالٰی نے اپنی وحی کو بار گراں بنا کر نازل نہیں کیا
تھا بلکہ تسکینِ جان و ایمان بنا کر نازل کیا تھا اور جس طرح اللہ تعالٰی
کے اُن دو نبیوں کے لیۓ اللہ تعالٰی کی وحی بارِگراں نہیں تھی اور اُن دو
نبیوں کے علاوہ اللہ تعالٰی کے دیگر نبیوں کے لیۓ بھی اللہ تعالٰی کی وحی
بارِگراں نہیں تھی بلکہ ایک تسکینِ جان و ایمان تھی اسی طرح محمد علیہ
السلام کی ذاتِ گرامی پر بھی اللہ تعالٰی کی وحی بارِ گراں نہیں تھی بلکہ
ایک راحتِ جان و ایمان بنا کر نازل کی گئی تھی لیکن قُرآنِ کریم کی اِس
تاریخِ نبوت و تعلیمِ نبوت اور اِن بیانات و تمثیلات کے برعکس امام بخاری
اپنی کتابِ بخاری میں اِس مضمون کی یہ پندرہ احادیث لاۓ ہیں کہ نبی علیہ
السلام پر جو وحی نازل ہوتی تھی وہ آپ کے جسم و جان پر اتنی گراں ہوتی تھی
کہ آپ بار بار خود کشی کی نیت سے پہاڑوں پر چڑھ جایا کرتے تھے اور جبریل
بار بار ظاہر ہو کر آپ کو اِس اَقدام سے روکتے تھے اور بار بار آپ کو یقین
دلاتے تھے کہ آپ اللہ کے سَچے نبی ہیں ، اِس مُختصر مضمون میں اِن تمام
احادیث کا احاطہ کرنا چونکہ مُمکن بھی نہیں ھے اور مطلوُب بھی نہیں ھے اِس
لیۓ اِن میں سے چند احادیث کا ہی ھم ذکر کریں گے اور جن چند احادیث کا ھم
ذکر کریں گے اُن میں سے ایک حدیث بخاری کی کتاب بدءوحی کی حدیث نمبر 2 ھے
جس میں حارث ابنِ ہشام سیدہ عائشة صدیقہ سے بیان کرتے ہیں کہ { کیف یاتیک
الوحی : فقال ، واحیانا یاتینی مثل صلصلة الجرس وھو اشدہ علیّ فیفصم عنی
وقد وعیت عنہ ماقال واحیانا یتمثل لی الملک رجلا فیکلمنی فاعی ما یقول ،
قالت عائشة ولقد رءیتہ ینزل علیہ الوحی فی الیوم الشدید البرد فیفصم عنہ
وان جبینہ لیتفصد عرقا } یعنی عائشة صدیقة سے مروی ھے کہ حارث بن ہشام نے
آنحضرت سے پُوچھا کہ آپ پر وحی کیسے آتی ھے ، آپ نے فرمایا کبھی تو ایسے
آتی ھے کہ جیسے جرس کی جَھنکار اور یہ وحی مُجھ پر سخت گراں ہوتی ھے ، پھر
جب فرشتے کا کہا مُجھے یاد ہو جاتا ھے تو یہ وحی موقوف ہو جاتی ھے اور گاھے
فرشتہ انسانی صورت میں میرے پاس آکر بات کرتا ھے اور میں اس کو یاد کرلیتا
ہوں ، عائشہ صدیقة نے کہا ھے کہ میں نے آپ پر شدید سردی کے دن وحی نازل و
موقوف ہوتے دیکھی ھے ، آپ کی پیشانی سے پسینہ اس طرح بہتا تھا جس طرح فصد
کُھلوانے سے خون کے فوارے بہتے ہیں ، امام بخاری الفاظ کے معمولی سے رَد و
بدل کے ساتھ اسی مضمون اور اسی مفہوم کی دُوسری حدیث کتاب بدءالخلق کے
چَھٹے باب میں ذکرِ ملائکة کے تحت لاۓ ہیں لیکن اِس حدیث میں اُنہوں نے
سیدة عائشة کے اُس مُشاھدے کا ذکر نہیں کیا ھے جو اُنہوں نے پہلی حدیث میں
بیان کیا ھے ، اِس دُوسری حدیث کے متنِ حدیث میں وحی کے بارے میں سوال کرنے
والے سائل کے سوال کی ساخت ایسی ھے کہ جیسے وہ خود بھی نزُولِ حی کا عملی
تجربہ رکھتا ھے اور اِس وقت نبی اکرم علیہ السلام سے اُس کے سوال کا مقصد
صرف آپ کے اور اپنے تجربہِ وحی کا فرق معلوم کرنا ھے ، امام بخاری نے اِس
حدیث میں وحی کی جو اذیتناک کیفیت بیان کی ھے اُس سے اُن کے دل کو شاید
کُچھ زیادہ طمانیت نہیں ملی اِس لیۓ وہ وحی کی اذیت کو مزید اُجاگر کرنے کے
لیۓ اسی مضمون اور اسی مفہوم کی چار مزید احادیث بھی لاۓ ہیں جن میں سے
کتاب العمرة کی مُتعلقہ حدیث نمبر 1789 کے مُتعقلہ الفاظ یہ ہیں کہ { فانزل
اللہ علی النبی فستر بثوب ووددت انی قد رءیت النبی ، وقد انزل علیہ الوحی
فقال عمر ، تعال ایسرک ان تنظر الی النبی ، وقد انزل اللہ الوحی قلت نعم
فرفع طرف الثوب ، فنظرت الیہ لہ غطیط واحسبہ ، قال کغطیط البکر } یعنی جب
اللہ نے نبی پر وحی نازل کی تو لوگوں نے آپ پر کپڑا ڈال دیا اور مُجھے اِس
بات کی آرزُو تھی کہ میں آپ وحی نازل ہوتے دیکھوں ، عُمر نے مُجھے بُلایا
اور کہا کہ تُم چاہتے ہو کہ نبی اکرم پر وحی اُترتے دیکھو ? میں نے کہا ہاں
، اُنہوں نے کپڑے کا ایک سرا اُٹھایا تو میں نے دیکھا کہ آپ اس طرح خراٹے
لے رھے ہیں جس طرح ایک جوان اُونٹ خراٹے لیتا ھے ، امام بخاری وحی کے بارے
میں اسی طرح کی جو دیگر دو احادیث لاۓ ہیں اُن کا نفسِ مضمون بھی ایک ہی ھے
اور اُس ایک مضمون کی دو احادیث میں سے ایک حدیث بخاری کی کتاب الجھاد کی
حدیث 2831 ھے اور وہ یہ ھے { عن سہل بن سعید الساعدی انہ قال رءیت مروان بن
الحکم جالسا فی المسجد فاقبلت حتٰی جلست الٰی جنبہ فاخبرنا ان زید بن ثابت
، اخبرہ ان رسول اللہ ، املٰی علیہ ( لایستوی القاعدون من المؤمنین
والمجاھدین فی سبیل اللہ) قال : فجائہ ابن ام مکتوم وھو یملھا عنی فقال :
یا رسول اللہ لو استطیع الجھاد لجاھدت وکان رجلا اعمٰی فانزل اللہ تعالٰی
علٰی رسول اللہ وفخذہ علٰی فخذی فثقلت علیّ حتٰی خفت ان ترض فخذی ثم سریَّ
عنہ فانزل اللہ عز و جل ( غیر اولی الضرر } سہیل بن سعد ساعدی کہتے ہیں کہ
میں مروان بن حکم کو مسجد میں بیٹھے دیکھا ، میں بھی اُس کے پہلو میں بیٹھ
گیا ، اس نے کہا زید بن ثابت نے اسے بتایا ھے کہ نبی علیہ السلام ان کو
سُورةُالنساء کی اٰیت { لایستوی القاعدون من المؤمنین والمجاھدون فی سبیل
اللہ } املا کرا رھے تھے کہ اچانک عبد اللہ بن مکتوم آۓ اور اُنہوں نے کہا
یا رسول اللہ اگر میں جہاد کی قُدرت رکھتا تو ضرور جہاد کرتا ، وہ ایک نا
بینا آدمی تھے ، تب اللہ نے آپ پر یہ وحی نازل کی ، اِس وقت آپ کی ران میری
ران پر رکھی ہوئی تھی ، آپ کی ران اتنی بوجھل ہوگئی تھی کہ میں سمجھا میری
ران ٹوٹ رہی ھے ، پھر وحی موقوف ہوگئی ، اسی حال میں ( غیر اولی الضرر ) کے
الفاظ نازل فرماۓ ، ھم نے بخاری شریف کی اِن نقل کردہ احادیث پر کوئی تبصرہ
نہیں کیا ھے لیکن بارِ وحی کی اِس آخری حدیث پر اِس لیۓ تبصرہ لازم ھے کہ
اِس حدیث میں ایک تیر سے تین شکار کیۓ گۓ ہیں اور اُن تین میں سے ایک یہ ھے
کہ سُورةُالنساء کی اِس اٰیت میں موجُود الفاظ { غیر اولی الضرر } کا مقامِ
تحریر وہ نہیں ھے جو موجُودہ قُرآن میں ھے کیونکہ یہ الفاظ اُمِ مکتوم کے
سوال کے بعد نازل ہوۓ تھے اور اُس وقت اٰیت ھٰذا کی اِملا مُکمل ہو چکی تھی
، اِس حدیث کے اِس تیر سے دُوسرا شکار اِس اَمر کا اظہار ھے کہ وحی کابار
نبی اکرم کے جسم پر بھی اثر انداز ہوتا تھا ، یعنی وحی آپ کو حواس سے
بیگانہ کر دیتی تھی کیونکہ حواس کی بیگانگی ہی جسم کا بار بڑھانے کا باعث
ہوتی ھے اور اِس تیر سے جو تیسرا شکار کیا گیا ھے وہ ایرانی تہذیب کا وہ
عجمی رنگ ھے جس میں نبی اکرم کو زید کی ران پر ران رکھے ہوۓ دکھایا گیا ھے
، امام بخاری بارِ وحی اور کیفیتِ مَہبطِ وحی کی اِن احادیث سے یہ ثابت
کرنا چاہتے ہیں کہ وحی کا بار نبی اکرم کے حواس پر اس شدت سے اثر انداز
ہوتا تھا کہ اِس حال میں آپ پر جو وحی نازل ہوتی تھی اُس وحی کو آپ کے لیۓ
یاد رکھنا کسی طور پر بھی ممکن نہ تھا اِس لیۓ قُرآن کے بارے میں حاملینِ
قُرآن کا یہ بیان ہر گز درست نہ سمجھا جاۓ کہ وہ اللہ کا کلام ھے کیونکہ آپ
پر جب اللہ کا یہ کلام نازل ہوتا تھا تو آپ حواس سے بیگانہ ہوا کرتے تھے (
نعوذ باللہ من ذٰلک ) امام بخاری کی اِن احادیث کے بارے میں ایک فرنچ محقق
ڈا کٹر گستاولی بان اپنی کتاب تمدنِ عرب میں کہتا ھے کہ " بعض مؤرخین کا
قول ھے کہ حضرت مرضِ "صرع" میں داخل ہو چکے تھے لیکن میں نے مؤرخینِ عرب کے
بیان میں ایسی کوئی بات نہیں دیکھی جس سے اِس اَمر کی نسبت یقینی راۓ قائم
کی جاسکے ، رواةِ معاصرین کے قول سے جن میں خود حضرت کی زوجہ عائشہ صدیقہ
بھی شامل ہیں اسی قدر معلوم ہوتا ھے کہ نزولِ وحی کے وقت حضرت پر ایک خاص
حالت طاری ہوتی تھی جس میں چہرہ سمٹ جاتا تھا اور جسم میں رَعشہ پڑ جاتا
تھا اور بالآخر آپ غش کھا کر گر جاتے تھے !!
|