اردو ڈرامہ نگاری کے ارتقاء پر روشنی

ڈرامہ ادب کی ایک مقبول اور قدیم صنف ہے۔ مغرب میں یونان ڈرامے کے فن کا مرکز تھا۔ ایس کائی لیس، سوفو کلیز ،اسٹو فنز اور پیڈیز جیسے مشہورِ زمانہ ڈرامہ نگار اسی قدیم سرزمین کے فرزند تھے۔
سچ تو یہ ہے کہ اردو ڈرامہ سنسکرت ڈرامہ نگاری کے مرہونِ منت ہے۔ ہندو دھرم اور سماج میں شری کرشن جی اور رام چندر جی کی لیلاؤوں کیلئے ڈرامے ہی کو ذریعہ بنایا گیا تھا۔
بقول ارسطو ’’ڈرامہ انسانی اعمال کی نقال ہے۔
یا۔۔۔ڈرامہ انسانی زندگی کی عملی تصویر ہے۔

اردو کا پہلا ڈرامہ:

اردو ڈرامہ نگاری کی تاریخ میں پہلے ڈرامے کے تعین کیلئے کوشش و جدو جہد جاری ہے ۔۔
بعض ناقدین کے مطابق اردو ڈرامے کے باقاعدہ آغاز کا سہرا واجد علی شاہ اختر پیا کے سر ہے۔ لکھنؤ کا یہ نواب رقص و سرور کا دلدادہ تھا ۔رام لیلا کی محافل سے متاثر ہو کر اس نے بھی شاہی قلعے میں رقص ونغمے کی محافل سجائیں ۔ ان محافل کو باقاعدہ اسٹیج کیا جانے لگا اور ان کا نام ’’رہس ‘‘ رکھا گیا۔
واجد علی شاہ کے دور میں ہی امانت لکھنوی نے اپنا منظوم ڈرامہ ’’ اندر سبھا‘‘ تحریر کیا جو کہ رقص وسرور کی ہنگامہ آرائیوں پر مشتمل تھا۔ واجد علی شاہ کی سرپرستی میں اور بھی ڈرامے ہوئے جن میں عیش و نشاط کا سامان بہم تھا۔

اردو ڈرامہ ابھی احسن لکھنوی ، پنڈت نرائن بیتاب دہلوی اور طالب بنارسی کی نگارشات کی زد میں تھا ۔سارا ہندوستان ان کے رنگ و آہنگ میں مست تھا۔ کہ ڈرامے کی دنیا میں ایک ایسا آفتاب طلوع ہوا جس کی روشنی سے دیگر تمام ستاروں کی روشنی ماند پڑ گئی۔

یہ شخص اردو ڈرامے کا شیکسپئر آغا حشر کاشمیری تھا۔جس نے شیکسپئر کے ڈراموں کو اس خوبصورتی سے اردو میں ڈھالا کہ اس کی روح بھی قائم رہی اور اس میں مشرقی تمدن بھی سما گیا۔

ان کے ڈراموں کی فہرست طویل ہے ،مگر مشہور ڈرامے درج ذیل ہیں:

سفید خون ۔۔خوبصرت بلا ۔۔ آنکھ کا نشہ۔۔ ترکی حور۔۔ میرِ ہوس۔۔ یہودی کی لڑکی ۔۔ بلوا منگل عرف بھگت سور داس ۔۔ نعرہ توحید۔۔ سنسار چکر۔۔رستم سہراب۔

جدید ڈرامہ نگاری کا آغا ز امتیا زعلی تاج جیسے ڈرامہ نگار سے ہو تا ہے ان کا ڈرامہ انا ر کلی (۱۹۳۲)میں طبع ہوا یہ دور جدید کا سنگِ میل ثا بت ہوا۔

قیام پا کستان کے بعد ڈرامہ نگاری کا ارتقاء :

قیام پاکستان کے بعد کے ڈرامو ں میں اسٹیج کی رونقیں بحا ل ہو گئیں اس میں معین الدین نے ہجرت کے دکھ،اور انسانی اقدار کی پاما لی کو طنز ومزاح کے ساتھ پیش کیا، ان کے ڈرامو ں میں ’’تعلیم با لغان‘‘مرزا غالب بندر روڈ پر‘‘ اور ’’لال قلعے سے لا لو کھیت تک ‘‘ بہت نما یا ں ہیں۔فلمی اور ٹیلی ویژن کے اثرات: فلمی اور ٹیلی ویژن کے آجانے سے اسٹیج کی رونقوں میں کمی واقع آگئی۔ اس ضمن میں ان کہی، انکل عرفی، شمع، تعبیر، خاک اور خون، طاہرہ، خدا کی بستی، دیواریں وغیرہ۔

ڈرامے کے ارتقاء میں ریڈیو اور ٹیلیویژن کا کردار اور عہد حاضر کے ڈرامے:

مو جو دہ دور میں میڈیا کی ترقی نے خوشگوار اثرات مرتب کئے عہد حا ضر میں کما ل احمد رضوی، اور انور مقصود نے طنز ومزاح، فا طمی ثریا بجیا نے گھریلو زندگی کے مسائل، سلیم احمد نے تاریخی مو ضو عات، اور اشفا ق احمد نے روحانی اور نفسیا تی الجھنو ں کے حوالے سے ڈرامے پیش کئے،۔

یہا ں امجد اسلام امجد، با نو قدسیہ ، عبد القادر جونیجو،مستنصر حسین تارڑ ، منو بھائی اور حسینہ معین کے ڈرامے بیش بہا خزانے سے کم نہیں۔۔۔۔۔۔۔
 
M.mustaqeem
About the Author: M.mustaqeem Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.