سید مراتب علی شاہ 1883ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ان کے
والد سید وزیر علی شاہ اپنے دور کے مشہور کاروباری شخص تھے ۔ ان کے ہاں دو
بیٹے پیدا ہوئے۔ ایک سید احسان علی شاہ تو دوسرے بیٹے کا نام سید مراتب علی
شاہ رکھا گیا ۔ابتداء میں سید وزیرعلی شاہ نے لاہورمیں کاروبار شروع کیا
۔بعد ازاں یہ خاندان فیروز پور چھاؤنی منتقل ہوگیا اورصدر بازار میں ایک
دکان کھولی اور ساتھ ساتھ ٹھیکے لینے بھی شروع کردیئے ۔ تعلیم مکمل کرنے کے
بعد سید مراتب علی شاہ بھی کاروبار میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے ۔1899ء
کو وزیر علی شاہ نے فیروز پور چھاونی کی دکان سید مراتب علی شاہ کے سپرد کی
اور خود آکسفورڈ رجمنٹ کی دو کمپنیوں کے ہمراہ عازم ڈلہوزی ہوگئے ۔ والد کے
انتقال کے بعد سید احسان علی شاہ اور سید مراتب علی شاہ ، دونوں بھائیوں نے
کاروبار کو سنبھالا اور اپنی دیانت داری اور فرض شناسی کی بدولت بہت کم
عرصے میں انگلش آرمی یونٹوں میں اپنے مداح پیدا کرلیے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے
کاروبار پھر چل نکلا ۔ 1902ء میں انہیں ایک انگلش رجمنٹ میں کافی شاپ کا
ٹھیکہ ملا ۔ کچھ عرصے کے بعد دوسری کافی شاپس کے ٹھیکے بھی انہیں دے دیئے
گئے ۔بعدا زاں سوڈا واٹر فیکٹری کا کام بھی انہی کے سپرد ہوگیا۔1907ء میں
امیر حبیب اﷲ خاں، والی افغانستان نے ہندوستان کا دورہ کیا ۔ ان کی پذیرائی
کے لیے ایک استقبالیہ کمیٹی تشکیل دی گئی ۔سید مراتب علی شاہ کو نہ صرف اس
کمیٹی کا ممبر چن لیا گیا بلکہ شاہی پارٹی کے تمام افراد کے خورد نوش کا
انتظام انہی کے سپرد ہوا۔پہلے فیروزپور چھاؤنی کے فوجی افسروں تک بات محدود
تھی ،اب آپ حکومت ہند کی نظروں میں آگئے ۔اس کے بعد سید مراتب علی شاہ نے
1908ء میں انارکلی لاہور میں پنجاب ہاؤس کے نام سے کاروبار کاآغاز کیا ۔آپ
کی نیک نامی کی نے آپ کے کاروبار کو ایک بارپھر لاہور سے جھانسی ،لکھنواور
بریلی کی چھاؤنیوں تک پہنچا دیا ۔اسی دوران جارج پنجم کی تخت نشینی کے
سلسلے میں ایک اجلاس دربار دہلی منعقد ہوا ۔ جس میں ان کی کارکردگی کو عملی
طور پر سراہا گیا ۔ تھوڑے ہی عرصے بعد پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی ۔جو ان کے
کاروبار کی مزید وسعت کا باعث بنی ۔شاید ہی ہندوستان بھر میں کوئی ملٹری
اسٹیشن ایسا ہوگا جہاں کسی نہ کسی شکل میں ان کا کوئی کاروبارنہ ہو۔1922ء
سے 1926ء تک سید مراتب علی شاہ ،کل ہند کینٹین کنٹریکٹرایسوسی ایشن کے
سیکرٹری اور 1927سے 1947تک کل ہند کینٹین کنٹریکٹر سنڈیکیٹ لمیٹڈ کی نظامت
کے فرائض آپ انجام دیتے رہے ۔1934ء میں حکومت ہند نے ایک تجارتی وفد
افغانستان بھیجا ۔سید مراتب علی شاہ اس وفد میں شامل تھے ۔1935ء میں ریزرو
بنک آف انڈیا کا سنٹرل بورڈ آف ڈائریکٹر قائم ہوا تو آپ کو ایک رکن کی
حیثیت سے شامل کرلیا گیا ۔1936سے لے کر تقسیم ہند تک ایلکلی اینڈ کیمیکل
کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ کے ڈائریکٹر اور 1940ء سے لے کر اپنی یوم وفات تک
ایچی سن کالج لاہور کے بورڈ آف گورنر ز کے رکن رہے ۔1942ء میں آپ کو آل
انڈیا مسلم چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے ۔ 1944ء
میں آپکو انڈین چیمبرز آف کامرس لاہور کا صدر منتخب کیا گیا ۔آپ کی اعلی
خدمات کے صلے میں حکومت برطانیہ نے آپکو 1929ء میں "خان بہادر"کا خطاب دیا
۔ 1940 میں آپ کو سر کا خطاب ملا ۔آپ نے عمر بھر نہ سیاست کی اور میدان
سیاست میں قدم رکھا لیکن قیام پاکستان کی جدو جہد میں پیچھے نہ رہے ۔جب
کبھی قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے انہیں مالی مشکلات کے وقت طلب کیا تو آپ
نے دل کھول اس قومی تحریک کے لیے گرانقدر رقوم پیش کیں ۔مسلم لیگ کی کوئی
تحریک ،کانفرنس یا کمیٹی ایسی نہ تھی جس سے آپ کا تعلق نہ تھا۔1948ء میں
حکومت پاکستان نے آپ کو اس دو رکنی وفد کا ممبر نامزد کیا جو ریزرور بنک آف
انڈیا سے پاکستان کا پچاس کروڑ روپیہ وصول کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا
تھا۔اس وفد کی کامیابی سید مراتب علی شاہ کی مساعی جمیلہ کی مرہون منت تھی
۔ بعد ازاں آپ کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کے پہلے مرکزی بورڈ کا رکن بنالیا
گیا اور آخری سانس تک آپ مرکزی بورڈ کے ممبر رہے ۔قیام پاکستان کے فورا بعد
آپ اورینٹ ایئرویز کے ڈائریکٹر بنائے گئے ،اس کمپنی کے پی آئی اے میں
انضمام تک آپ اس منصب پر فائز رہے ۔آپ نے مہاجرین کی آبادکاری ایڈوائزری کے
چیئرمین کی حیثیت سے نہایت جانفشانی سے خدمات انجام دیں۔آپ پاکستان کے
صنعتی معمار بھی تھے آپ نے ٹریٹ بلیڈ کی فیکٹری ، ایک ٹیکسٹائل ملز
،بناسپتی گھی کے کارخانے کے علاوہ کئی ایک چھوٹے بڑے کارخانے قائم کیے۔
سیدمراتب علی شاہ اے اینڈ ایم وزیرعلی انڈسٹریز،علی آٹو موبائلز لمیٹڈ
،عباسی ٹیکسٹائل ملز ،انٹرنیشنل انشورنس کمپنی اور پیکجزلمیٹڈکے بورڈ آف
ڈائریکٹر کے صد ر بھی تھے ۔22 مئی 1961ء کو78سال کی عمر میں آپ اس دنیا سے
رخصت ہوئے اور امام باڑہ سیدہ مبارک بیگم میں سپرد خاک ہوئے۔ |