پاکستان کے مقبول ترین اورپاکستانیوں کے محبوب ڈرامہ
نگار ، دانشور اور منفرد اسلوب کے ادیب خلیل الرحمن قمرآج جس مقام پرہیں اس
میں ان کے ویژن اور منفردکام کا بہت دخل ہے۔وہ انتھک محنت اورجہدمسلسل سے
کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں ۔ان کے ساتھ ہرملاقات اورمکالمے میں بہت کچھ سیکھنے
کوملتا ہے ۔ان کے ساتھ ملنے سے مجھ جیسی طفل مکتب کی تشنگی مزید بڑھ جاتی
ہے ۔ خلیل الرحمن قمرکے ساتھ حالیہ سیرحاصل مکالمے کی رودادوطن عزیز کے
نوجوان قلم کاروں کی حوصلہ افزائی اورانہیں سیراب کرنے کیلئے ان کی خد مت
میں پیش کررہی ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کاکہنا تھاکہ لکھاری یا تو
پیدائشی ہوتے ہیں یا وہ نہیں ہوتے ، ہر وہ شخص جو ماسٹرز یا پی ایچ ڈی کر
لے اس کااچھا لکھاری ہوناضروری نہیں ۔اس کے پاس اردو کی جانکاری ہوتی ہے تو
وہ لکھنا شروع کردیتا ہے لیکن وہ ایک مستندلکھاری نہیں ہوتا ۔ایک منجھے
ہوئے رائٹر کی تعریف مختلف ہے ،یہ پروردگار کی دین ہے وہ جس کو چاہے عطاء
کر دے ۔جو وہ لکھتا ہے شاید اس نے وہ پڑھا ہی نہ ہو جہاں پروردگارِ عالم کی
مہربانی ہو وہاں ڈگری بے معنی ہوجاتی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں
نے کہا کہ میں پیدائشی لکھاری ہوں مجھے یہ طے کرنا ہی نہیں تھا کہ میں نے
لکھنا ہے یا نہیں میں دنیا میں لکھنے کیلئے ہی آیا تھا۔ انہوں نے انکشاف
کیا کہ میں نے گیارہ سال بینکنگ کی اور شاندار بینکنگ کی ، انہوں نے کہا
میں ایک مشہور بینکر تھا، میں شروع میں بنک کا چھوٹا اوربعد میں
بڑاآفیسربنا لیکن جس کام کیلئے مجھے بھیجا گیا تھا پروردگار مجھے وہیں لے
آیا۔اس میں شوق یا فیصلہ یا کسی کا حوصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ایک
اورسوال کے جواب میں خلیل الرحمن قمر نے کہا کہ یہ سوال عموماً کیا جاتا ہے
مگر اس سے اعتماد کا کوئی تعلق نہیں ہے یہاں حکم الٰہی ہے اس کو بجا لانا
ہے تو اس میں اعتماد ہو نہ ہو جب ربّ العزت نے آپ سے لکھوانا ہے تو آپ نے
لکھنا ہے ۔
میرے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے جب اپنی پہلی کہانی
لکھی تواس وقت میری دس گیارہ سال تھی جب وہ شائع ہوئی تواسے خوب سراہاگیا ،
اﷲ تعالیٰ کے فضل سے میرے پہلے پلے کوبھی شاندارکامیابی ملی ، پہلی فلم
لکھی تو وہ بھی ہٹ ہوگئی ، پھر ایک پنجابی فلم لکھی وہ بھی ہٹ ہوئی۔ خلیل
الرحمٰن قمر نے کہا ان کامیابیوں میں میراکوئی کمال نہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ
کی دین ہٹ تھی۔اگر یہ بات سب کو سمجھ آجائے تو آپ کو بہت سے خلیل الرحمٰن
قمر ڈھونڈنا نہیں پڑیں گے۔آپ نے ڈھونڈنے والی آنکھ بند کر لی ہوئی ہے ، آپ
نے ایک ضابطہ کار بنا لیا ہوا ہے کہ اس پہ فٹ لکھاری آتا ہے حالانکہ لکھاری
کسی ضابطہ پہ فٹ نہیں آتا۔ خلیل الرحمن قمر نے اپنی زندگی کا دلچسپ واقعہ
بتاتے ہوئے کہا کہ جب ان کا میٹرک کا رزلٹ آیا تو اس وقت وہ پنجاب آرٹس
کونسل میں ٹرائل ڈائریکٹر تھے۔ امجد اسلام امجد اس وقت ڈرامہ کے ڈپٹی
ڈائریکٹر تھے ان کے ساتھ ان کے دوست احمدفراز ہوتے تھے ،وہ بہت نستعلیق
آدمی تھے افسانہ نگار تھے ۔ احمد فراز نے پوچھا کتنے نمبر ہیں میٹرک میں تو
بچہ ظاہری بات ہے سب سے زیادہ مارکس ہی بتائے گا تو میں نے 746 نمبر بتائے
تو وہ مسکرا دیے مجھے پتہ چل گیا کہ میں غلطی کر گیا ہوں مجھے بہت شرمندگی
ہوئی۔ میں خاموش ہو گیا ۔ واپس گھر لوٹا غریب بچہ تھا میرے پاس ڈکشنری نہیں
تھی تو میرا گھر تھا 24 نمبر اور لین 20 سے شروع ہو کر 41 نمبر تک تھی ، ہر
گھر سے ڈکشنری کا پوچھا ٹھیک سے یاد نہیں شاید 39 نمبر گھر تھا ایک آپی نے
مجھے اس وعدے پہ ڈکشنری دے دی کہ تم آدھا گھنٹہ استعمال کرکے مجھے واپس
کردو گے خیر میں نے آدھا گھنٹہ سے زیادہ استعمال کی ، دیکھا تو وہ چھنتالیس
نہیں تھا وہ چھیالیس تھا ، اور اس بات پر آج بھی شرمندہ ہوں ۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ ڈکشنری اب آپ کے دماغ کے کسی
پچھلے حصہ میں موجود ہے تو اس پر خلیل الر حمن قمر نے کہا کہ ہاں اس کے بعد
تو اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس کے بعد میں نے متعدد ڈکشنریاں خریدیں اس میں
میری بہت زیادہ محنت اور کوشش ہے مگر میری محنت سے زیادہ مجھے پروردگار نے
نوازاہے ۔ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے خلیل الرحمٰن قمر نے بتایا کہ میر ے
والدین نے مجھے لکھاری بننے میں قطعی سپورٹ نہیں کیا بلکہ وہ لکھنے پر مجھے
باقاعدہ ماراکرتے تھے ، انہوں نے کہا کہ شاید میں دنیا میں کا واحد لکھاری
ہوں جس کو لکھنے پہ مار پڑتی تھی۔ انہوں نے کہا میں غریب بچہ تھا میرے
والدین کو یہ معلوم تھا کہ اگر یہ بچہ پڑھ گیا تو خاندان کو غربت سے نکال
لے گا مجھے یہ نہیں لگتا تھا کہ وہ صحیح سوچ رہے ہیں لیکن ان کو لگتا تھا
اور پھر الحمدﷲ ایسا ہی ہوا ہے میں نے والدین کی خواہش کے آگے سر تسلیم خم
کیا اور پھرمیں نے وہ جو لکھا چھپا ہوا تھا سب بوریوں کی بوریاں پھاڑدیں
اور اس رد عمل میں ، میں نے پندرہ سال اردو نہیں بولی بلکہ اردو میں اپنا
نام تک نہیں لکھا ہے۔ میرے اباکہاکرتے تھے تو بس انگریزی پڑھ پاکستان میں
کسی کو کوئی زبان سمجھ نہیں آتی انگریزی پڑھو باقی تمہیں کچھ آتا ہو یانہ
آتا ہو اور وہ صحیح کہتے تھے کیونکہ اس قوم کو کچھ نہیں آتا اس قوم کے
سامنے انگریزی بولو ایک منٹ میں ہمارے لوگ متاثر ہو جاتے ہیں۔ تو پھر مجھ
میں بینکر بننے کی خواہش پیدا ہوئی اور میں بینکر بن گیا ۔میرے سوال کہ پھر
آپ دوبارہ لکھنے کی طرف کیسے مائل ہوئے کاجواب دیتے ہوئے خلیل الرحمن قمر
نے کہا کہ یہ سب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوا میں نے کبھی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ
میں دوبارہ لکھنے کی طرف جاؤں یہ فیصلہ ا ﷲ عزوجل نے کیا انہوں نے کہا کہ
میں نے زندگی بھر اپنا کوئی فیصلہ خود سے نہیں کیا بلکہ مجھے اﷲ تعالیٰ کی
طرف سے حکم آتا ہے اور میں عمل کرتا ہوں۔اس پر میں نے عرض کیا کہ اس کا
مطلب تویہ ہوا کہ آپ نے زندگی میں کچھ بھی اپنی مرضی سے نہیں کیا تو خلیل
الرحمن قمر نے کہا بالکل ایسا ہی ہے میں نے پوری زندگی کچھ بھی اپنی مرضی
سے نہیں کیا۔
|