پانی کے ذخائر میں کمی۔ایک الارمنگ صورتحال۔

تحریر۔پیر فاروق بہاؤالحق شاہ۔
روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت ملک کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی کہ اپنی سالانہ رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ 2025 میں پاکستان کو پانی کے سنگین بحران کا سامنا ہو سکتاہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں فی کس پانی پانچ سو کیوبک میٹر تک دستیاب ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد ہے۔ اس وقت پاکستان میں فی کس پانی تیس لیٹر سے لے کر تین سو پچاس لیٹر تک پانی استعمال ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی کی طلب اور فراہمی کا فرق بڑھ رہا ہے۔ 2011 میں پاکستان میں طلب اور رسد کا فرق 4 فیصد تھا جو 2025 میں 31 فیصد تک ہو جائے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پانی کے استعمال کے سلسلے میں لوگوں کے رویے کو تبدیل کر کے پانی کے بحران پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔پانی کے استعمال میں احتیاط برتنے کا رویہ اختیار کرنے سے پانی کے ضیاع میں 3.6 فیصد سے لے کر 5.6 فیصد تک کمی واقع ہوتی ہے۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پانی کی قلت بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اسلام آباد میں پانی کی قلت 106 ملین گیلن یومیہ تک پہنچ گئی ہے۔ آبی ذخائر سے پانی کی رسد کم ہونے اور زیر زمین پانی خشک ہونے کے باعث شہر میں پانی کی فراہمی کم ہو گئی ہے۔ گھروں اور کمرشل مقاصد کیلئے پانی کا بے تحاشہ استعمال بھی بڑا مسئلہ ہے۔ پانی کے ضیاع کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کے پانی کے حصول پر کوئی زیادہ پیسہ نہیں ادا کرنا پڑتا۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کے مطابق اسلام آباد کے کئی علاقوں میں رہائشیوں کو پانی کے استعمال کے رویہ میں تبدیلی کیلئے کوششیں کی گئی تو پانی کے ضیاع میں نمایاں کمی آئی ہے۔

دنیا میں اس وقت پانی کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا یے۔پینے کے صاف پانی کی فراہمی ایک بڑے مسئلہ کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔پوری دنیا اس وقت اس مسئلہ کو انتہائی سنجیدگی سے لے کر اسکے حل کیلے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن کی معیشت کا بڑا انحصار زراعت پر ہے، اس سے پاکستان کوقریب 18.9فیصد جی ڈی پی حاصل ہوتا ہے۔ ملک کی کل آبادی کا 68 فیصد دیہات میں آباد ہے جن کا ذریعہ آمدن،زراعت، کھیتی باڑی، تجارت یا جانوروں کے پالنے پت ہے جو کسی نہ کسی طور زراعت کا حصہ ہیں۔مگر بڑھتی ہوئی عالمی موسمیاتی تبدیلیوں(جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے) کی وجہ سے پاکستان میں زراعت سے منسلک افراد کو بڑے مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے جس میں صف ِ اول پانی کی ذخائر کی کمی ہے

پانی کی ذخائر میں کمی کیوں ہورہی ہے؟یہ ایک اہم سوال ہے جسکا جواب جاننا ازحد ضروری ہے۔پاکستان میں پانی کے ذخیرے کا ایک بڑا ذریعہ بارشیں ہیں۔بارشوں کی کمی بیشی سے پانی کے ذخائر کی صلاحیت اور صورتحال براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح سندھ میں بھی گزشتہ سال جنوری اور فروری میں بارشیں نہیں ہوئیں جس کی وجہ ستمبر سن 2020 میں بننے والا کمزور لا نینا سسٹم تھا جو امریکہ کی مغربی ٹروپیکل ساحلی پٹی پر سمندری پانی کے ٹھنڈے ہونے کے باعث پیدا ہوتا ہے۔

یہ سسٹم دسمبر سن 2020 تک مضبوط ہو چکا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں موسم سرما کے دوران معمول سے انتہائی کم یا بالکل ہی بارش نہیں ہوئی۔ یہ ایک بڑی موسمیاتی تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے اور ایک پریشان کن صورتحال بھی ہے، کیونکہ بارشوں اور برف باری کی کمی کی وجہ سے پاکستان کے دریاؤں میں پانی کی سطح بہت کم ہو گئی ہے''۔

موسم گرما میں سمندر کے پانیوں کا درجہ بڑھنے سے بحیرہ عرب اور خلیج بنگال میں سائیکلون اور سمندری طوفانوں کی تعداد میں پہلے ہی اضافہ ہو چکا ہے۔جس کا مشاہدہ گزشتہ سال اگست سن 2020 میں کراچی وسندھ کے دیگر علاقوں میں شدید طوفانی بارشوں کی صورت میں دیکھا گیا۔ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہے جس سے بارشوں کا نظام براہِ راست متاثر ہوا ہے۔اس لیے یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہے کہ گزشتہ سالوں میں بارشوں میں غیر معمولی کمی یا وقت پر نہ ہونے سے پانی کے ذخائر اور زیر زمین پانی کی سطح میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔

پانی کے زخائر میں کمی کی دیگر وجوہات۔ سن 2017 میں پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی جانب سے ایک انتباہ جاری کیا گیا تھا کہ اگر پانی کے ضیاع کو روکا نہیں گیا تو 2025 تک ملک میں پانی کی شدید قلت ہو سکتی ہے۔یہ وارننگ اب حقیقت بن کر سامنے آ رہی ہے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک کے 80 فیصد علاقوں کو پینے کا جو پانی دستیاب ہے وہ مضر صحت ہے اور متعددد وبائی امراض کا سبب بن رہا ہے۔پرائم منسٹر ٹاسک فورس فار کلائی میٹ چینج کے سابق رکن اور ڈائریکٹر آف پاکستان واٹر پاٹنر شپ ڈاکٹر پرویز عامر نے ایک ڈیجیٹل ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوے کہا کہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ قیام ِ پاکستان کے وقت ملک میں تقریبا 5 ہزار کیوبک میٹر پانی کے ذخائر تھے جو اب گھٹ کر محض ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گئے ہیں۔ان زخائر میں کمی کی بڑی وجہ ملک کی آبادی میں تیزی سے اضافہ اور ضروریات ِ زندگی کے لئے صاف پانی کا بے دریغ استعمال ہے، جبکہ حکومتوں کی جانب سے بھی پانی کے ذخائر کی حفاظت اور فراہمی کے نظام میں بڑے نقائص ہیں

کون سے اقدامات نا گزیر ہیں؟ ڈاکٹر پرویزعامر کا کہنا ہے کہ'' ملک کے بیشتر علاقوں میں گنا اور کپاس کاشت کی جاتی ہے جو بہت زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلیں ہیں۔زمینداروں اور کسانوں کی اس طرف توجہ نہیں دلائی گئی کہ وہ ایسی فصلیں کاشت کریں جن میں پانی کی کھپت کم ہو۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں درخت لگانے کی شرح انتہائی کم ہے جبکہ چاروں صوبوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے اپنے صدیوں پرانے ایکو لوجیکل سسٹم میں بگاڑ خود پیدا کیا ہے۔ اس میں ساحلی علاقوں میں مینگروز کی کٹا ئی سے سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔جس کے اثرات کبھی بارشوں کی قلت اور کبھی طوفانوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ صرف مخصوص علاقوں میں سونامی ٹری مہم کے بجائے اگر دیگر علاقوں میں بھی تھوڑے تھوڑے درخت اگائے جائیں تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آئیں گے''۔

''ڈے زیرو ''جیسی مہم کی ضرورت ہے! سن 2010 میں جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کی انتظامیہ نے '' ڈے زیرو'' کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا کیونکہ شہر میں پانی کی شدید قلت ہو چکی تھی اور ماہرین نے وارننگ جاری کی تھی کہ صرف تین ماہ میں شہر سے پانی ناپید ہو جائے گا۔

اس کڑی صورتحال سے نمٹنے کے لئے انتظامیہ نے عوام میں شعور اجاگر کرنے کی مہم کا آغاز کیا کہ روز مرہ استعمال ہونے والے پانی کی کھپت کو اگر ہر گھرانہ آدھا کردے تو صورتحال پر قابو پا یا جا سکتا ہے اور حیرت انگیز طور پر یہ اسٹریٹیجی کامیاب بھی رہی۔

پاکستان میں بھی اگر پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے '' پانی کی قدر کیجیے'' مہم کا آغاز کیا جائے اور روز مرہ سے لے کر صنعت و زراعت تک پانی کے استعمال کو کم کیا جائے تو مستقبل کے بڑے بحران سے بچا جا سکتا ہے۔

کیا پاکستان واقعی پانی کے وسائل سے محروم ہے؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان وافر آبی وسائل سے محروم ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ پاکستان بہترین جغرافیائی محل وقوع کی وجہ شاندار آبی وسائل رکھتا ہے لیکن وافرمقدارمیں پانی دستیاب ہونے کے باوجود قیام پاکستان سے اب تک کسی حکومت نے بھی پانی کے شعبہ میں اصلاحات اور آبی ذخائر میں اضافے کو اپنی ترجیح بنایا ہی نہیں جبکہ ملکی آبادی اور ان کی ضروریات میں تو اضافہ ہوتا رہا لیکن آبی ذخائر میں توسیع نہ ہو سکی۔وزرات منصوبہ بندی کے سالانہ پلان 14-2013 میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی پانی ذخیرہ کی صلاحیت صرف نو فیصد ہے جبکہ دنیا بھر میں یہ شرح چالیس فیصد ہے۔اسی طرح فلڈ کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ 2013ء کے مطابق پاکستان کے مشرقی اور مغربی دریاؤں میں سالانہ ایک سو چوالیس ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی آتا ہے جس کا صرف چھیانوے اعشاریہ آٹھ فیصد حصہ صوبوں کے استعمال میں آتا ہے اور بقیہ پانی ضائع ہو جاتا ڈیم، نہریں، تالاب اور کنویں وہ زرائع ہیں جن میں پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے نظام آبپاشی کا شمار دنیا کے بڑے نیٹ ورکس میں ہوتا ہے جو کہ 45 ملین ایکڑ رقبے پر محیط زرعی اراضی کو سیراب کرتا ہے۔ یہ نظام بنیادی طور پر تین بڑے ذخائر منگلا، تربیلا اور چشمہ پر مشتمل ہے جبکہ 19 بیراج، 12 انٹر ریور لنک کینالز،45 انڈیپینڈنٹ اری گیشن کینالز اور 143 درمیانے ڈیمز (جنکی اونچائی 15فٹ یا اس سے زیادہ ہے)۔تاہم افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک پانی ذخیرہ کرنے کے ان ذرائع میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں کیا گیا، چنانچہ اس غفلت اور موسمیاتی تغیر کے نتیجے میں گزشتہ 67 برسوں (1950 سے 2013 تک) کے دوران شدید نوعیت کے 21 سیلابوں کی تباہی کی وجہ سے پاکستان کو مجموعی طور پر 37 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

چھ لاکھ مربع کلومیٹر(603,942Sq.km) سے زیادہ رقبے پر قیامت ڈھانے والے یہ سیلاب گیارہ ہزار 572 افراد کو نگل چکے ہیں جبکہ ایک لاکھ 88ہزار 531 دیہات زیرآب آنے وجہ سے بڑی تعداد میں زرعی فصلیں اور مکانات تباہی سے دوچارہوئے جبکہ سال 2010 کے سیلاب کو پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب قرار دیا جاتا ہے جس نے 20 ملین لوگوں کو متاثر کیا تھا.برسوں پہلے نیشنل فلڈ پروٹیکشن پلان میں پانی کے شعبہ میں ملک کے موجودہ انفراسٹرکچر کی تعمیرنو اور آبی وسائل میں توسیع کے لیے قابل عمل منصوبہ پیش کیا گیا تھا، لیکن بدقسمتی سے اس پر کوئی عمل نہیں ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ جولائی تا ستمبر مون سون سیزن میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتے ہی ملک کے بیشتر علاقوں میں سیلاب کے خطرات منڈلانے لگتے ہیں۔

پاکستان میں کراچی سے لے کر بلوچستان تک تقریباً ڈیڑھ ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی موجود ہے جو قابل استعمال پانی کے حصول کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے کیونکہ قابل استعمال پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے زریعے نہ صرف پانی کی بچت کر رہے ہیں بلکہ اپنے آبی ذخائر میں اضافے کے لئے تالاب، جھیلوں اور ڈیموں کی تعمیر پر بھی خصوصی توجہ دے رہے ہیں جبکہ سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کا عمل ڈی سیلینیشن اور ریورس اوسموسس سسٹم بھی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔

اگر پاکستان کے حکمران طبقے نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے، توپانی کی قلت سے صنعت، زراعت سمیت متعدد شعبے تباہ ہو جائیں گے جس سے ملک میں قحط اور سول وار کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورتحال کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی جاے

 
Muhammad Saleem
About the Author: Muhammad Saleem Read More Articles by Muhammad Saleem: 8 Articles with 7103 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.