تدفین کچھ تو بہر ملاقات چاہیے

زندگی ہمیں ایک ایسے انجانے موڑ پر لے آئی ہے جہاں زندہ رہنا یعنی کسی نہ کسی طور سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنا ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بلکہ ”مشن اسٹیٹمنٹ“ ٹھہرا ہے! اِس ایک goal نے باقی تمام چیزوں کا بوریا بستر گول کردیا ہے! اب زندگی اِس ڈھب سے گزر رہی ہے کہ لوگ رات دن فکر معاش میں گم رہتے ہیں۔ زندہ رہنا کچھ اِس قدر ”ٹائم کنزیومنگ“ ہوگیا ہے کہ لوگوں سے ملنا تو دُور کی بات رہی، اپنے وجود سے ملاقات کی گنجائش بھی پیدا نہیں ہو پاتی!

وقت کی کمی حواس پر کچھ ایسی چھائی ہے کہ جینے والوں کو مرنے کا بھی خیال نہیں آتا! سوال ترجیحات ہی کا نہیں، اِخراجات کا بھی ہے۔ جس جسم کو گل سڑ کر مٹی میں مِل جانا ہے اُسے ٹھکانے لگانے کا اہتمام کرنے میں جیتے جاگتے لوگ ٹھکانے لگ جاتے ہیں! اِس مہنگائی کے زمانے میں مرنا بھی آسان نہیں۔ رسموں کا ایک سلسلہ ہے جسے نبھانا پڑتا ہے، ورنہ مُردہ شاید بخشا نہیں جائے گا! ذرا سی آخری ہچکی لیکر آنکھیں موند لینے والے کے لیے اِتنا کچھ کرنا پڑتا ہے کہ لوگ اب موت سے نہیں، مرنے سے ڈرتے ہیں! صورت حال جب یہ ہو تو اُنہیں دعائیں دیجیے جو دُنیا سے رخصت ہوکر خاندان کے لوگوں کو مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کے معاملات سے باخبر ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں!

جس گھر میں موت واقع ہوئی ہو وہ بھی دور سے پہچانا جاتا ہے ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ مَیّت کا گھر دیکھتے ہی دیکھتے عجیب و غریب واقعات کی صورت میں رونما ہونے والے زلزلے کا ایپی سینٹر بن جاتا ہے! سوگوار خاندان سے گلے مل کر اُن کے لیے آنسو بہائے جاتے ہیں جن سے ملنے کی توفیق برسوں نہیں ہوتی تھی اور جو ملنے کے لیے بس بے تاب ہی رہتے تھے۔ بہت سے بزرگ بے چارے ملنے کے لیے تڑپتے ہی رہتے ہیں مگر اُن سے ملنے اور حال پوچھنے کی توفیق کم لوگوں کو ملتی ہے۔ اور جب اُن بزرگ کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو کچھ مت پوچھیے کہ کتنی اعلیٰ درجے کی اداکاری کے ذریعے رنج اور غم کا اظہار کیا جاتا ہے! ایسے مواقع پر ”اداکارانہ آنسو“ دیکھ کر مرنے والے کا دل بھی پگھل تو جاتا ہوگا!

ہائے رے بے حِسی کہ جنہیں ہم جیتے جی پلٹ کر نہیں پوچھتے اور سرد خانے میں رکھتے ہیں اُنہیں بعد از مرگ بھی سرد خانے میں رکھنا اپنا فرض گردانتے ہیں! اِس کی غایت یہ ہے کہ خاندان میں مَیّت اب سوگ ہی کا ہنگام نہیں، ایک بڑا ”فیملی ایونٹ“ اور بہت حد تک ”گیٹ ٹوگیدر“ بھی ہے! تمام تفصیلات کے ساتھ جائزہ لیا جاتا ہے کہ کون کون آ رہا ہے، کون نہیں آ رہا۔ جو آ رہا ہے وہ کیوں آ رہا ہے اور جو نہیں آ رہا وہ کیوں نہیں آ رہا! انسان کو ہر ایونٹ کی تیاری کرنی چاہیے۔ پھر بھلا مَیّت میں جانے کے لیے خصوصی تیاری کیوں نہ کی جائے؟ دل کی حالت چاہے کچھ ہو، چہرے پر تو سوگ دکھائی دینا چاہیے۔ اب تک تو خواتین نے احتراز کیا ہے یا شاید اُن کا ذہن اِس طرف گیا ہی نہیں مگر ہوسکتا ہے کہ بہت جلد بیوٹی پارلرز مَیّت کے لیے بھی خصوصی میک اپ اور میک اوور متعارف کرادیں! اِس صورت میں مَیّت والے گھر ہی کا نہیں، تدفین میں شرکت کرنے والوں کی بھی واٹ لگ جایا کرے گی! بعض سیانے مرد خاندان میں مَیّت کی اطلاع ملتے ہی اہلیہ سے کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ دیتے ہیں کہ اُس کا تھوبڑا پُھول جاتا ہے اور ”مَیّتی میک اپ“ کا ممکنہ خرچ بچ جاتا ہے!

ہم روزمرہ زندگی میں کسی بھی موضوع پر بلا تکلف جی بھر کے باتیں کرسکتے ہیں، تو پھر مَیّت کے موقع پر میں موضوعات کی کمی کیوں محسوس ہونے لگی؟ لوگ میّت کو گھر سے مسجد اور پھر قبرستان تک لے جائے جانے اور تدفین کی تیاری کے دوران بھی دُنیا بھر کے موضوعات کو پامال کرتے رہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو مرنے والے میں طرح طرح کی خوبیاں تلاش کی جاتی ہیں اور دوسروں کو بھی اِن سے کماحقہ آگاہ کیا جاتا ہے۔ اِن میں سے بیشتر خوبیاں تو وہ ہوتی ہیں جن کا مرنے والے سے دُور کا بھی تعلق نہیں ہوتا! چند رسمی جملے ادا کرنا سب اپنے پر فرض تصور کرتے ہیں، خواہ اُنہیں سُن کر بھری ”بزم مَیّت“ میں ہنسی یا قہقہہ ضبط کرنا محال ہو جائے! مثلاً ”وسیم بھائی تو ہر ایک سے ہنس کے ملتے تھے۔“ چاہے حقیقت یہ ہو کہ وسیم بھائی نے زندگی بھر کسی سے سیدھے منہ بات نہ کی ہو اور ہمیشہ تیوری پر بل چڑھائے رہے ہوں! یہ تحسین اِس قدر خشوع و خضوع سے کی جارہی ہوتی ہے کہ مرنے والے کا بس نہیں چلتا کہ کفن پھاڑ کر اُٹھے اور زندگی بھر کی محنت سے پیدا کی ہوئی بدمزاجی کو خوش اخلاقی قرار دینے والے کا گلا دبا دے! مرنے والا 80 سال کا ہو تب بھی رسمی طور پر کہا جاتا ہے کہ رب اچھے لوگوں کو ”جلدی“ اٹھا لیتا ہے! اب آپ ہی بتائیے کہ وقت کی پیمائش کے کس نظام کے تحت 80 سال میں انتقال کو جلدی اُٹھالیا جانا قرار دیا جائے گا؟ (ہوسکتا ہے کہ اِس جملے میں یہ طنز پوشیدہ ہو کہ بھئی مرنے والا اچھا ہوتا تو زندگی اور موت کا مالک 80 انتظار کیوں کرتا!)

تدفین کے بعد سوگواروں کو ذرا سُکون کا سانس لینے کا موقع ملتا ہے تاکہ تازہ دم ہوکر دنیا بھر کے موضوعات پر خیالات کے اظہار کا ایک نیا سلسلہ شروع کریں۔ ابتداءاُس کھانے سے ہوتی ہے جس کا اہتمام مرنے والے کے اہل خانہ تدفین میں شریک افراد کے لیے کرتے ہیں۔ یار لوگ مَیّت کے کھانے میں بھی کیڑے نکالنے سے گریز نہیں کرتے۔ کوئی کہتا ہے مجھے سلیمانی بریانی پسند نہیں۔ کوئی اِس خدشے کا اظہار کرتا ہے کہ مَیّت میں سُلیمانی بریانی کھلائی ہے تو تیجے میں کہیں چنے کے پُلاؤ پر نہ ٹرخا دیا جائے! بعض ستم ظریف تو مَیّت کے کھانے میں بھی صاف بوٹیوں کی فرمائش کرنے سے بھی نہیں چُوکتے! اِس معاملے میں بعض لوگوں کا بے صبرانہ پن دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ اُنہیں خود اُنہی کی تِکّہ بوٹی کھلا دی جائے! اب حالت یہ ہے کہ لوگ بے کھائے پیئے ہی مَیّت میں چلے آتے ہیں کہ تدفین کے بعد تو کھانا ہوگا ہی!

دوسرے معاشروں کا تو کچھ پتہ نہیں، ہمارے معاشرے کی حد تک تو رب نے موت کو رنجشیں مٹانے کے وسیلے میں تبدیل کردیا ہے۔ جیتے جی جس کی شکل دیکھنا گوارا نہ ہو اُس کے مرنے کی اطلاع ملتے ہی لوگ آخری دیدار کے لیے لپک کر پہنچتے ہیں۔ گویا
پھول جسموں کے نہیں، روح کے کِھل سکتے ہیں
جی کے ہم مل نہ سکے، مرکے تو مل سکتے ہیں!

اِسے بھی مرنے والوں کا احسان کہیے کہ وہ موت کو گلے لگاکر بُہتوں کو آپس میں گلے ملنے کا موقع فراہم کرتے ہیں! دُنیا سے اُن کے رخصت ہوتے ہی رنجشیں بھی رخصت ہو جاتی ہیں۔ اِس میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ اُن کے جیتے جی رنجشیں ختم نہیں ہوسکتی تھیں، گویا مرنے والے فساد کی جڑ قرار پاتے ہیں! بعض افراد کسی سے زندگی بھر شدید ناراض رہتے ہیں اور اور اُس کا نام بھی اپنی زبان پر لانا پسند نہیں کرتے مگر اُس کی موت کی اطلاع ملتے ہی ایسی تیزی سے مَیّت کے گھر پہنچتے ہیں گویا یہ اطمینان کرنا چاہتے ہوں کہ بندہ واقعی مرگیا ہے نا! مگر صاحب، سوال یہ ہے کہ کسی کی شکل دیکھنے کے لیے اُس کے مرنے ہی کا انتظار کیوں کیا جائے؟ کیا تمام گِلے شِکوے دور کرنے کے لیے مرنا لازم ہے؟ خیر، یہ سوال سوچنے ہی کی حد تک کارآمد ہے! یاد رکھیے کہ مَیّت کے موقع پر ایسے سوالات banned ہوتے ہیں! یہ موقع صرف اداکاری اور دِکھاوے کے مشاہدے کا ہے!

تدفین کے بعد ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے جو انڈین ڈراموں کی طرح دراز ہوتا جاتا ہے! تدفین کے بعد سوئم کی قرآن خوانی اور فاتحہ۔ اِس کے بعد چار جمعراتوں تک متواتر ملاقاتیں، فاتحہ خوانی اور مُردے کی بخشش کی دعائیں۔ مُردے کی بخشش تو جب ہوگی تب ہوگی، پس ماندگان کے لیے جاں بخشی مشکل ہو جاتی ہے! تعزیت کے لیے آنے والوں کا تانتا سا بندھا رہتا ہے۔ اور بے چاروں کو نہ دن کو چین ہے نہ رات کو آرام۔ مرنے والا تو کب کا خاک کے آغوش میں آرام سے لیٹ چکا، مگر پس ماندگان بے چارے بے آرامی اور خرچے کی سُولی پر لٹکے رہتے ہیں! اور جب مَیّت کا گھر نارمل دکھائی دینے لگتا ہے تو تعزیت کرنے والے بھی نارمل ہوتے جاتے ہیں اور
ہم اِک دوسرے سے خفا ہوکے دیکھیں
بہت مل چکے، اب جدا ہوکے دیکھیں!
کے مصداق تعلقات میں کھنچاؤ پیدا کرتے چلے جاتے ہیں! گویا ایک موت سے دوسری موت کی درمیانی مدت کے لیے منہ پُھلانے کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ دوبارہ مِلنے میں خوب مزا آئے! شاعر کہتا ہے
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
یعنی کم کم بلکہ بہت ہی کم ملیے اور کسی بزرگ کے مرنے کا انتظار کیجیے تاکہ ملنے کا مزا آئے!

(26 جون 2011 کو میرے ہاں 33 ہفتوں کی مُردہ بیٹی پیدا ہوئی۔ یہ کالم اُسی کے نام اور اُسی کی یادگار سمجھا جائے۔)
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486403 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More