ہم بھی کتنے بھولے ہیں جو یہ
سمجھ بیٹھے تھے کہ ہمارے معاشرے کو کسی بھی معاملے میں دماغ کی ضرورت نہیں
رہی اِس لیے راوی کو اب چَین ہی چَین لکھنا چاہیے۔ بہت پہلے غالب نے بھی
پیش گوئی کر ہی دی تھی۔
دل تو دل، وہ دماغ بھی نہ رہا!
بھلا ہو ماہرین کا جنہوں نے یہ نیا وسولہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان
نہ صرف یہ کہ دماغ کا حامل ہے بلکہ یہ دماغ کسی حال میں خوش اور خاموش نہیں
رہتا، یعنی یہ کہ بے ہوشی کی حالت میں بھی انسانی دماغ کے حصے آپس میں
باتیں کرتے رہتے ہیں! ماہرین کی اِس عادت پر تو بس فدا ہو جانے کو جی چاہتا
ہے کہ جو معاملات ہمارے ذہن میں پوری وضاحت اور یقین کے ساتھ پائے جاتے ہیں
اُن کے بارے میں طرح طرح کے وسوسے پیدا کرکے زندگی کے سمندر میں طوفان
اُٹھاتے ہیں! اب اِسی بات کو لیجیے کہ جس دماغ کے بارے میں ہم بھرپور یقین
بلکہ اعتقاد رکھتے تھے کہ فی زمانہ خلوص، دانش، قانون پسندی، گڈ گورننس اور
ڈائنوسار کی طرح معدوم و مفقود ہے، اُس کے بارے میں یہ ”انکشاف سَرائی“ کی
جارہی ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ پایا جاتا ہے بلکہ اُس کے کئی حصے ہوتے ہیں جو
آپس میں رابطہ بھی رکھتے ہیں! ماہرین کی مہربانی سے دل اور دماغ کا فرق بھی
واضح ہوگیا۔ ایک فلمی گیت میں بتایا گیا تھا کہ ”اِک دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے۔
کوئی یہاں گِرا، کوئی وہاں گِرا“ اور اب ماہرین فرماتے ہیں کہ دماغ کے ٹکڑے
اِدھر اُدھر نہیں گرتے بلکہ جُڑے رہتے ہیں اور ”بتیاتے“ بھی ہیں!
مرزا تنقید بیگ کو ماہرین سے چڑ ہی نہیں، نفرت ہے۔ جب بھی کہیں ماہرین
دیکھتے ہیں، ”جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو“ کا ورد کرنے لگتے ہیں!
پہلے لاحول پڑھ کر غائب ہو جایا کرتے تھے، لوگوں کے سمجھانے پر مرزا نے
وظیفہ تبدیل کیا! ہم نے کئی بار اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کھوٹے
سکّے بھی کبھی کام آ ہی جاتے ہیں، بند گھڑی بھی دن میں دو بار درست وقت
بتاتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ قدرت نے ماہرین کا بھی کوئی مصرف رکھا ہو مگر وہ
مصرف اب تک ہماری سمجھ میں نہ آیا ہو! مرزا کہتے ہیں کہ ماہرین بھی بند
گھڑی کی طرح دن میں دو بار درست وقت بتانے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہوں گے مگر
وہ وقت آئے تو سہی!
برطانوی محقق رچرڈ پولاک کا کہنا ہے کہ بے ہوشی کی حالت میں دماغ کے مختلف
حصے آپس میں رابطہ کرتے ہیں اور اِن رابطوں کو مختلف مشینوں کی مدد سے
گرافک شکل میں دیکھنے پر ایسا لگتا ہے جیسے یہ آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔
مرزا کہتے ہیں کہ سائنس دانوں نے تجربات کے ذریعے دماغ کا بے ہوشی کی حالت
میں جائزہ لیا ہے اور ہم کسی تجربے کے بغیر، ہوش و حواس میں رہتے ہوئے، بتا
سکتے ہیں کہ دماغ کے کتنے حصے ہوتے ہیں اور آپس میں اُن کا کیا تعلق ہے۔
مرزا کی اِس بات کو ہم نے بلا چوں چرا تسلیم کرلیا کیونکہ اُن کی بہت سی
لایعنی باتیں سُن کر اپنے دماغ کو کم از کم دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہوا تو
خود ہم نے بھی محسوس کیا ہے! اور اِس احساس کے لیے کسی ”نیورو گراف“ کی
ضرورت نہیں! مرزا کو دیکھتے ہی بہت سے لوگ شاید اِسی لیے (اپنا) سر پکڑتے
دِکھائی دیتے ہیں کہ دماغ کے مختلف حصوں کو مُنتشر ہونے سے بچائیں!
مرزا کا استدلال ہے پاکستانیوں کے دماغ بھی کئی حصوں پر مشتمل ہوسکتے ہیں
مگر بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ یہ حصے آپس میں بہتر رابطہ نہیں
رکھتے۔ ایک حصہ ایران کی سُناتا ہے تو دوسرا توران کی، ایک حصہ کھیت کی
کہتا ہے تو دوسرا کھلیان کی سُنتا ہے! دماغ کے مختلف حصوں کی باہمی گفتگو
میں ربط اِس لیے نہیں پایا جاتا کہ مفادات کا تصادم صورت حال کو بگاڑ کر
رکھ دیتا ہے۔ مرزا کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ دماغ کے مختلف حصوں کی
موجودگی خود دماغ کی موثر موجودگی کا ثبوت یا دلیل نہیں۔ اِس سلسلے میں وہ
یہ مثال پیش کرتے ہیں کہ پنجاب، سندھ، خیبر پختون اور بلوچستان کی نمایاں
موجودگی خود پاکستان کی موثر موجودگی کی دلیل نہیں!
اگر ہم ماہرین کی یہ بات مان لیں کہ دماغ ہوتا بھی ہے اور اس کے کئی حصے
بھی ہوتے ہیں تو پھر عام مشاہدہ یہ ہے کہ دماغ کے بیشتر حصے رشتہ داروں کی
طرح ایک دوسرے سے مُنہ پھلائے رہتے ہیں اور آپس میں کوئی بار آور رابطہ
رکھنا پسند نہیں کرتے! اگر دماغ کے مختلف حصوں کی ایک دوسرے پر لعن طعن کو
بھی سائنس دان رابطہ رکھنے سے تعبیر کرتے ہیں تو اُن کی دانش پر قربان
جائیے!
معاشرے پر نظر دوڑائیے تو قدم قدم پر اندازہ ہوگا کہ دماغ کے مختلف حصے آپس
میں کوئی ربط نہیں رکھتے، بلکہ ایک دوسرے سے متصادم رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں سے اٹا پڑا ہے جن کے دماغ کے حصے آس میں ذرا بھی
میل نہیں رکھتے۔ اِس پر بھی وہ کس طور زندہ ہیں، یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے۔
مگر صاحب، قدرت نے تو کہیں بھی یہ شرط نہیں رکھی کہ زندگی کا تسلسل
”بادماغی“ یا ”باذہنی“ پر منحصر ہے! ایسا نہ ہوتا تو آج پاکستان کی آبادی
چند ہزار نفوس پر مشتمل ہوتی!
کبھی آپ نے اخبارات میں کسی منتخب ایوان کی کارروائی پڑھی ہے؟ ضرور پڑھیے
تاکہ اندازہ ہو کہ کسی ایک انسان کا دماغ کیسی کیسی متضاد باتیں سوچ سکتا
ہے! اور وہ بھی کسی بھی درجے کی شرمندگی محسوس کیے بغیر! میڈیا پر سیاست
دانوں کی باتیں سُنیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دماغ کے تمام حصے بیک وقت بول
رہے ہیں! اور اِن تمام حصوں کے مفادات یکسر مختلف ہیں اور اِن میں سے ہر
مفاد کی تکمیل قومی مفاد کا تقاضا ہے!
شادی کی تقریب میں جائیے تو کھانے کی میز پر اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو
دماغ کے کسی بھی حصے پر کوئی اختیار نہیں۔ ایک حصہ کہتا ہے پلیٹ میں بوٹیاں
بھرلو، دوسرا کہتا ہے ایک کونے میں تھوڑی سی کھیر بھی ڈال لو، تیسرے کی
فرمائش ہوتی ہے کہ تھوڑا بہت سلاد بھی ہونا چاہیے اور چوتھا کہتا ہے ابے
تافتان کے دو چار ٹکڑے تو رکھ۔ دماغ کے مختلف حصوں کی بات مانتے جائیے اور
پھر اُس کا ٹیکنی کلر نتیجہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ پلیٹ دیکھتے ہی دیکھتے کسی
عام سی کمرشل فلم کا منظر پیش کرنے لگتی ہے جس میں رومانس، سسپنس، کامیڈی،
ٹریجڈی.... سبھی کچھ بدرجہ اتم پایا جاتا ہے! اور اِن تمام چیزوں کو ٹھونس
ٹھونس کر پیٹ میں اُتارنے کے بعد ”ٹھنڈی والی کولڈ ڈرنک“ پینا بھی لازم ہے
کہ دماغ کا ایک حصہ شاید شدید گرمی کی حالت میں چائے اور شدید سردی میں
کولڈ ڈرنک کی فرمائش کرنے پر مامور ہوتا ہے!
اب خواتین کے دماغ ہی کی مثال لیجیے۔ ایسا لگتا ہے کہ اُنہوں نے دماغ کے
صرف اُس حصے کو ایکٹیو حالت میں رہنے دیا ہے جو شاپنگ اور بناؤ سنگھار کی
تحریک دیتا ہے! شوہر دن بھر محنت مشقت کرکے گھر آئے تو دماغ کے کئی حصے
بیوی کو طرح طرح کے گلے شکوے کرنے پر تو اُکساتے ہیں مگر کوئی ایک آدھ حصہ
بھی یہ نہیں کہتا کہ بھئی، لوٹ کے بدھو گھر کو آیا ہے تو اِس کی خدمت میں
ایک آدھ گلاس شربت ہی پیش کردو!
اب کیا کیا جائے؟ جب دماغ کے حصے آپس میں رابطہ نہیں رکھ پاتے، ایک دوسرے
کی بات سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں تو پھر ہم کس طور زندگی بسر کریں؟
مرزا کو دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کامیاب وہی ہیں جو دماغ کو استعمال
کرنے سے گریز کرتے ہیں اور دوسروں کو دماغ کے استعمال سے متنفر کرتے ہیں! |