کہاں تمام ہوئ داستان بسمل کی :داستان ناتمام اور نظام الدین اسیر ادروی

مولانا اسیر ادروی کی زندگی کا سفر ایک چھوٹے گاؤں سے شروع ہوا، جہاں دینی علمی ادبی ماحول نہیں تھا،علماء و صلحاء کی پر نور مجلسیں نہیں تھیں،ذہن و دماغ کو وسعت اور نظریات کو ترقی بخشنے کے اسباب مفقود تھے،رسوم و رواج بدعات و خرافات ماحول میں رچا بسا تھا، مسلکی تشدد و عناد کی فضا تھی،حصول علم کے لئے مراحل آسان نہیں تھے، مساجد و مدارس بھی جماعتوں کے زیر اثر تھے، جہاں دوسری جماعتوں کے لئے قدم رکھنا بھی جان سے کھیلنے کے مترادف تھا، لاٹھیاں بھانجی جاتی تھی، خون میں نہلا دیا جاتا تھا،ایک ہی کلمہ پڑھنے والے ایک دوسرے سے نفرت و عداوت کرتے تھے، ادری جو مولانا کا وطن ہے ان حالات سے دوچار تھا،

مولانا اسیر ادروی نے ان حالات کی قید سے نکل کر حصول علم کے لئے کوششیں کیں، پریشانیاں اٹھائیں، بھوک پیاس کی شدت کو برداشت کیا، والدین کی شفقت و محبت کو خیر آباد کہا، حصول علم کے لئے پیادہ پا سفر کیا، ادری سے مؤ غازی پور جون پور مبارک پور مختلف مدارس میں رہے، اور تشنگی علم سے سیرابی حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہے، دل میں حصول علم کے لیے تڑپ تھی، ماحول سازگار چاہتے تھے، عزت و غیرت بھی داؤ پر نہیں لگانا چاہتے تھے، اسی وجہ سے دارالعلوم مؤ کو ترک کیا، زندگی بھر ان کا یہی مزاج باقی رہا،غیرت وانا پر کبھی حرف نہیں آنے آیا،دارالعلوم دیوبند میں داخلہ کے لئے کوشیشیں کی لیکن کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ، اس کے باوجود آپ ہمت و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھتے رہے، اور منزل مقصود کی جانب رواں دواں رہے،مدرسہ شاہی مراد آباد سے فارغ ہوئے، اور میدان عمل میں قدم رکھا ، جنگ آزادی کی تحریک شباب پر تھی، مولانا ابتدا سے ہی جمیعت علماء ہند کے نظریات سے گہری انسیت رکھتے تھے، طالب علمی کے آخری ایام میں آپنے جنگ آزادی کی تحریک میں حصہ لیا، احتجاج میں شریک ہوئے، فراغت کے بعد جب وطن عزیز پہنچے تو وہاں بھی آپنے سیاسی سماجی امور میں حصہ لیا، اتحاد و اتفاق کی فضا عام کرنے کی کوشش کی مسلکی اور مذہبی منافرت کو کم کرنے کے لئے کوشاں رہے، گاؤں میں مدرسہ کی داغ بیل ڈالی، اور انتظامی صلاحیتوں سے اسے ترقی سے ہمکنار کیا، جمیعت علماء ہند کی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے، جس کے انعام کے طور پر آپ کو لکھنؤ کے صوبائی سطح کے دفتر میں بطور سکریٹری متعین کیا گیا، چار سالوں تک آپ اس دفتر میں خدمت انجام دیتے رہے، اس زمانے میں آپنے جمیعت سے وابستہ لوگوں کو اپنی انتظامی صلاحیتوں کا اسیر بنا لیا، اور بہت سے اہم ترین مواقع پر انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، مشکل ترین مراحل کو اپنی دانشمندی سے بآسانی حل کر دیا، کانگریس کے آعلیٰ عہدیداران تک کو اپنی ذہانت و لیاقت اور نظریات سے متاثر کیا، اور وزیر آعلیٰ تک رسائی حاصل کی ، بہت سے اہم ترین مسائل کو حل کیا، جس جمیعت علماء ہند اور عام مسلمانوں کو بھی فائدہ ہوا، چار سالوں تک آپ کی محنت و مجاہدہ کا یہ سفر جاری رہا، اس دوران تلخ و شیریں تجربات آپ کو حاصل ہوتے رہے، جو آپ کی زندگی کے اہم ترین اسباق قرار پائے، اور آنے والی زندگی میں یہ تجربات روشنی کا ذریعہ ثابت ہوئے، چار سال کی محنت کے بعد حالات نے آپ کو لکھنو چھوڑنے پر مجبور کردیا، جس سے یقینی طور پر آپ کو بے بے پناہ تکلیف ہوئ، محبت و عقیدت کرنے والے ، عزت و احترام کرنے والے، جن کی دوستی و تعلق سوہان روح تھی، جن کی رفاقت اپنوں کی یادوں پر حاوی تھی،انہیں چھوڑ کرجانا باعث تکلیف تھا، اس تکلیف کو بھی آپ کو برداشت کرنا، جمیعت علماء ہند کے کاموں میں محنت و مشقت احساس ذمہ داری دلجمعی کے باوجود اوچھی سیاست کا ہدف بننا اس تکلیف کو مزید دوبالا کر رہا تھا، بہرحال مولانا واپس ادری لوٹ آئے، اس عرصہ میں اپنے سیاسی و انتظامی بہت سے تجربات حاصل کئے، اس عرصہ میں آپ کی کوئی کتاب منظرِ عام پر نہ آسکی ،چار کتابیں آپ نے سپرد قرطاس کیں، کمیونزم تجربات کی کسوٹی پر،غداران وطن،نشیب وفراز افسانوی مجموعہ،روداد قفس مجموعہ کلام جو اشاعت کے مراحل تک نہیں پہونچ سکی،اور ان کے مسودے ضائع ہوگئے،درس و تدریس سے بھی وابستگی کا موقع فراہم نہیں ہوسکا،

آپ واپس لوٹ آئے، اور گاؤں کے مدرسے کی ذمہ داریاں سنبھالی، انتظامی صلاحیتیں لکھنؤ کے تجربات سے مزید نکھر چکیں تھیں، اس کے واضح کا اثرات کا مشاہدہ یہاں بھی ہوا، اور مدرسہ آپ کی کوششوں سے مزید ترقی کرتا چلا گیا تعلیمی اور تعمیری اعتبار سے اس میں توسیع ہو گئ، لیکن آپ کی زندگی میں ابھی بہت سے اہم مراحل باقی تھے، مشیت ایزدی آپ سے کام لینا چاہتی تھی، ایسے مقام اور زمین پر آپ کو پہنچانا چاہتی تھی، جہاں آپ کی صلاحیتیں پورے طور پر سامنے آئیں، علم و کمال کا مظاہرہ ہو، تصنیف و تالیف کی صلاحیتیں منصئہ شہود پر آئیں،جامعہ اسلامیہ بنارس سے آپ کو رسالہ جاری کرنے کے مقصد سے دعوت دی گئ، غور و فکر کے بعد آپ نے جامعہ اسلامیہ بنارس کے لئے رخت سفر باندھا، وہاں پہونچ کر آپ کو محبت و اعتماد اور عزت بے پناہ حاصل ہوئ، علمی ماحول میسر آیا، جس کے باعث آپ نے علمی دنیا میں وقار حاصل کیا، درس و تدریس سے وابستہ ہوئے، فراغت کے عرصہ بعد بھی آپ درس و تدریس سے وابستہ نہیں تھے، جامعہ اسلامیہ نے آپ کو موقع فراہم کیا، آپ نے مطالعہ کے سفر کو بھی جاری رکھا،جس کا شوق زمانہ طالب علمی سے ہی بے پناہ تھا،جامعہ اسلامیہ کی لائیبریری اس کے لئے معاون ثابت ہوئی، اور یہاں کا ماحول مولانا کے قلم کو سبک رفتاری عطا کرنے کا سبب بنا، درجنوں کتابیں مولانا نے تصنیف کیں، جن میں آپ کے ذوق تحقیق محنت و مجاہدہ کا عکس نمایاں طور پر نظر آتا ہے، سیرت سوانح تاریخ اسماء رجال جیسے اہم موضوعات پر آپ نے تحقیقی مواد سے روبرو کرایا، اور تاریخ نگاری کی روایت میں اپنی شناخت قائم کی، جمیعت علماء ہند اور مولانا مدنی سے آپ بچپن ہی سے عقیدت رکھتے تھے، جس کے نتیجہ میں جمیعت علماء ہندکی تاریخ آپ نے ترتیب دی جو جمیعت کی عظیم خدمات سے واقفیت حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہیں، جس موضوع پر آپ نے قلم اٹھایا، معلومات کا ذخیرہ جمع کردیا،تشنگی کے سوال بھی مفقود ہوگئے، تحقیق آپ کے مزاج کا حصہ تھی مطالعہ آپ کی فطرت کا جزو خاص تھا، لکھنا آپ کا شوق تھا، زمانہ طالب علمی میں ہی آپ نے ہزاروں کتابیں پڑھ ڈالی تھی، افسانوی اور غیر افسانوی نثر کا آپ نے کثیر تعداد میں مطالعہ کیا تھا، اور بہت سے شعراء کے دیوان بھی انہوں نے پڑھ ڈالے تھے، جس کا اثر ان کی تحریروں میں نظر آتا تھا، نکھرا اسلوب، سادہ و ششتہ عبارتیں ، ان کی تحریروں کا نمایاں وصف ہے، تاریخ نگاری میں ان کا رنگ تحریر مؤرخانہ ہے، اس میں ان کے قلم نے ٹھوکر نہیں کھائی، اور افسانوی رنگ ان کی تحریروں پر نظر نہیں آیا ہے، ان کی خودنوشت پر بھی اسی رنگ اسلوب کی جھلک محسوس ہوتی ہے، جامعہ اسلامیہ بنارس میں آپ کی قلمی جولانیاں شباب پر تھیں، حالانکہ اس سے قبل بھی آپ نے بہت سے مضامین تحریر کئے، جو مختلف رسائل میں شائع ہوئے، کتابیں بھی مرتب کیں، ان کے مسودے بھی ضائع ہوگئے، البتہ انتظامی امور میں آپ کی صلاحیتیں پروان چڑھتی گئ، جس کا مظاہرہ جامعہ اسلامیہ میں بھی مختلف مواقع پر ہوتا رہا، معاملہ فہمی، حالات شناشی آپ کے نمایاں اوصاف ہیں، مشکل سے مشکل معاملہ کو بہت ہی سنجیدگی متانت و ذہانت سے حل کردیتے تھے، اس کی مختلف مثالیں آپ کی زندگی میں موجود ہیں، جن میں ان کی ذہانت و معاملہ فہمی کا بخوبی مظاہرہ ہوتا ہے، جامعہ اسلامیہ میں بھی ان خوبیوں کا مشاہدہ کیا گیا،جامعہ اسلامیہ میں لڑکیوں کے اسکول کی تعلیمی صورت حال کو مفید تر بنانے کے لئے مشورے دینا، طالبات میں مضمون نگاری کی صلاحیت بیدار کرنے کے لئے کوشاں رہنا ، اس کی اہم ترین مثالیں ہیں،اس سلسلے میں آپ نے کتاب بھی ترتیب دی، جس کو نصاب میں شامل کیا گیا، اور طالبات میں اسلامی علوم سے تعلق و وابستگی کا باعث ہوا،

مولانا اسیر ادروی کی ایک خوبی یہ بھی ہے، کہ وہ تمام مواقع پر جرئت و بیباکی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہے، پوری عمر آپنے اپنی انا کا سودا نہیں کیا، اپنے افتخار کا سودا نہیں کیا، تعلق و تملق کو انہوں نے ترقی کی سیڑھی نہیں بنایا ، محنت و مجاہدہ کی بنیاد پر ہی ترقی کی راہ ہموار کی، ایک چھوٹے سے گاؤں سے نکل کر علمی منظر نامے تک پہنچنا یقینی طور بڑا کام ہے، جس میں نشیب و فراز رہے ہیں،اس دلچسپ داستان سے واقفیت کے لئے داستان ناتمام کا مطالعہ کرنا ناگزیر ہے، جس میں ہمارے لئے ترقی کی راہیں بھی موجود ہیں، اور زبان و بیان کی لذت کے اسباب بھی اس کا مطالعہ مولانا کی اسیر ادروی کی زندگی کے اہم پہلووں سے روشناس کراتا ہے، اس کے باوجود کتاب اپنے نام کی تصدیق کرتی ہے، اور بہت سے پہلو اور مقامات تشنہ رہ جاتے ہیں، داستان ناتمام آپ کے گھریلو احوال اور آپ کے اباء و اجداد پر زیادہ تفصیلی گفتگو نہیں کرتی ہے، بس واجبی سی معلومات اس ضمن میں پیش کی گئ ہیں، اس کے علاوہ اس علاقہ کے ماحول سماجی کیفیات کو بخوبی پیش کیا گیا ہے، سیاسی صورتحال پر تبصرہ موجود ہے، مولانا چونکہ کانگریس سے تعلق رکھتے اور جمیعت علماء ہند کی محبت آپ کے رگ و پے میں بسی ہوئ تھی، کتاب میں آپ کے سیاسی نظریات پورے طور پر عیاں ہیں، جنگ آزادی کا مختصر نقشہ، مسلم لیگ کے نظریات اور ان کی خامیاں آزادی کے بعد پیدا ہوئ صورت حال ان تمام چیزوں کو بڑے دلکش انداز میں بیان کیا گیا، طالب علمانہ زندگی کی پریشانیوں مجاہدوں اور علمی ذوق کی واضح طور پر عکاسی کی گئ ہے،میدان عمل میں قدم رکھنے کے بعد جس طرح آپ نے سیاسی اور انتظامی معاملات میں نمائندگی کی اس بخوبی اظہار کیا گیا ہے، کتاب کا ایک بڑا حصہ جمیعت علماء ہند کے صوبائی دفتر میں گذارے ہوئے اوقات کی کارگذاری نظرآتا ہے، جس مولانا کی کوشش جد جہد اور جمیعت علماء ہند سے ان کے اخلاص کے نمونہ بخوبی موجود ہیں، وزیر آعلیٰ تک مولانا نے رسائی حاصل کی، اور جمیعت کے مسائل کو حل کیا، مخالفت دل شکنی ان چیزوں کا بھی تذکرہ کیا ہے، مخالفین کا ذکر ہے، مولانا فطری طور تاریخ نگاری سے رغبت رکھتے ہیں، اس خودنوشت میں بھی تاریخی واقعات کی طرف بھی توجہ مرکوز ہوئ ہے، مثلاً لاہور کے سفر میں جہاں گیر اور اس کی اہلیہ کے مزار کا تذکرہ ہے، وہاں ان کے عشق و محبت کے تاریخی واقعات کا بھی تذکرہ ہے، جس سے کتاب دلچسپ ہوجاتی ہے، لاہور میں جن لوگوں سے آپ کی ملاقاتیں رہیں، ان کا تذکرہ ہے، ان میں سب سے زیادہ تعلق آپ کو احسان دانش سے رہا ہے، جس کا آپنے تفصیلی طور پر تذکرہ کیا ہے، اور احسان دانش کی مزاج و عادات اور ان سے ملاقات کے دلچسپ واقعات ذکر کئے ہیں،

جامعہ اسلامیہ پہونچنا مولانا کی زندگی کا اہم موڑ ہے، جس پر مولانا نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے، وہاں کے ناظم آعلیٰ کی کرم فرمائی کا تذکرہ ہے، جو عزت و احترام آپ کو جامعہ اسلامیہ میں نصیب ہوا, اس پر بھی روشنی ڈالی ہے، اپنی تصنیفات و تالیفات کا تعارف کرایا ہے، اور شہر بنارس کا تعارف کرایا ہے،

کتاب دلچسپ ہے، مولانا اسیر ادروی نے اپنے دلی جذبات و احساسات کو سپرد قرطاس کردیا ہے، جس میں ان کا قلم کہیں کہیں بے قابو ہوگیا، احتیاط اور مصلحت ان پر غالب نہیں ہوئ دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم کا تذکرہ مولانا اعزاز علی امروہوی کا ذکر اس طرح کی مثالیں ہیں، جس کا مطالعہ کرتے ہوئے شدت کا احساس ہوتا ہے، اور عقیدت و محبت کے فقدان کا اثر بخوبی نظر آتا ہے، حالانکہ جمیعت سے وابستہ افراد کی خامیوں کو بھی انہوں نے دو ٹوک بیان کیا ہے،تنظیم میں تعلق و تملق کی بنیاد پر پیدا ہونے والی صورت حال کا بخوبی نقشہ کھینچا ہے، ان کے یہ تجربات مفید اور کارآمد ہیں، ان کی گھریلو زندگی احباب سے تعلقات بھائی بہن کے احوال سے کتاب خالی ہے، شادی کا تذکرہ ہے، بیوی کے انتقال کی تکالیف کا تذکرہ ہے، اس کے علاوہ ازدواجی زندگی کے تذکرہ سے کتاب خالی ہے، لڑکے کا تذکرہ ہے، اس کی ولادت اور تعلیم کا ذکرکچھ خاص نہیں ہے، اس باوجود کتاب دلچسپ ہےاسلوب سادہ عبارت سادہ اور آسان ہونے کے باوجود دلکش اور جاذب ہے، مطالعہ کیجئے تو کرتے جائے، جملوں اور الفاط کا تکرار نہیں ہے، جس سے مزید دلچسپی برقرار رہتی ہے، بر محل اشعار اور مصرع بڑی خوبی سے استعمال کئے گئے ہیں، کتاب کا ایک پہلو اور قابل ستائش ہے، جن لوگوں اور اساتذہ کا تذکرہ ہے، ان کے خاکہ بڑے دلکش، انداز میں پیش کئے گئے ہیں، ان چہرے مہرے چال ڈھال رنگ ڈھنگ ، لباس اور وضع قطع مزاج کو بڑی خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے،

کتاب کا مطالعہ زندگی میں بہت سے مواقع پر رہنمائی کا سبب ہوسکتا ہے، ایک مؤرخ مدرس اور منتظم کے تجربات سے سبق حاصل کرنے کا سبب بن سکتا ہے، اس کتاب کی اشاعت کے بعد مولانا عرصہ دراز تک حیات رہے، اور داستان ناتمام پائیہ تکمیل کو پہونچنا باقی ہے، دیکھنا ہے ان کی زندگی کے ان ایام کو ہمارے سامنے آنے میں کتنا وقت لگے گا،
کہاں تمام ہوئی داستان بسملؔ کی
بہت سی بات تو کہنے کو رہ گئی اے دوست
 

Rahat Ali Siddiqui
About the Author: Rahat Ali Siddiqui Read More Articles by Rahat Ali Siddiqui: 82 Articles with 75670 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.